گھر ہو یا سفر، ریڈیو سب کا ہم سفر!

محمد ارشد قریشی  ہفتہ 13 فروری 2016
ریڈیو کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے حکومتی سطح پر پروگراموں کے انعقاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریڈیو سے روشناس کرایا جاسکے۔ فوٹو: رائٹرز

ریڈیو کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے حکومتی سطح پر پروگراموں کے انعقاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریڈیو سے روشناس کرایا جاسکے۔ فوٹو: رائٹرز

یونیسکو دنیا بھر میں ریڈیو کےعالمی دن کو منانے کے لئے بھر پور اقدامات کررہا ہے اور یہ دن اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ ریڈیو کے ذریعے معلومات تک رسائی اور  بین الاقوامی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے بھی کام کیا جاسکے۔ ریڈیو معلومات کا ذریعہ ہے لیکن تفریح کے لئے بھی ریڈیو کا کردار انتہائی اہم ہے۔ دنیا بھر میں ریڈیو اب بھی معلومات کا بہترین ذریعہ ہے اور خبروں اور تفریحی پروگراموں کی وجہ سے ریڈیو آج بھی بے حد مقبول ہے۔

یونیسکو کے مطابق عالمی سطح پر انٹرنیٹ پر ریڈیو سننے والوں کی تعداد میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صرف امریکا میں 8 کروڑ افراد ریڈیو سننے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی پرائیویٹ اور سرکاری ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کے قیام اور ٹیکنالوجی کے استعمال نے ریڈیو کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کی جانب سے 2008 میں پاکستان میں 15 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد میں کئے گئے سروے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ریڈیو سننے والے 30 فیصد بالغ مرد اور 20 فیصد بالغ خواتین موبائل فون پر ریڈیو سنتے ہیں۔

سفر ہو یا گھر، ریڈیو ہر کسی کا ہم سفر رہا۔ وقت تیزی سے تبدیل ہوا، الیکٹرانک میڈیا میں نت نئی ایجاد متعارف ہوئیں۔ ریڈیو بھی جو پہلے صرف اے ایم تک محدود تھا۔ اس نے ترقی کی ایک اور منزل طے کرکے ایف ایم کا درجہ پایا۔ پاکستان ہی کیا دنیا بھر میں ایف ایم کی نشریات نے سننے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیا۔ ایف ایم  فریکوینسی کے علاوہ بے شمار انٹرنیٹ پر ایف ایم پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔ جہاں لاتعداد آر جے بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور ریڈیو سامعین کو تفریح فراہم کرتے ہیں۔

ریڈیو سننا ایک دلچسپ مشغلہ ہے۔ یوں تو دنیا میں لوگوں نے اپنے آپ کو فارغ وقت میں مصروف رکھنے کے لئے کئی مشاغل اپنا رکھے ہیں، جس سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انہی میں ایک اہم اور دلچسپ مشغلہ ریڈیو لِسننگ ہے۔ پاکستان میں لاتعداد ایسے سامعین ہیں جو ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے بہت سے نشریاتی اداروں کی اردو اور انگریزی نشریات سنتے ہیں۔ جس سے نہ صرف انہیں دنیا میں ہونے والے واقعات کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے بلکہ علمی صلاحیتوں میں بھی بیش بہا اضافہ ہوتا ہے۔ شاید ریڈیو سننے والے قارئین اس شوق کی قدر و قیمت سے واقف ہوں۔

ریڈیو پاکستان کی تاریخ میں بھی بہت سے ایسے پروگرام نشر ہوتے رہے ہیں جو آج تک ہمارے ذہنوں میں نقش ہیں، جن میں ہر اتوار کو صبح نشر ہونے والا بچوں کا پروگرام پھلواری جسے مُنی باجی اور رفیق بھیا پیش کرتے تھے، بچوں کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ اسی طرح بڑے بزرگوں کا مقبول ترین پروگرام گھسیٹا خان تھا اور حامد میاں کے ہاں تھا، جسے بزرگ حضرات شام میں ایک ساتھ بیٹھ کر سنا کرتے تھے۔ اُن شاندار یادوں کے علاوہ آج بھی ریڈیو پاکستان سے بہت سے معلوماتی پروگرام نشر ہوتے ہیں، جس میں اسپورٹس راؤنڈ اپ، صوتی ڈرامے، موسیقی کے پروگرام کے ساتھ ساتھ طالب علموں کے لئے نشر ہونے والا پروگرام تعلیمی خبرنامہ وغیرہ ہیں، جس میں تعلیمی خبریں نشر کی جاتی ہیں۔

کراچی شہر میں ہونے والی سماجی اور ثقافتی خبروں پر مبنی ایک پروگرام شہر نامہ نشر کیا جاتا ہے۔ ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والا پروگرام فوجی بھائیوں کے لئے آج بھی اسی محبت سے پیش کیا جاتا ہے جیسا کہ زمانہ جنگ میں نشر ہوتا تھا۔ جب اس پروگرام کو شروع کیا گیا تو اسی طرح غیر ملکی نشریات بھی پاکستان میں بہت شوق سے سنی جاتی ہیں جو نہ صرف عالمی خبریں نشر کرتے ہیں بلکہ بہت سے تفریحی اور معلوماتی پروگرام بھی سنائے جاتے ہیں۔ ان میں چند ایسے نام ہیں جن سے اکثر قارئین واقف بھی ہیں ان میں بی بی سی، وائس آف امریکہ، چائنا ریڈیو انٹرنیشنل، ریڈیو تہران، سعودی عالمی ریڈیو، ریڈیو صدائے ترکی، ریڈیو جاپان، ریڈیو قاہرہ، ریڈیو کویت اور ریڈیو انڈونیشیا چند ایسے نام ہیں جو پاکستان میں اردو میں پروگرام نشر کرتے ہیں۔

ان نشریات کے سننے والوں کی تعداد میں اب خاصہ اضافہ ہوچکا ہے۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان کے مختلف شہروں، گاؤں، دیہاتوں میں ریڈیو سننے والوں نے لسنرز کلب بنالئے ہیں جو کہ کئی نشریاتی اداروں سے باقاعدہ رجسٹرڈ بھی ہیں، اور ان لسنرز میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو باقاعدگی سے ان نشریات کو مانیٹر کرتے ہیں اور متعلقہ نشریاتی اداروں کو رپورٹ بھی ارسال کرتے ہیں۔

یہ نشریاتی ادارے اپنے سامعین کے درمیان کئی انعامی مقابلے بھی کرواتے ہیں۔ جن کا تعلق مضمون نویسی اور معلومات عامہ سے ہوتا ہے۔ جب سامعین ان مقابلوں میں شرکت کرتے ہیں تو انہیں جوابات کے لئے مختلف کتابیں اور انٹرنیٹ کا سہارا لینا ہوتا ہے۔ جن سے یقینی طور پر ان کی معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے ان مقابلوں میں کامیاب سامعین کونشریاتی ادارے اپنے ملک کی سیر کراتے ہیں، جس کے تمام اخراجات اس نشریاتی ادارے کے ہی ذمہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے سامعین ان مقابلوں میں کامیاب ہو کر چین، ترکی، انڈونیشیا اور کئی ممالک کی سیر کر چکے ہیں۔

یہاں میں ایک دلچسپ بات آپ کے گوش گذار کرتا چلوں کہ کئی طالبعلم جو طالبعلم بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں، یا کررہے ہیں وہ باقاعدگی سے ان غیر ملکی نشریات کو سنتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ ہمارے لئے نہایت مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ ریڈیو کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے حکومتی سطح پر پروگراموں کے انعقاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریڈیو سے روشناس کرایا جاسکے۔

کیا آپ اب بھی ریڈیو کو مستقل بنیادوں پر سنتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

محمد ارشد قریشی

محمد ارشد قریشی

ریڈیو لسننگ سے وابسطہ ہیں، اکثر ریڈیو میں لکھتے ہیں۔ شعر و شاعری اور سماجی کاموں سے دلچسپی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔