رواں سال آب و ہوا میں تبدیلی کے 7 اہم واقعات

ویب ڈیسک  اتوار 24 جولائی 2016
آرکٹک میں برف پگھلنے سے لے کر آسٹریلیا کی غیر معمولی گرمی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ فوٹو؛ فائل

آرکٹک میں برف پگھلنے سے لے کر آسٹریلیا کی غیر معمولی گرمی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ فوٹو؛ فائل

لندن: آب و ہوا میں تبدیلی ( کلائمٹ چینج) کے غیر معمولی اثرات دنیا بھرمیں نوٹ کیے جارہے ہیں اورماہرین نے محتاط اندازے کے بعد اس سال کے چند غیر معمولی واقعات کو آب و ہوا میں تبدیلی کا شاخسانہ قراردیا ہے۔ 

1:  آرکٹک کے علاقے میں اس سال مئی میں برف کی ریکارڈ کمی نوٹ کی گئی ہے اوراس سے قبل 2012 میں پہلی مرتبہ اتنی کم برف دیکھی گئی تھی۔ اس کے علاوہ موسم سرما میں بھی موجود ہونے والی برف میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی ہے یہ برف لگ بھگ 5 لاکھ مربع کلومیٹر کم تھی۔

2: سال 2016 کا ہر مہینہ تاریخی لحاظ سے مئی کے مہینے میں بلند ترین درجہ حرارت کا حامل رہا۔ ناسا نے زمینی درجہ حرارت کو ریکارڈ کرنے کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ مئی میں ریکارڈ شدہ اسی ماہ کے تمام مہینوں اور جون میں ریکارڈ شدہ جون کے تمام مہینوں سے زیادہ گرمی پڑی۔ ناسا کا مزید کہنا تھا کہ فروری ریکارڈ شدہ تاریخ کا گرم ترین مہینہ تھا۔

3: 19 مئی بھارت کی تاریخ کا گرم ترین دن تھا۔ راجستھان کے علاقے فالودی کا درجہ حرارت 51 درجے سینٹی گریڈ تک نوٹ کیا گیا۔ اس کے علاوہ پورے بھارت میں خشک سالی سے 30 کروڑ افراد متاثر ہوئے اور لوگوں کی بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔

4: آرکٹک کےعلاوہ الاسکا کا پارہ بھی بلند ترین سطح پر رہا۔ اس امریکی ریاست میں موسمِ بہار کے درجہ حرارت نے بھی نئے ریکارڈ قائم کئے جو صفر درجےسینٹی گریڈ تھا۔ اس کے علاوہ پورے سال کا اوسط درجہ حرارت ساڑھے 5 درجے سینٹی گریڈ بلند تھا۔

5: عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ کی وجہ بننے والی گیس، کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار فضا میں ہرسال بڑھتی جارہی ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ لیکن سال 2016 بھی اس معاملے میں خطرناک رہا اور اس میں ہوش ربا اضافہ دیکھا گیا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے سورج کی شعاعوں کی حدت ہماری فضا میں قید ہوجاتی ہے اور یوں عالمی پیمانے پر درجہ حرارت بڑھانے کی وجہ بنتی ہیں۔

6: آسٹریلیا میں گرمی کی شدت کا ایک اور ریکارڈ قائم ہوا اور سب سے گرم موسمِ خزاں کا انکشاف ہوا۔ اوسط درجہ حرارت ایک اعشاریہ 64 سینٹی گریڈ تھا۔

7: آسٹریلیا میں کوئنزلینڈ کے پاس مونگے اور مرجانی چٹانوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہورہا ہے۔ اس سے مرجانی سلسلے کی بلیچنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اب صرف 7 فیصد مونگے ہی بلیچنگ سے بچ پائے ہیں اور اس طرح ایک بڑا حصہ اپنےاختتام تک پہنچ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔