دنیا میں سزائے موت دینے کے مختلف طریقے

 ہفتہ 21 جنوری 2017
مختلف ادوار اور ممالک میں مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے طریقے مختلف ہیں ۔  فوٹو : فائل

مختلف ادوار اور ممالک میں مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے طریقے مختلف ہیں ۔ فوٹو : فائل

موت کی سزا بیشتر ممالک میں سنگین جرائم کرنے والوں کے لیے سب سے بڑی سزا ہے جس کا اختتام سزا پر عمل درآمد کی صورت میں ہوتا ہے۔ سزائے موت کو (Capital Punishment) بھی کہا جاتا ہے اور یہ اصطلاح لاطینی زبان کے لفظ capitalis سے نکلی ہے، جس کا مفہوم ’’سر قلم کرنا ‘‘ ہے۔

اِس وقت دنیا کے 58 ملکوں میں سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد ہورہا ہے اور 98 ملکوں نے مجرموں کو سزائے موت نہ دینے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے تاہم وہاں سنگین جرائم میں ملوث افراد کو دیگر سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت صرف انتہائی سنگین جرم کے ارتکاب پر ہی دی جاتی ہے اوردنیا کے 35 ملک ایسے ہیں جنہوں نے سزائے موت پر عمل درآمد 10 سال یا اس سے زاید عرصے کے لیے روک دیا ہے ۔ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں سزائے موت دینے کے مختلف طریقےرائج ہیں جن میں سے چند قارئین کی دلچسپی کے لیئے یہاں پیش کیئے جارہے ہیں۔

٭پھانسی:

پاکستان میں مجرم کو سزائے موت دینے کا ایک ہی طریقہ رائج ہے کہ مجرم کو تختہ دار پر لٹکادیا جائے یعنی اُسے پھانسی دے دی جائے۔ رحم کی اپیلیں مسترد ہوجانے کے بعد مجرم کو آگاہ کردیا جاتا ہے کہ اُسے پھانسی دی جارہی ہے۔ پھانسی دینے کے وقت سے تقریباً 48 گھنٹے قبل مجرم کی اُس کے اہل خانہ سے آخری ملاقات کرائی جاتی ہے، اُس کا طبی معائنہ ہوتا ہے اور اگر کوئی قیدی بیمار ہوتو اس کی سزائے موت پر عمل درآمد کچھ وقت کے لیے مؤخر کردیا جاتا ہے۔ مجرم کو (اگر وہ مسلمان ہے تو) عبادت کرنے کے لیے جائے نماز، تسبیح ، قرآن شریف بھی فراہم کردیا جاتا ہے، اسی طرح سزا پانے والے مجرم کا جو بھی مذہب ہے اس کے مطابق مجرم کو عبادت کے لوازمات فراہم کیے جاتے ہیں۔ پھانسی سے قبل قیدی کی آخری خواہش بھی پوچھی جاتی ہے اور جیل حکام کوشش کرتے ہیں کہ پھانسی پر لٹکانے سے قبل قیدی کی اُس آخری خواہش کو کسی نہ کسی صورت پورا کیا جائے۔ پھر قیدی کے چہرے پر غلاف چڑھا دیا جاتا ہے، رسی پر مکھن یا کوئی تیل وغیرہ بھی لگایا جاتا ہے تاکہ رسی نرم رہے۔ جلاد کی جانب سے لیور کھینچنے کے بعد دَم نکلنے تک اسے لٹکا رہنے دیا جاتا ہے اور ڈاکٹر قیدی کی نبض چیک کرکے اس کی موت کی تصدیق کرتا ہے۔پاکستان کے علاوہ سزائے موت کا یہ طریقہ افغانستان، کیوبا، مصر، ایران، انڈونیشیااور ہندوستان سمیت کئی ممالک میں اپنایا گیا ہے۔

٭گولی مارنا:

مجرموں کو سزائے موت دینے کے لیے گولی مارنے کا طریقہ بھی رائج ہے، اگر مجرم ایک سے زائد ہوں تو انہیں فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے۔ پھر اشارہ ملتے ہی گولیاں برسنا شروع ہوجاتی ہیں۔سزائے موت کا یہ طریقہ متعدد ممالک میں اپنایا جاتا ہے جن میں امریکا کی مختلف ریاستیں،چین،انڈونیشیا،تھائی لینڈ،بیلاروس،جنوبی کوریا،تائیوان اور جنوبی افریقہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔فائرنگ اسکواڈ کو استعمال کرنے کا طریقہ اکثر ممالک میں مختلف ہوتا ہے تاہم عام طور پر قیدی کی آنکھوں پر سیاہ پٹی اور ہاتھ پیر رسی سے باندھ کرکھڑا کردیا جاتا ہے اوراس کے بعد کئی افراد پر مشتمل اسکواڈ قیدی پر فائرنگ کرتا ہے ۔

*سر قلم کرنا:

سعودی عرب واحد ملک ہے جہاں سزائے موت کے لیے سر قلم کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے، اس کے لیے ایک تیز دھار تلوار کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ویسے یہ طریقہ کار بہت پرانا ہے اور قدیم روم اور یونان میں بھی ایسے طریقے پر عمل کیا جاتا تھا۔


بجلی کے جھٹکے:

امریکا کی بعض ریاستوں میں سزائے موت کے لیئے بجلی کی کرسیاں استعمال کی جاتی ہیں ،اس طریقے میں  قیدی کو کرسی پر دھاتی پٹیوں سے باندھ دیا جاتا ہے جبکہ ایک گیلا اسفنج اس کے سر پر رکھ دیا جاتا ہے جس کے بعد عام طور پر پہلے 2 ہزار والٹ بجلی کو پندرہ سیکنڈ تک کرسی پر چھوڑا جاتا ہے جس سے قیدی بے ہوش اور دل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے جبکہ اکثر دوسری بار بھی کرنٹ چھوڑا جاتا ہے جو اندرونی اعضاء کو نقصان پہنچاتا ہے۔

٭زہریلا انجکشن :

بعض ممالک میں قیدیوں کوزہریلا انجکشن لگاکر بھی سزائے موت دی جاتی ہے جن میں امریکی ریاستیں،چین،گوئٹے مالا،تھائی لینڈ،فلپائن اور ویتنام شامل ہیں۔ اس طریقے میں مجرم کے ہاتھ اور پیر ایک شکنجے میں کس دیئے جاتے ہیں جس کے بعد اسے زہریلا انجیکشن دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کے دل کی دھڑکن بند ہو جاتی ہے۔

سزائے موت کے درج بالا طریقوں کے علاوہ بھی حکومتوں نے مجرموں کے موت کے گھاٹ اتارنے کے بہت سے طریقے اختیار کیے ہیں۔ان کے علاوہ صدیوں پہلے مجرموں کو موت کی سزا دینے کے انہتائی وحشیانہ طریقے استعمال کیے جاتے تھے یہ طریقے اب اگرچہ متروک ہوچکے ہیں جن میں سے چند یہاں بیان کیئے جارہے ہیں۔

٭سنگساری:

سعودی عرب،ماریطانیہ ،یمن ،ایران اور پاکستان میں بد کاری میں ملوث افراد کے لئیے یہ سزا موجودرہی ہے تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔کہانیوں اور قصوں میں پڑھا اور کچھ ممالک کی تاریخ کے حوالے سے تمثیلی دستاویزی پروگراموں میں دیکھا گیا ہے کہ مجرم کو ایک میدان میں آدھے جسم تک گاڑھ دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد چاروں طرف کھڑے لوگ اس پر سنگ باری کرتے تھے۔ چند پتھر لگنے کے بعد مجرم کی موت واقع ہوجاتی تھی۔ اگر زمین میں گاڑا نہ جائے تو ملزم کو کھلے میدان میں بٹھادیا جاتا تھا اور پھر اس پر پتھر برسائے جاتے تھے۔

٭ کھال اتارنا:

اس طریقے سے مجرم کو موت تو ملتی ہے لیکن سے اس سے قبل بے پناہ اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جلاد یا سرکاری اہل کار، بادشاہ، حکم راں یا مسند اقتدار پر بیٹھے شخص کے حکم سے سزا یافتہ شخص کے جسم کی کھال تیز دھار چھری یا چاقو سے اتارتے تھے۔ یہ اذیت ناک مرحلہ مجرم کو موت سے پہلے کئی بار مارتا تھا اور آخرکار اس کی موت واقع ہوجاتی تھی۔ اس کیفیت میں اس خوف ناک سزا کے مراحل سے گزرنے والا فوری موت کی التجائیں کرتا تھا لیکن اسے موت سے پہلے اس اذیت ناک مرحلے سے گزرنا پڑتا تھا۔

٭اعضا کو کاٹنا:

اس طریقے میں مجرم کے جسم کے کچھ اعضا کو کاٹ لیا جاتا تھا،جس سے رفتہ رفتہ وہ ہلاک ہوجاتا تھا۔ عام طور پر اس طریقۂ کار کو اختیار کرتے وقت مجرم کے معدے کے قریب زخم لگائے جاتے تھے۔ یہ طریقہ صرف تشدد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا اور اس کے نتیجے میں قیدیوں کی اموات بھی ہوئیں۔

٭گرم پانی میں پھینکنا:

گرم کھولتے ہوئے پانی میں کسی کو بھی پھینکنے کا مطلب یہ ہے کہ سیکنڈوں میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ مختلف ادوار میں حاکم وقت اپنے دشمنوں، مجرموں اور مخالفین کو مارنے کے لیے یہی طریقہ استعمال کرتے تھے۔ اس کے لیے پانی کو ایک بڑے برتن میں کھولایا جاتا تھا اور مجرم کو اس میں ڈال دیا جاتا تھا۔

٭بھاری پہیے کے ذریعے موت:

قدیم یونان میں یہ طریقہ رائج تھا جس نے آہستہ آہستہ جرمنی، فرانس، روس، برطانیہ اور سوئیڈن میں بھی مقبولیت حاصل کی۔ اس طریقے میں قیدی کو ایک بڑے پہیے سے باندھ دیا جاتا تھا۔ جب پہیا چلتا تھا تو آہستہ آہستہ اس شخص کی ہڈیاں ٹوٹنا شروع ہوجاتی تھیں اور پھر وہ مرجاتا تھا۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی ملزم کو سرپر چوٹ لگاکر نیم بے ہوشی کی حالت میں پہیے سے باندھ کر کہیں لٹکادیا جاتا تھا۔ اس طرح پرندے بالخصوص چیل، کوے اور گدھ زندہ انسان کی بوٹیاں نوچنا شروع کردیتے تھے جس سے اس کی موت واقع ہوجاتی تھی۔

٭ زندہ جلادینا:

مجرموں کو زندہ جلانا بھی سزائے موت کا ایک انداز رہا ہے۔ جن حاکموں نے یہ طریقہ اختیار کیا، اُن کی منطق یہ تھی کہ اس طرح دوسرے لوگوں پر بھی خوف طاری ہوگا اور وہ عبرت حاصل کریں گے۔

٭نیک لیسنگ :

اس طریقے میں ملزم یا مجرم کی گردن اور بازوؤں پر ایک ربڑ کا ٹائر چڑھادیا جاتا تھا جو گیس سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔ پھر اسے آگ لگادی جاتی تھی۔ یہ طریقہ جنوبی افریقہ میں 1980 تا 1990 کے دوران کافی استعمال کیا گیا۔ ڈاکوؤں، چوروں یا جرائم پیشہ عناصر کو عام شہریوں نے بھی اپنی عوامی عدالتوں کے ذریعے متعدد بار Necklacing کے ذریعے سزائے موت دی۔

٭کیڑوں کے ذریعے موت:

اس خوف ناک طریقے کو بھی سزائے موت دینے کے لیے حکمرانوں نے استعمال کیا۔ مجرم کو برہنہ کرکے چھوٹی کشتی یا درخت کے تنے میں باندھ دیا جاتا تھا۔ پھر اسے زبردستی شہد اور دودھ پلایا جاتا تھا، اس کے بعد کھانے پینے کی اشیا بھی اس کے بدن پر ڈالی جاتی تھیں، تاکہ کیڑے ان کی بو سے آئیں۔ پھر اسے باندھ کر کسی حوض یا ندی کے کنارے لٹکادیا جاتا تھا۔ تاریخ میں موجود ہے کہ اس طریقے کو اختیار کرنے والے اپنے مجرم کی آنکھوں، کانوں، منہ اور دیگر اعضا کو خاص توجہ کا نشانہ بناتے تھے۔ کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد حشرات الارض دودھ، شہد اور کھانے پینے کی دیگر اشیا کے ساتھ انسانی جسم بھی چٹ کرجاتے تھے۔

٭ آری کے ذریعے جسم چیر دینا:

اس دہشت ناک طریقے کے ذریعے تیز دھار آری سے مجرم کے جسم کو 2 حصوں میں کاٹ دیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ رومن دور میں کافی رائج تھا۔ اسپین میں بھی اس کے شواہد ملتے ہیں جب کہ ایشیا کے بھی کچھ حصوں میں اس کے ذریعے سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔ اس طریقے میں انسانی جسم کو افقی یا عمودی کاٹا جاتا تھا ، دیکھنے والے تو دہشت زدہ ہوتے ہی تھے لیکن یہ دردناک موت سہنے والا موت سے پہلے ہی مرجاتا تھا۔

٭ہاتھی کے پیروں تلے روندنا:

ہاتھی کے پیروں تلے روند کر مجرموں کو سزائے موت دینا بھی بادشاہوں کا شوق رہا ہے، مجرموں کو میدان میں باندھ کر لٹادیا جاتا تھا اور پھر ہاتھی اپنا بھاری بھرکم پیر جیسے ہی اس کے اوپر رکھتا تھا توسزا پانے والا منٹوں میں ہلاک ہوجا تا تھا۔ اس کے علاوہ سزایافتہ افراد کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دینا بھی ایک ایسا عمل ہے جسے حکمرانوں نے تفریح طبع کے لیے بھی استعمال کیا اور اس سے اپنے مخالفین کو سزائیں بھی دیں۔ بھوکے جانوروں کے پنجرے میں جانے والوں میں سے قسمت والے ہی زندہ سلامت بچنے میں کام یاب ہوتے تھے لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔