شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال پشاور

امجد عزیز ملک  پير 4 جنوری 2016

پشاور میں حیات آباد کے مقام پر شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال نے کام شروع کر دیا ہے ،یہ اسپتال ریکارڈ مدت میں تعمیر کیا گیا اور اس پر چار ارب روپے کے اخراجات آئے ہیں،مذکورہ رقم دنیا بھر سے جمع کی گئی، خیبر پختون خوا کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد اسپتال ہے جس کے لیے پاکستانیوں نے اتنی بڑی تعداد میں چندہ دیا۔

اسپتال کے لیے اراضی اس وقت کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے صوبائی حکومت کی جانب سے عطیہ اور پانچ کروڑ روپے کی امداد فراہم کی تھی ،انھوں نے شوکت خانم کینسر اسپتال کا سنگ بنیاد بھی رکھا جس کے بعد عمران خان نے اس اسپتال کی تعمیر یقینی بنانے کے لیے چندہ مہم شروع کی اور 29 دسمبر کو ایک یادگار تقریب میں کینسر کے مرض میں مبتلا چھ سالہ فاخر آفریدی نے فیتہ کاٹ کر اسپتال کا افتتاح کیا۔

بعض عمران مخالف حلقے کہتے ہیں کہ انھوں نے پشاور میں اسپتال اس لیے بنایاکہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے مریضوں کا علاج کیا جا سکے اور فیسوں کی مد میں رقم بٹوری جا سکے،بعض کا کہنا ہے کہ اسپتال میں علاج انتہائی مہنگا اور غریب لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہے،کچھ یہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے لیے آمدن کا ایک مستقل ذریعہ بنا رکھا ہے،کچھ ذرا آگے بڑھتے ہوئے یہ کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ اسپتال پر عمران خان کی جیب سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا اور اربوں روپے کی لاگت سے بننے والا یہ اسپتال خیراتی نہیں کیوںکہ غریب مریضوں کا کسی بھی طور مفت علاج نہیں کیا جاتا،اعتراض کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ اسپتال صاحب حیثیت لوگوں کے لیے ہے جو لاکھوں روپے خرچ کر کے موت کو شکست دینے کی کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں،پشاور کے چند دوست کیوں پیچھے رہے۔

ان کے مطابق عمران خان نے اس اسپتال کے لیے تو چار ارب روپے جمع کر لیے آخر انھیں پشاور کے سرکاری اسپتال کیوں دکھائی نہ دیے ان کے لیے بھی تو چندہ جمع ہو سکتا تھا ان کی حالت کیوں بہتر نہیں بنائی جا سکی کیوںکہ صرف کینسر ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے امراض ہیں جن کے علاج کی کوئی سہولت شہر میں میسر نہیں۔ایسے اور بھی بے شمار سوالات ہیں جنھیں سنتے کان پک گئے اور ان سب کے جواب تلاش کرنا ایک مشکل مرحلہ دکھائی دیتا تھا کہ عمران خان ہی واحد شخصیت جن سے یہ سوالات کیے اور ان کے جوابات سنے جا سکتے تھے۔

عمران خان نے اسپتال کی افتتاحی تقریب میں جو تقریر کی اس میں سبھی سوالوںکا جواب مل گیا مثلًا یہ کہ پشاور میں اسپتال کی تعمیر کا بنیادی مقصد خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کینسر کے مریضوں کا علاج ان کی دہلیز پر کرنا مقصود تھا کیونکہ ملک بھر میں اس صوبے اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مریضوں کی تعداد 70 فی صد کے قریب بنتی ہے۔یہ مریض پہلے لاہور جا کر علاج کرواتے تھے اور اب انھیں علاج کے لیے دور دراز سفر نہیں کرنا پڑے گا۔

رہی بات افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے مریضوں کی تو جاننے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تیس سال سے شہر پشاور اور خاص طور پر اس صوبے کے عوام چالیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ سہہ رہے ہیں جب انسانیت کی خدمت کے ناطے ہم نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تو ان کا علاج کرنے میں کیا مضائقہ ہو سکتا ہے کہ یہی تو انسانیت کی خدمت ہے ورنہ کل تو برطانیہ والے احتجاج شروع کر دیں کہ ان کے مریض کم اور ساری دنیا سے آنے والے کہیں زیادہ ہوتے ہیں تو یہ منطق بھی ختم ہوجاتی ہے کہ اگر پشاور میں اسپتال بنے تو علاج صرف پشاور یا اس صوبے والوں کا ہی ہو ۔

عمران خان نے اس شہر کے تین بڑے سرکاری اسپتالوں کی حالت پر توجہ کیوں نہیں دی اس بارے میں انھوں نے اپنی تقریر میں جامع جواب دے ڈالا ان کا کہنا تھا کہ وہ تو پہلے دن سے ہی سارے اسپتالوں کو ٹھیک کرنا چاہتے تھے انھیں بھی انٹرنیشنل معیار کے مطابق بنانا چاہتے تھے لیکن سیاسی عمل دخل نے ان اسپتالوں کا ستیاناس کر دیا ہے، چند ڈاکٹروں نے عدالتوں سے حکم امتناعی لے کر انھیں اصلاحات سے روک رکھا تھا ،بے شمار رکاوٹیں تھیں مگر اب پشاور ہائی کورٹ نے تمام حکم امتناعی ختم کر دیے ہیں۔

جس کے بعد ان سرکاری اسپتالوں میں سزا اور جزا کا عمل شروع ہو جائے گا اور انھیں بین الاقوامی معیار کے اسپتال بنا کر وہ یہ ثابت کریں گے کہ ان کی حکومت پرائیویٹائزیشن نہیں بلکہ پروفیشنلزم چاہتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ انسانیت کی خدمت کو شعار بنایا جائے، عمران خان نے جب یہ انکشاف کیا کہ صرف لاہور کے شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال کا سالانہ خسارہ ساڑھے تین ارب روپے ہے تو یہ بھی واضح ہو گیا کہ اسپتال بنانے کا سودا منافع نہیں بلکہ صرف اور صرف گھاٹے کا ہے اور فائدہ صرف انسانیت کا ہے۔

عمران خان نے کینسر اسپتال بنانے کی وجہ بھی بیان کر دی بقول ان کے لوگوں کا خیال تھا کہ انھوں نے اپنی والدہ کی یاد میں یہ اسپتال بنایا ہے یہ وجہ ضمنی تھی حقیقت یہ ہے کہ جب ان کی والدہ کینسر میں مبتلا ہوئیں تو وہ انھیں میو اسپتال لاہور لے کر گئے کہ ڈاکٹر سے مشورہ کریں اتنے میں ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو ایک ہاتھ میں پرچی اور دوسرے ہاتھ میں دوائیں لے کر اٹینڈنٹ کو دکھا رہا تھا۔اٹینڈنٹ نے دوائیں دیکھیں اور بولا کہ ابھی مزید دوائیں اور لینی ہیں اس بوڑھے شخص کے چہرے پر دکھ اور مایوسی دیکھی تو پتہ چلا کہ اس کا بھائی کینسر سے مر رہا ہے اور اس کا تعلق نوشہرہ سے ہے وہ سارا دن مزدوری کرتا ہے اور رات کو بھائی کی تیمارداری کرتا ہے مگر اس کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ دوائیں خرید سکے یہ وہ لمحہ تھا جب عمران خان نے اسپتال بنانے کا سوچا اور ان کی والدہ کے انتقال کے بعد وہ پاکستان کے چپہ چپہ اور دنیا بھر میں گئے ۔

جہاں انھوں نے چندہ جمع کر کے لاہور میں اسپتال بنایا اس وقت70 کروڑ کا بننے والا اسپتال دنیا کا بہترین کینسراسپتال ہے جہاں ہزاروں مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے ۔گویا کینسر اسپتال بنانے کی پہلی وجہ نوشہرہ کا کینسر میں مبتلا مریض اور اس کا بوڑھا بھائی اور دوسری وجہ عمران خان کی والدہ بنیں۔پشاور اسپتال کی ایک وجہ یہاں سے تعلق رکھنے والے مریض اور دوسری وجہ لاہور کا شوکت خانم اسپتال بنا جس کی شہرت اور نیک نامی کی وجہ سے لوگوں نے چندہ دیا۔

عمران خان نے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ اسپتال میں ستر فیصد مریضوں کا علاج مفت ہوتا ہے لیکن وہ مریض جو مستحق ہوتے ہیں صرف تیس فیصد لوگ علاج کے لیے رقم خرچ کرتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ایک بیڈ پر پیسے والوں اور دوسرے بیڈ پر ویسا ہی علاج ایک غریب اور نادار مریض کا ہوتا ہے ۔عمران خان کی سیاست سے بھلے کسی کو ہزار اختلافات ہوں خیبر پختون خوا میں ان کی ٹیم میں شامل بہت سے مفاد پرستوں اور نااہل وزیروں مشیروں سے بے شمار گلے ہوں لیکن شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال اس شہر ، صوبے اور ساری دنیا کے لیے ایک نئی زندگی کی نوید ہے جس پر بلاشبہ عمران خان اور اسپتال بنانے والی ٹیم لاکھوں خراج تحسین کی مستحق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔