سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار گرفتاری کے بعد رہا

ویب ڈیسک  جمعـء 16 ستمبر 2016

 کراچی: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن  کو 5 گھنٹے تک حراست میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے مطابق معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن کے بفرزون میں واقع گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کرلیا تھا جس کے بعد انہیں 5 گھنٹے تک حراست میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا۔ گرفتاری کے بعد خواجہ اظہار الحسن کو گڈاپ تھانے لایا گیا جہاں چند گھنٹے رکھا گیا جس کے بعد انہیں کراچی پولیس آفس منتقل کیا گیا اور مجموعی طور پر 5 گھنٹے تک حراست میں رکھنے کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی ملیرراؤ انوار کو معطل کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری کا عمل افسوس ناک اور راؤ انوار کا طریقہ غلط تھا اس لیے انہیں معطل کیا اور اگر انہوں نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو انہیں سزا ملے گی۔

ادھر وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو فون کیا اور خواجہ اظہارالحسن کی گرفتاری پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسپیکر کی اجازت کے بغیر کسی رکن پارلیمنٹ کی گرفتاری غیرقانونی ہے، اگر پولیس افسر قصور وار ہوا تو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ قانون کی حکمرانی ہر قیمت پر یقینی بنائی جائے اور اگر پولیس افسر گرفتاری کے ذمہ دار ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کریں۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے معطل ایس ایس پی راؤ انوار کا کہنا تھا کہ کراچی میں پچھلے دنوں بسوں کو آگ لگائی گئی اور نیو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا جس کے پس پردہ خواجہ اظہارالحسن تھے جنہیں ٹارگٹ کلرز کا چیف بھی کہا جاتا ہے جن کی گرفتاری کے لئے اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کیا، انسداد دہشت گردی کی عدالت کی اجازت کے بغیر خواجہ اظہار رہا نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو گرفتار کرنے کے لئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، صرف آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے کسی سے اجازت لینے کا کہیں نہیں لکھا، اس سے پہلے بھی ایم این اے اور ایم پی ایز کو گرفتار کیا گیا لیکن کسی کی اجازت کی ضروت نہیں پڑی ، رینجرز نے بھی حال ہی میں ایم این ایز کو گرفتار کیا اور اگلے روز چھوڑ دیا لیکن کسی نے کوئی پروپیگنڈا نہیں کیا۔

معطل ایس ایس پی ملیر کا کہنا تھا کہ مجھے معطل کرنے میں بہت جلد بازی کی گئی، کسی کی گرفتاری کے لئے آئی جی سندھ سے بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں، ایک سب انسپکٹر کے پاس اتنا اختیار ہوتا ہے کہ وہ جرم میں کسی کو بھی گرفتار کرسکتا ہے، میری معطلی کے بعد بہت سی باتیں سامنے نہیں آسکیں گی اور تحقیقات میں فرق آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر میں گاڑیاں جلانے میں کچھ سیکٹرز اور یونٹس کے افراد پکڑے گئے ہیں جب کہ جنوبی افریقا سے ایم کیوایم نے ٹیمیں منگوائی ہیں اور انہیں جہاں موقع ملے گا تو وہ کارروائی کریں گے۔ راؤ انوار نے کہا کہ کام کرنے سے روکا جارہا ہے جس کے بعد احتجاجاً محکمہ پولیس کو خیرباد کہہ سکتا ہوں، محکمہ پولیس میں ایک گروپ حاوی ہوا ہے جو اپنا گروپ بنا کر دوسروں کو کام کرنے نہیں دیتا جب کہ ڈی آئی جی ایسٹ نے کوئی جرم نہیں کیا جنہیں صوبہ بدر کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔

خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوارکے خواجہ اظہار الحسن  کے گھر پر چھاپے کےوقت گھر میں ایک بھی مرد موجود نہیں تھا، پولیس نے خواتین اہلکاروں کے بغیر گھر پر چھاپہ مار کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا، میں نے پولیس اہلکاروں سے پوچھا کہ مجھے وارنٹ گرفتاری دکھا دیں پھر بے شک انھیں لے جائیں تو پولیس حکام کا کہنا تھا کہ وارنٹ گرفتاری ہمارے پاس موجود ہیں لیکن ہمیں دکھائے نہیں گئے۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون سے ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے، خواجہ اظہار کل تک مطلوب نہیں تھے اور آج گرفتار ہو گئے، وزیراعظم اور آرمی چیف بتائیں کہ آخر چاہتے کیا ہیں، اس ذلت سے تو بہتر ہے کہ ہم سب ارکان  اسمبلی اورسینیٹرز،میئر، ڈپٹی میئر،ہمارے تمام ضلعی چیرمین و وائس چیرمین اجتماعی گرفتاری دے دیں اور ہم اس کے لئے تیار ہیں۔

واضح رہے کہ نماز جمعہ سے قبل پولیس کی ٹیم نے خواجہ اظہارالحسن کے گھر پر چھاپہ مارا تاہم وہ گھر پرموجود نہیں تھے اس دوران پولیس نے گھر کی تلاشی لی اور واپس چلی گئی جس کے بعد ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے بھاری نفری کے ہمراہ خواجہ اظہار کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کرلیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔