عمران کی دھمکی آمیز سیاست

عبدالقادر حسن  بدھ 23 دسمبر 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اخبار اور میڈیا کے دوسرے شعبے زیادہ تر لیڈروں کے ارشادات پر چلتے ہیں اور لیڈر بھی اپنے ارشادات پر چلتے ہیں اگر وہ خبریں نہ بنائیں تو میڈیا میں ان کا ذکر نہ ہو اور یوں وہ عوام کی نظروں سے اوجھل ہو جائیں کیونکہ اب جلسے جلوس خاصے مشکل ہو گئے ہیں، اول تو حاضرین کی دستیابی ایک مشکل مرحلہ ہے بلکہ کوئی بارونق مسئلہ نہ ہو تو چند قریبی دوست احباب کے سوا جلسوں میں کوئی آتا ہی نہیں، اس لیے سیاستدان اب اپنی سیاست زیادہ تر میڈیا کے حوالے کر چکے ہیں جہاں ہمارے جیسے کارکن ان کے منتظر بیٹھے ہیں جو تنخواہ تو اخباروغیرہ کے مالک سے وصول کرتے ہیں مگر کام سیاستدانوں کا کرتے ہیں۔

اس صورت حال کے باوجود بعض سیاستدان میڈیا کے محتاج نہیں ہیں بلکہ کبھی میڈیا ان کا محتاج بن جاتا ہے جیسے جناب نوخیز لیڈر پر جوش عمران خان ہیں جنہوں نے اپنے ہی ضلع میں تھوڑی بہت زمین کے مالکان کو دھمکی دی ہے کہ بندے بن جاؤ اور ایک تعلیمی ادارے کے لیے زمین عطیہ کر دو یا بیچ دو ورنہ کل ہماری حکومت آئے گی تو ہم دفعہ 4 لگا کر اپنی ضرورت کی زمین بلا معاوضہ مفت لے لیں گے، اب تو آپ کو کچھ مل سکتا ہے مگر تب کچھ بھی نہ ملے گا، صاف لفظوں میں خان صاحب کا مطلب یہ تھا کہ پھر تم لوگ ہمارا منہ دیکھتے رہ جاؤ گے اور اپنی زمینوں سے بے دخل ہو جاؤ گے اور یونہی بکریاں چراتے پھرو گے جب کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوئی اچھا سا کام کر سکو گے۔

جناب خاں صاحب جس علاقے کے کاشتکاروں کو عمر بھر کی بے دخلی کی دھمکی دے رہے ہیں، یہ زمینیں ان کی خریدی ہوئی نہیں ان کی آبائی ملکیتیں ہیں جو انھیں نسل در نسل اپنے بزرگوں سے ملی ہیں یعنی دیسی زبان میں ’جدی پشتی ملکیتی‘ ہیں۔ اس پر ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ ہمارے ایک بزرگ جو بہت بڑے جدی پشتی زمیندار مگر درویش صفت آدمی تھے اپنے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کی طرف جا رہے تھے، ان کی سواری کے ساتھ کچھ تو گھڑ سوار تھے مگر زیادہ تر لوگ تیز چلتے جا رہے تھے۔

راستے میں دوسری طرف سے ڈی سی صاحب کی سواری آ رہی تھی، دونوں کا آمنا سامنا ہوا لیکن ہمارے بزرگ اپنی سواری کی رفتار سے چلتے رہے اور ڈی سی صاحب کے احترام میں رک کر سلام کیے بغیر اپنا سفر جاری رکھا۔ یہ سب دیکھ کر انگریز ڈی سی بہت برہم ہوا اور اپنے ہمراہ بلکہ دیسی زبان میں اردل میں چلتے ہوئے کسی نمبردار ذیلدار سے پوچھا کہ یہ کون تھا۔ اس نے بتایا کہ ان کا نام میاں نظام الدین ہے اور یہ مٹھہ ٹوانہ میں ایک خانقاہ کے متولی اور سجادہ نشین ہیں اور اپنا ایک وقار رکھتے ہیں۔

زمیندار ہیں اور اب بھی اپنے گاؤں سے مٹھہ ٹوانہ جا رہے ہیں۔ ڈی سی نے پوچھا ان کی یا ان کے کسی مرید کی کوئی جاگیر وغیرہ، بتایا گیا کہ ان کی تو نہیں البتہ ان کے کئی مرید جاگیردار ضرور ہیں ،کسی نے ایک کا نام بھی لے دیا۔ ڈی سی نے واپس جا کر اس کی جاگیر ضبط کر لی۔ وہ اپنے پیر کے حضور حاضر ہوا جواب ملا فکر نہ کرو اس سے زیادہ ملے گا۔ ان کی تمام جائیداد چونکہ جدی پشتی تھی اس لیے ڈی سی اس کو تو کچھ نہ کر سکا البتہ ان کے مریدوں کو پریشان کرتا رہا۔

آجکل ہمارے خان صاحب جو ان کے بقول اقتدار میں آنے والے ہیں یعنی ڈی سی بننے والے ہیں، اپنے ان ہم ضلع زمینداروں کو نوٹس دے رہے ہیں کہ زمین خوشی سے دے دو ورنہ اقتدار ملنے پر ہم مفت میں لے لیں گے اور پھر معاوضہ وغیرہ کچھ نہیں ملے گا، اب بیچ دو تو قیمت مل جائے گی۔ میں یہ سب پیار سے کہہ رہا ہوں فروری تک زمین چاہیے تا کہ اس پر گھاس لگائی جا سکے۔ یہاں نمل یونیورسٹی کا اسپورٹس گراؤنڈ بنانا ہے۔

سوال یہ نہیں کہ یونیورسٹی کے لیے کتنی زمین چاہیے اصل بات سیاسی ہے کہ ایک سیاستدان کا لہجہ ملاحظہ کیجیے۔ اس سیاستدان کو اس کی امیدوں کے مطابق اس کے بقول اسے جلد ہی اقتدار میں آ جانا ہے اور پھر جب وہ اقتدار میں ہو گا تو حکومتی دفعہ 4 کے تحت یہ زمین مفت میں لے گا۔ پھر کچھ نہیں ملے گا لیکن اب بیچ دو تو کچھ مل جائے گا۔ سوچ لو۔ سیاستدانوں کے ارشادات کی طویل عرصہ تک رپورٹنگ اور ان کی سرگرمیوں پر مشاہدے میں کبھی کسی سیاستدان کی زبان سے دھمکی آمیز گفتگو نہیں سنی بلکہ ہمیشہ نیاز مندی کی بات ہی سنی ہے کیونکہ غرض مند سیاستدان ہوتا ہے جسے عوام کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔

کسی بھی سیاستدان کو قدم قدم پر عوام کے تعاون اور ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ وہ سیاستدان نہیں ہوتا یا یوں کہیں کہ وہ سیاستدان نہیں رہتا۔ کسی الیکشن میں ضمانت بے شک ضبط ہو جائے مگر وہ پھر بھی سیاستدان رہتا ہے کہ الیکشن سیاستدان ہی لڑتے ہیں لیکن جس سیاستدان کے پاس الیکشن میں جانے کا کوئی راستہ ہی نہ ہو یعنی عوام کا کوئی گروہ اس کے ساتھ نہ ہو اس کی حکومت کسی معجزے کی محتاج ہی رہتی ہے چنانچہ جن سیاستدانوں میں عقل اور سوجھ بوجھ  رتی بھر بھی ہوتی ہے وہ ہمیشہ عوام کی خوشنودی کے طلب گار ہوتے ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’عمران خانوں‘ کے لیے سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہوتی حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان ایک دیانت دار اور مخلص انسان ہیں مگر افسوس کہ وہ زندگی کے جس شعبے میں قسمت آزمانے چلے ہیں وہ بڑے ہی دانشمند جہاں دیدہ اور گھاک لوگوں کا میدان ہے جو کوئی بات بھی کہہ سکتے ہیں جو وہ خود بھی درست نہ سمجھتے ہوں مگر اپنی کسی بھی کہی ہوئی بات کی تردید کے الفاظ بھی تیار رکھتے ہیں۔

یاد آتا ہے کہ جناب حسین شہید سہروردی نے لاہور پریس کلب (پرانے) میں پریس کانفرنس رکھی اور جب ان کے سامنے لاؤڈ اسپیکر کا مائیک رکھا گیا تو انھوں نے پوچھا یہ کیا ہے اور جب پتہ چلا تو کہا کہ اسے فوراً ہٹا لو۔ تردید کرنا ایک سیاستدان کا حق ہے اور یہ تو ہر بات ریکارڈ کر لے گا۔ تو عمران خان نے جو کچھ کہہ دیا ہے اور ہر اخبار میں چھپ بھی گیا ہے اس کی تردید ممکن نہیں ہے۔ اب عمران خان کی سیاست کو سیاست بھی سیکھنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔