ساکنان کراچی کے 24ویں عالمی مشاعرے کا احوال

محمد نعیم  منگل 13 اکتوبر 2015
مشاعر میں اہل ادب کے علاوہ ملک کی سیاسی، سماجی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔ فوٹو :فائل

مشاعر میں اہل ادب کے علاوہ ملک کی سیاسی، سماجی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔ فوٹو :فائل

ساکنانِ کراچی کی جانب سے تہذیب، امن اور رواداری کا امین 24 واں عالمی مشاعرہ ہفتے کی شب کے ایچ اے گراونڈ گلشن اقبال میں منعقد ہوا۔ مشاعرے کی مسندِ صدارت پر اردو شعری ادب میں بھرپور خدمات سرانجام دینے والی شخصیت جناب افتخار عارف براجمان تھے۔ جبکہ نظامت کے فرائض کا آغاز مشاعرہ کمیٹی کے کنوینئیر محمود احمد خان نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ ان کے علاوہ سلمان صدیقی، سردار خان اور ڈاکٹر اقبال پیرزادہ نے بھی مختلف حصوں میں نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ محفل شاعری کا آغاز قاری اسدالحق نے تلاوت کلام پاک سے کیا جبکہ ان کے بعد معروف و بزرگ شاعر قمر وارثی نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآل وسلم میں نذرانہِ نعت پیش کیا۔

یہ مشاعرہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تعاون سے منعقد کیا گیا تھا۔ چونکہ کئی برسوں کے بعد مشاعرہ منعقد ہونے جا رہا تھا، لہٰذا عوام نے جوق در جوق شرکت کی۔ اخبارات میں عوام کو اس تقریب میں مدعو کرنے کا وقت 8 بجے شب لکھا ہوا تھا، جب کہ آرٹس کونسل کے ٹویٹر اکاونٹ ArtsCouncilKar@ پر مشاعرہ 9 بجے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مگر مشاعرہ نہ 8 بجے شروع ہوا نہ 9 بجے، بلکہ مشاعرے کا باقاعدہ آغاز رات 11 بجے کے قریب ہوا۔ اس سے قبل پنڈال میں آجانے والے لوگوں کے ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ماضی میں ہونے والے مشاعروں کی ریکارڈنگ اسٹیج کے دائیں بائیں نصب بڑی اسکرینوں پر چلتی رہی، جسے لوگ انہماک سے سنتے رہے۔

مشاعرہ تاخیر سے شروع ہونے کا نقصان یہ ہوا کہ شاعروں کو اپنا کلام بہت عجلت میں پڑھنا پڑھا۔ بڑے شعراء جن کو لوگ خاص طور پر سننے کے لیے آئے تھے ان کو بھی بہت کم وقت ملا، کچھ خواتین شعراء نے اس دوران اپنی آواز کا جادو جگانے کی کوشش کی اور اپنے اشعار و غزلیں ترنم کے ساتھ پیش کیں، جس میں بھی بہت زیادہ وقت لگا۔ 24 ویں عالمی مشاعرے کے مہمان خصوصی کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی تھے۔ جبکہ اہل ادب کے علاوہ مشاعرے میں ملک کی سیاسی، سماجی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے بھی شرکت کی، مشاعرے میں ایم کیو ایم کے سینئر رہنما حیدر عباس رضوی، احمد سلیم صدیقی، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان، سابق سینیٹر عبدالحسیب خان، احمد چنائے، ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی سیدہ شہلا رضا، گلوکار تنویر آفریدی، گلوکارہ عابدہ خانم، اداکار فیصل قاضی سمیت دیگر قابل ذکر شخصیات بھی موجود تھیں۔

مشاعرے میں کراچی، پاکستان کے دیگر شہروں سے آنے والے شعراء کے علاوہ دیگر ممالک سے آئے مہمان شعراء نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ صدر محفل افتحارعارف (ایران) کے علاوہ جن شعراء نے کلام سنایا، ان میں ذکیہ غزل (کینیڈا)، صبیحہ صبا (شارجہ)، شازیہ نورین (جرمنی) امجد اسلام امجد اور عباس تابش (لاہور)، باقی احمد پوری، اعتبار ساجد، خالد سجاد اور فرحت زاہد، ڈاکٹر انعام الحق جاوید (اسلام آباد)، رحمان فارس (فیصل آباد)، نوید ہاشمی (کوئٹہ) راشدہ ماہین ملک، پروفیسر عنایت علی خان (حیدرآباد)، ڈاکٹر پیر زادہ قاسم، رضا صدیقی، اعجاز رحمانی، انور شعور، سعید الکبیر صدیقی، ثروت سلطانہ ثروت، لیاقت علی عاصم، عقیل عباس جعفری، صفدر صدیق رضی، ڈاکٹر اختر ہاشمی، خالد معین، اقبال خاور، سلیم فوز، قیصر وجدی، سلمان صدیقی، حکیم ناصف، علاؤ الدین خانزادہ، شبیر نازش، سلیم ناز اور دیگر شامل تھے۔

مشاعرے میں بلا تمیز رنگ و نسل و زبان، اردو اور شاعری کے پرستاروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دوستوں کی ٹولیوں کے علاوہ پورے پورے خاندان جن میں نوجوانوں کے علاوہ معمر خواتین و حضرات کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی، مشاعرہ سننے آئے ہوئے تھے۔ سامعین کے لیے کرسیوں کے علاوہ فرشی نشست اور گاؤ تکیوں کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر مشاعرے کے حوالے سے (#کراچی_عالمی_مشاعرہ) کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بھی تذکرہ اور منتخب اشعار دیکھنے کو ملے۔

مشاعرے کی روداد اتنی طویل ہے کہ ایک بلاگ میں اس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ اب ان اشعار میں سے جو دورانِ مشاعرہ میں نے اپنی بیاض میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں قارئین کے لیے پیش کر رہا ہوں، ممکن ہے عجلت میں لکھنے کے باعث کسی شعر میں کوئی غلطی رہ گئی ہو، تو اس کے لیے پیشگی معافی چاہتا ہوں۔ باقی قارئین بھی اس مشاعرے میں سنے گئے اشعار میں سے اپنے پسندیدہ منتخب اشعار اس بلاگ کے کمنٹس میں لکھ سکتے ہیں۔ مزاحیہ شاعری میں حکیم ناصف نے خوب داد وصول کی، بالخصوص ان کا یہ شعر بار بار سننے کے لیے فرمائش کی گئی۔

کھالیں مانگ کے لایا تھا ہزار میں
کچھ بلدیہ میں چھن گئیں کچھ شادمان میں
(حکیم ناصف)

نوجوان شاعروں میں سے فیصل آباد سے آئے رحمان فارس کو شرکاء نے بے حد پسند کیا اور ان کی شاعری کی کھل کر داد دی۔ ان کی شاعری سے کچھ انتخاب،

بیٹھے ہیں چین سے کہیں جانا تو ہے نہیں
ہم بے گھروں کا کوئی ٹھکانہ تو ہے نہیں
تم بھی ہو بیتے وقت کے ہو بہو
تم نے تو یاد آنا ہے، آنا نہیں !

صدائیں دیتے ہوئے اور خاک اڑاتے ہوئے
میں آپ سے گزرا ہوں تجھ تک آتے ہوئے
پھر اس کے بعد زمانے مجھ کو روند دیا
میں گرپڑا تھا کسی اور کو اٹھاتے ہوئے
کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
(رحمان فارس)

میں نے مانگی تھی فقط اجالے کی ایک کرن
تم سے کس نے کہا تھا کہ آگ لگا دی جائے
(زکیہ غزل)

یوں گفتگو نہ ہو کہ سبھی کی سمجھ میں آئے
شعر اس طرح کہو کہ اسی کے سمجھ میں آئے
(سلمان صدیقی)

دلوں پہ چوٹ پڑے تو فغاں ضروری ہے
وہاں تو بولو رفیقوں، جہاں ضروری ہے

(ڈاکٹر اقبال پیرزادہ)

کہیں جواب بھی دینے کو دل نہیں کرتا
کہیں سلام سے پہلے سلام کرتا ہوں
(خالد معین)

آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ کہاں جاتے ہیں
عشق ہوجائے تو پھر روگ کہاں جاتے ہیں
(شبیرنازش)

جو فقط جسم سمجھتا ہے کسی عورت کو
ایسے کم ظرف کو اوقات میں رکھا جائے
عقل کہتی ہے کہ میں اس سے کنارہ کر لوں
دل یہ کہتا ہے کہ اسے ساتھ میں رکھا جائے
(سبین سیف)

صاحب میں تیرے ناز اٹھانے نہیں آئی
بس دیکھنے آئی ہوں منانے نہیں آئی
آئی ہوں تیرے شہر کی گلیوں میں بھٹکنے
لیکن کوئی آواز لگانے نہیں آئی
(راشدہ ماہین ملک)

تم اپنے بارے میں مجھ سے پوچھ سکتے ہو
یہ تم سے کس نے کہا آئینہ ضروری ہے
(سلیم فوز)

میرا منصف مجھے جو چاہے سزا دے لیکن
سرنگوں ہو کر عدالت نہیں آوں گا
(نوید ہاشمی)

یہ تو سوچا ہی نہیں تھا میرے پیارے لوگو
تم گزر جاو گے زمانوں کی طرح !
(صبیحہ صبا)

آپ کی یاد تو بہانہ تھی، اشک یونہی بہائے جاتے ہیں
کوئی مرتا نہیں کس کے لیے، صرف قصے سنائے جاتے ہیں
(ثروت سلطانہ ثروت)

کمی ہوتی ہے کوئی گھر کے اندر
وگرنہ کون باہر دیکھتا ہے

عمر اس کی ہے آنکھ کھلنے تک
خواب کو زندگی سمجھ رہے ہو
تم سے ہر شعر میں مخاطب ہوں
تم اسے شاعری سمجھ رہے ہو
(شازیہ نورین)

سرد پرچھائیوں نے مار دیا
مجھ کو تنہائیوں نے مار دیا
ہائے یوسف کی یاد آئی کب
جب مجھے بھائیوں نے مار دیا
(قیصروجدی)

الماس دھر رہ جاتے ہیں، بکتا ہے تو پتھر بکتا ہے
اجناس دھر رہ جاتے ہیں، یہاں انساں کا مقدر بکتا ہے

ضعیفی اس لیے مجھ کو سہانی لگتی ہے
اسے کمانے میں پوری جوانی لگتی ہے
(خالد سجاد)

اگرچہ اِس مشاعرے کا اعلان دو سال بعد ہوا، مگر یقینی طور پر یہ شہر کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ جس شہر میں دہشت اور خوف کے سبب سڑکیں سنسان ہوگئی تھیں، بازار و کھیل کے میدان ویران ہوگئے تھے، جہاں ہر وقت ایک انجانہ سا خوف رہتا تھا کہ ابھی کوئی آئے گا اور آپ کو موت کی نیند سلا دے گا۔ اگر وہاں دنیا بھر سے آئے شعراء کرام رات بھر بغیر کسی خوف کے ادب کی محفل میں شریک ہوں تو بھلا اِس سے اچھی خبر کیا ہوسکتی ہے۔ آخر میں یہ اُمید ہے کہ اِس طرح کے پروگرام کا انعقاد تسلسل کے ساتھ ہوتا رہے، صرف تسلسل کے ساتھ نہیں بلکہ اِس سے بھی بڑے پیمانے پر منعقد ہو تاکہ پوری دنیا تک یہ پیغام جاسکے کہ کراچی اب خوف کی علامت نہیں رہا بلکہ کراچی اب بدل رہا ہے۔

کیا آپ بھی اِس طرح کے پروگرامات کے انعقاد کو خوش آئند سمجھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

محمد نعیم

محمد نعیم

بلاگر کالم نگار اور رکن کراچی یونین آف جرنلسٹ ہیں۔ کراچی اپ ڈیٹس میں بحیثیت سب ایڈیٹر کام کررہے ہیں اور بلاگز کے ذریعے تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ ٹوئٹر پررابطہ naeemtabssum@

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔