پنجاب میں ڈیڑھ سال کے دوران 1808 بچے اغوا ہوئے، رپورٹ عدالت میں جمع

ویب ڈیسک  جمعرات 28 جولائی 2016
لاپتہ بچوں کےوالدین تھانوں کے باہر واویلا کرتے ہیں اور ان کے مقدمے بھی درج نہیں اس معاملے کی تہہ تک جائیں گے،جسٹس ثاقب. فوٹو:فائل

لاپتہ بچوں کےوالدین تھانوں کے باہر واویلا کرتے ہیں اور ان کے مقدمے بھی درج نہیں اس معاملے کی تہہ تک جائیں گے،جسٹس ثاقب. فوٹو:فائل

 لاہور: پنجاب پولیس کی جانب سے بچوں کے اغوا سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرادی گئی جس کے مطابق 2015 اور 2016 کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران صوبے بھر میں 1808 بچے اغوا ہوئے جن میں سے 1715 بازیاب کرالئے گئے۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے بچوں کے اغواء سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پرپولیس کی جانب سے ایڈیشنل آئی جی پنجاب ندیم نواز عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور انہوں نے بچوں کے اغوا سے متعلق 6 سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق 6 سال کے دوران صوبے بھر سے مجموعی طور پر 6 ہزار 793 بچوں کے اغواء کے مقدمات درج ہوئے جن میں سے 6 ہزار 654 کو بازیاب کرا لیا گیا اور 139 بچے اغواء کے کیسوں میں بازیاب نہیں ہو سکے۔

پولیس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پنجاب بھر میں 2015 اور 2016 کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران 1808 بچے اغواء ہوئے جن میں سے مجموعی طور پر 1715 بچوں کو بازیاب کرالیا گیا ہے اور صرف 2015 میں 1134 بچے اغواء ہوئے جن میں سے 1093 کو بازیاب کرا لیا گیا جب کہ 41 بچوں کی تلاش کے لیے تفتیش کا عمل جاری ہے۔ پولیس کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ 2016 کے پہلے 6 ماہ میں 767 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 715 کیسز تکمیل کے بعد بند کر دیئے گئے جبکہ صرف 52 کیسز پر تفتیش جاری ہے۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ اغوا ہونے والے بچوں کی عمریں 6 سے 15 سال کے درمیان ہیں اور پولیس اغوا کی وارداتوں کو روکنے اور بچوں کی بازیابی کے لئے موثر حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ اس موقع پر جسٹس ثاقب نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے، اگر ایسا نہ ہوگا تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑے گی، لاپتہ بچوں کے والدین تھانوں کے باہر واویلا کرتے ہیں اور ان کے مقدمے بھی درج نہیں کئے جاتے جب کہ ایسے بچے بھی ہیں جنہیں تاوان کے لئے اغوا کیا جاتا ہے اور والدین پیسے دے کر انہیں چھڑا لیتے ہیں لیکن ایسے کیسز میں لواحقین مقدمہ درج نہیں کراتے، اس معاملے کی تہہ تک جائیں گے۔ جسٹس ثاقب نثار نے پولیس حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹیں سپریم کورٹ کو دکھانے کے لئے لائے ہیں یا صوبے کے سربراہ کو جس پر ایڈیشل آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو تفصیلات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں اور جلد عدالت بہتر نتائج دیکھے گی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا بچوں کے جسمانی اعضا فروخت کرنے کے لئے بھی انہیں اغوا کیا جاتا ہے جس پر ایڈیشل آئی جی پنجاب نے کہا کہ گجرات اور اس کے گرد و نواح میں ایسی شکایات ہیں جس پر کام کر رہے ہیں۔ عدالت نے اغوا ہونے والے مزید 10 بچوں کی تفتیش کا ریکارڈ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 3 اگست تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔