بنگلہ دیش; انتقامی پھانسیاں نئی تحریک کو جنم دے سکتی ہیں

عبید اللہ عابد  اتوار 29 مئ 2016
جماعت اسلامی بھارتی بالادستی کے خلاف واحد موثر قوت ہے جسے حسینہ واجد ختم کرنے کے درپے ہے ۔  فوٹو : فائل

جماعت اسلامی بھارتی بالادستی کے خلاف واحد موثر قوت ہے جسے حسینہ واجد ختم کرنے کے درپے ہے ۔ فوٹو : فائل

بنگلہ دیش میں بھارت نواز حسینہ واجد حکومت جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی اور دیگر رہنماؤں عبدالقادر مُلّا، محمد قمرالزمان، علی احسن مجاہد کو پھانسیاں جبکہ جماعت اسلامی کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم، مولانا ابوالکلام محمد یوسف کو جیل ہی میں تشدد کرکے شہید کرچکی ہے۔ مولانا دلاور حسین سعیدی اور میر قاسم علی کو بھی پھانسی کی سزا سنائی گئی تاہم اس پر عمل درآمد باقی ہے۔ پھانسی پانے والے ہر رہنما سے کہا گیا کہ وہ صدرمملکت سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں لیکن سب نے انکار ہی کیا، ان کا کہناتھا کہ ان پر جھوٹے الزامات عائد کرکے مقدمات قائم کئے گئے، رحم کی اپیل کا مطلب الزامات کو درست تسلیم کرنا ہے۔

٭نام نہاد ’انٹرنیشنل وارکرائمز ٹریبونل‘ نے سب سے پہلے جماعت اسلامی کے رہنما عبدالکلام آزاد کو 21جنوری 2013ء کو پھانسی کی سزا سنائی، یادرہے کہ عبدالکلام آزاد کے خلاف مقدمہ ان کی غیرحاضری میں چلایاگیا، بنگلہ دیشی حکام کہتے ہیںکہ وہ اس وقت بھارت یا پاکستان میںکہیں موجود ہیں۔

٭ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبدالقادر ملا کو پانچ فروری2013ء کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ 12 دسمبر2013ء کو پھانسی دیدی گئی۔
٭دلاور حسین سعیدی جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور1996ء سے2008ء تک رکن پارلیمنٹ رہے، دنیاکے500 موثر ترین مسلمانوں کی فہرست میں ان کا نام شامل رہا، انھیں بھی سزائے موت سنائی گئی، بعدازاں اپیلیٹ بنچ نے ان کی سزا کو ’موت تک قید‘ کی سزا میں بدل دیا۔

٭ محمد قمرالزماں بھی بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سینئر اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، صحافی اور مصنف تھے،9 مئی2013ء کو انھیں سزائے موت سنائی گئی اور 11اپریل2015ء کو انھیں پھانسی دیدی گئی۔

٭ چودھری معین الدین پر بھی ان کی غیرحاضری میں مقدمہ چلا کر انھیں بھی 3 نومبر 2013ء کو سزائے موت سنائی گئی، وہ ایک عالمی اسلامی ادارے ’’مسلم ایڈ‘‘ کے سابق چئیر مین، برطانوی ادارے ’نیشنل ہیلتھ سروس ‘ کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

٭ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے بانی امیر پروفیسر غلام اعظم کے خلاف 15جون2013ء کو 90 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ پروفیسر غلام اعظم 23 اکتوبر2014 کو91 برس کی عمر میں دوران قید ہی انتقال کرگئے۔ ان کے خاندان اور جماعت اسلامی کے ذرائع کا کہناہے کہ انھیں جیل میں شدید اذیتیں دی گئیں، علاج کی سہولتیں فراہم نہ کی گئیں۔

٭ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل علی احسن مجاہد کو 17 جولائی2013ء کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ 22نومبر2015ء کو انھیں پھانسی دیدی گئی۔ وہ 2001ء سے 2007ء تک بنگلہ دیش کے سابق رکن پارلیمان اور سوشل ویلفئیر کے وفاقی وزیر رہے۔

٭ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما، سات بار رکن پارلیمان منتخب ہونے والے صلاح الدین چودھری کو یکم اکتوبر2013ء کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ 22 نومبر2015ء کو پھانسی دیدی گئی۔ وہ اپنی پارٹی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن اور پارٹی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء کے پارلیمانی امور کے مشیر تھے۔

٭ علم حدیث کے ممتاز ماہر اور جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر مولانا ابوالکلام محمد یوسف پر بھی مقدمہ چل رہاتھا کہ وہ 2فروری 2014ء کو جیل ہی میں انتقال کرگئے۔

٭ 29اکتوبر 2014ء کو جماعت اسلامی کے مرکزی امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی کو سزائے موت سنائی گئی جس پر عمل درآمد گزشتہ دنوں ہوا۔

٭ دو نومبر2014ء کو جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما ، اسلامی بنک کے ڈائریکٹر ، ڈگانتا میڈیا کارپوریشن کے چیئرمین، ابن سینا ٹرسٹ کے بانی اور رابطہ عالم اسلامی کے ڈائریکٹر میر قاسم علی کوبھی سزائے موت سنائی گئی۔

ان سب رہنماؤں پر قتل عام، خواتین کی بے حرمتی سمیت نہایت بے ہودہ الزامات عائد کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ ’نام نہاد وار کرائمز ٹریبونل ‘ میں چلنے والے مقدمات کے دوران بھی ثابت ہوا کہ ان الزامات کی قطعی طورپر کوئی حقیقت نہ تھی، یہی وجہ ہے کہ جعلی گواہ تیار کرکے، ملزمان کو دفاع کے حق سے محروم کرکے کارروائی کو ’منطقی نتیجہ‘ تک پہنچایا گیا۔

مقدمات ایسے ’’انٹرنیشنل وارکرائمز ٹریبونل‘‘ میں چلائے گئے جو عالمی قوانینِ انصاف سے متصادم ہے، مختلف غیرملکی حکومتوں اورانسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے غیرقانونی قرار دیا۔ اس ٹریبونل کے پہلے سربراہ جسٹس محمد نظام الحق ایسے متعصب شخص تھے، انھوں نے20 برس قبل( جب وہ وکیل تھے)،ایک ’عوامی عدالت‘ لگاکر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سزائے موت دینے کا اعلان کیا تھا۔ ٹریبونل کا سربراہ بننے پر وہ بے حد خوش تھے کہ اپنا دیرینہ خواب پورا کرسکیں گے تاہم پھر اچانک انھیں استعفیٰ دیناپڑا۔ سبب کیاتھا؟ یہ ایک دلچسپ لیکن شرمناک کہانی ہے جو ممتازبین الاقوامی انگریزی جریدے ’اکانومسٹ‘ نے شائع کی۔ اس کہانی نے ٹریبونل کی حقیقت اور حسینہ واجد کے منصوبے کی قلعی کھول کر رکھ دی۔

ہوایوں کہ جسٹس نظام الحق نے برسلز میں ایک بنگالی قانون دان ضیاء الدین سے بذریعہ سکائپ طویل گفتگوکی، مختلف نشستوں میں ہونے والی اس گفتگوکا مجموعی دورانیہ 17گھنٹے تھا جبکہ دونوں شخصیات کے درمیان 320 ای میلز بھی ہوئیں۔ یہ ساری گفتگو اور ای میلز ’اکانومسٹ‘ تک پہنچ گئیں۔ ان میں جسٹس نظام نے کہا: ’’حسینہ واجد حکومت چاہتی ہے کہ میں جلد سے جلد فیصلہ دوں، اور اس خواہش میں یہ لوگ پاگل لگتے ہیں۔ تم ہی بتاؤ، جب استغاثہ نالائقوں پر مشتمل ہے اور ان سے صحیح طریقے سے کیس پیش نہیں ہورہا، تو اس میں مَیں کیا کروں؟ مَیں انھیں کمرہ عدالت میں ڈانٹتا ہوں، مگر ساتھ ہی پرائیویٹ چیمبر میں بلا کر کہتا ہوں، بھائی! ناراض نہ ہوں، یہ سب ڈراما ہے تاکہ غیر جانبداری کا کچھ تو بھرم باقی رہے۔ پھر انھیں یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ کیا کہیں۔ اب تم ہی رہنمائی دو میں کس طرح معاملے کو انجام تک پہنچاؤں‘‘۔

یہ گفتگو ثبوتوں کے ساتھ ’اکانومسٹ‘ لندن کے خصوصی نمائندے نے جریدے کو اشاعت کے لئے بھیج دی ، جریدہ نے فون کر کے جسٹس نظام سے پوچھا کہ ہمارے پاس یہ رپورٹ ہے، وہ جواب میں کہنے لگے: ’’ایسا نہیں ہوسکتا، ہم تو عدالتی معاملات اپنی بیوی کے سامنے بھی زیربحث نہیں لاتے‘‘۔ پھر ’اکانومسٹ‘ نے دسمبر 2012ء کے ایک شمارے میں، خلافِ معمول رسالے کے مدیر نے اپنے ادارتی نوٹ کے ساتھ ساری کہانی شائع کردی جس نے بنگلہ دیش میں تہلکہ مچادیا۔ یوں جسٹس نظام کے پاس استعفیٰ دئیے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔

اقوام متحدہ نے حسینہ واجد حکومت کے قائم کردہ اس وار کرائمز ٹریبونل کے بارے میں کہاکہ یہ بین الاقوامی قانونی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ سن2010ء میں قائم ہونے والے اس خصوصی ٹربیونل کے تمام ججز کا تعلق بنگلہ دیش ہی سے ہے جبکہ اسے ’’انٹرنیشنل وارکرائمز ٹریبونل ‘‘ کانام دیاگیا۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے بھی ٹربیونل کو بین الاقوامی معیار کے منافی قراردیاہے۔ جس معیارکا ٹریبونل ہے، اسی معیار کے ججز اور ویسے ہی گواہان۔

سب سے بڑی بات 42برس بعد قائم ہونے والا یہ ٹریبونل، مقدمات اورپھانسیاں 9 اپریل1974ء کو طے پانے والے سہ فریقی معاہدے کی خلاف ورزی ہیں، جس کے فریقین پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش تھے، معاہدے پر بنگلہ دیش کے وزیربرائے امور خارجہ کمال حسین، بھارت کے وزیر برائے امورخارجہ سورن سنگھ اور پاکستان کے وزیرمملکت برائے دفاع و امور خارجہ عزیز احمد نے نئی دہلی میں دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے میں واضح طورپر لکھاگیاتھا:

بنگلہ دیش نے شملہ معاہدے کا خیرمقدم کیا۔ بنگلہ دیش کے وزیراعظم نے پْر زور انداز میں مفاہمت، اچھی ہمسائیگی اور برصغیر میں تادیر قیامِ امن کے مقاصد میں مدد گار بننے کااعلان کیا۔ اس وژن (Vision) سے نئی روح اخذ کرتے ہوئے نیز ’’برصغیرمیں مفاہمت اور امن و استحکام‘‘ کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر انہوں نے مشترکہ طور پر تجویز کیا کہ گرفتاراور محصور افراد کے مسئلے کو انسانی ہمدردی کی بنا پر حل کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے ایسے تمام افراد کی بیک وقت آبادکاری (Rehabilitation) کی جائے، سوائے اْن جنگی قیدیوں کے، جن کے بارے میں حکومت بنگلہ دیش واضح الزامات کی بنا پر مقدمہ چلانا چاہے۔

195 پاکستانی جنگی قیدیوں کے سوال کو تینوں وزراء نے خصوصی طور پر بحث میں شامل کیا کیونکہ تینوں حکومتیں چاہتی تھیں کہ اس مسئلے کو برصغیر میں جلد از جلد مفاہمت، امن اور دوستی کے لیے حل کردیاجائے۔ بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ نے کہاکہ ان جنگی قیدیوں نے جو زیادتیاں کیں اور جن جرائم کا ارتکاب کیا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے متعلقہ حصوں کے مطابق جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی (Genocide) میں اور بین الاقوامی طور پر اس پر اتفاق پایاجاتاہے کہ ان جرائم کی بنا پر جن کا ارتکاب 195 جنگی قیدیوں نے کیا ہے، کا محاسبہ کیا جائے گا اور قانون کے متعین طریق کار کو لاگو کیاجائے گا۔ حکومت پاکستان کے وزیرمملکت برائے دفاع و امورخارجہ نے کہاکہ حکومت پاکستان اس کی مذمت کرتی ہے اور اْن تمام جرائم پر گہرے دکھ کا اظہار کرتی ہے جن کا ارتکاب کیا گیا ہے۔

تینوں وزراء نے یہ توجہ بھی دلائی کہ بنگلہ دیش تسلیم کرتے وقت حکومت پاکستان نے یہ اعلان کیا تھاکہ وزیراعظم پاکستان بنگلہ دیش کے وزیراعظم کی دعوت پر بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے۔ انہوںنے بنگلہ دیش کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو معاف کردیں اور فراموش کردیں اور ایک نئے انداز سے آغاز کریں، انہوں نے مزید کہا تھا کہ بنگلہ دیش کے لوگ جانتے ہیں کہ معاف کس طرح کیا جاتا ہے۔

خصوصاً پاکستان کے وزیراعظم کی بنگلہ دیش کے عوام کے نام اپیل، جس میں انہوںنے کہاتھاکہ ماضی کی غلطیوں کو فراموش کردیاجائے، بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے کہاکہ بنگلہ دیش کی حکومت رحم کامظاہرہ کرتے ہوئے، مقدمات کو مزید جاری نہ رکھے گی۔ اس پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دیگر جنگی قیدیوں کی طرح 195جنگی قیدیوں کو بھی پاکستان لے جایا جائے اور دہلی معاہدے کی روشنی میں آبادکاری کا سلسلہ جاری کیا جائے‘‘۔

مذکورہ بالا اقتباسات اس معاہدہ کے چند حصے ہیں، جن لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے اور جنھیں پھانسیاں دی جارہی ہیں، ان کے نام نہ صرف 195 جنگی قیدیوں کی فہرست میں شامل نہیں تھے بلکہ عشروں تک انھیں ’’مجرم‘‘ کے طورپرکہیں درج نہیں کیاگیا تھا۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر اچانک مقدمات درج کرکے انھیں کیوں پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا؟ اس کا جواب یہ ہے، سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے بنگلہ دیش کا دورہ شروع کرنے سے پہلے 30جون 2011ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش اور بھارت کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاتھا: ’’بنگلہ دیش سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ بنگلہ دیش کی کم از کم 25 فی صد آبادی علانیہ طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور وہ بہت زیادہ بھارت مخالف ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی لمحے تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عناصر جو جماعت اسلامی پر گرفت رکھتے ہیں، بنگلہ دیش میں کب کیا حالات پیدا کردیں‘‘۔

من موہن سنگھ کی ڈکٹیشن کے بعد جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے خلاف ہاتھ ہلکا رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا چنانچہ ملزمان کو سنگین ترین سزا دینا شروع کردی گئی۔ عوامی لیگ کے سوا بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والے باقی لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کا مذکورہ بالا سنگین جرائم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

بنگلہ دیش کے سابق وزیر بیرسٹر شاہ جہاں عمر، جو ماہر معاشیات، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے مشیر بھی رہے ہیں، انھوں نے پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا، ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں بنگلہ دیش کے دوسرے سب سے بڑے قومی اعزاز ’بیراتم‘ سے بھی نوازا گیا۔ ان کا کہناہے: ’’میں ذاتی سطح پر جماعت اسلامی کے بارے میں 1971ء کے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا۔

لیکن اس لمحے جب بنگلہ دیش میں دانشوروں اور صحافیوں کی بڑی تعداد جماعت اسلامی پر سنگ باری کر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے سچ کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ بہت سے مقامات پر، بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔ مزید یہ کہ ، بے شمار تحریروں اور تصانیف کے مطالعے کے بعد، جب میں (بنگلہ دیش کے حوالے سے) بھارت کے موجودہ طرزِعمل کا جائزہ لیتا ہوں، تو مجھے صاف دکھائی دیتا ہے کہ1971ء میں (مشرقی پاکستان پر مسلط کردہ) جنگ بھارت کی مسلط کردہ تھی، اور جو فی الحقیقت بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ (RAW) کا پراجیکٹ تھا۔ ‘‘

بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی پھانسیاں کیا رنگ لائیں گی؟ سعودی عرب کے بڑے اخبار ’عرب نیوز‘ نے لکھاہے:’’ جماعت اسلامی کے خلاف ایسے اقدامات بیک فائر کریں گے۔ حکومت ملک کی سب سے منظم اور سب سے بڑی اسلامی جماعت کو ختم کرنے کی کوشش کرکے خودکشی کرے گی۔ اخبار لکھتاہے کہ اگر جماعت اسلامی کو ملک کے سیاسی منظرنامے سے باہر کیاگیا تو خدشہ ہے کہ 45برس سے کم عمر جماعت کے ارکان اور حامی زیرزمین چلے جائیں اور ایسی سرگرمیاں شروع کردیں جس سے پورا ملک عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔ الیکشن کمیشن نے پہلے جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کی فہرست سے خارج کیا، بعدازاں حکومت نے جماعت اسلامی کو کالعدم قراردیدیا، اب شاید جماعت کے لوگوں کے پاس بقا کی جنگ لڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہا‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔