دفاعی ماہرین نے چین کے 31-J اسٹیلتھ طیارے کو امریکی 35-F کے برابر قرار دے دیا

ویب ڈیسک  جمعـء 30 ستمبر 2016
مغربی دفاعی مااہرین اب تک پریشان ہیں کہ آخر چین نے کس طرح مقامی طور پر اتنی جدید ٹیکنالوجی حاصل کرلی۔ (فوٹو: فائل)

مغربی دفاعی مااہرین اب تک پریشان ہیں کہ آخر چین نے کس طرح مقامی طور پر اتنی جدید ٹیکنالوجی حاصل کرلی۔ (فوٹو: فائل)

بیجنگ: دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کا اسٹیلتھ طیارہ ’’ایف سی 31 جرفالکن‘‘ (FC-31 Gyrfalcon) عرف ’’جے 31‘‘ (J-31)، جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کو امریکا کے قریب تر لے آیا ہے کیونکہ اسے صحیح معنوں میں امریکی F-35 ’’جوائنٹ اسٹرائک فائٹر‘‘ (جے ایس ایف) کا مدمقابل کہا جاسکتا ہے۔

اب تک اس کا دوسرا پروٹوٹائپ آزمائشی پروازیں کرچکا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ چینی فضائیہ میں اس کی شمولیت کا سلسلہ 2022 شروع ہوجائے گا۔ ذرائع ابلاغ سے یہ تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ اس کا سب سے پہلا ممکنہ خریدار پاکستان ہوگا لیکن ایسی غیر مصدقہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ اس منصوبے میں پاکستانی انجینئر اور سائنسدان بھی چینی ٹیم کے ساتھ شریک ہیں۔

یہ بات اس لیے بھی قرینِ قیاس ہے کیونکہ ایف سی ون (FC-1) منصوبے کو ’’جے ایف 17 تھنڈر‘‘ (JF-17 Thunder) کے طور پر کامیابی سے ہمکنار کرنے میں پاکستانی ماہرین نے بھرپور کردار ادا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ’’تھنڈر‘‘ صرف چین ہی میں نہیں بلکہ پاکستان میں بھی مقامی طور پر (پی اے سی کامرہ میں) تیار کیا جارہا ہے۔

اسی دوران پاکستانی اور چینی فضائیہ میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے تعاون مزید مضبوط ہوگیا اور (غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق) پانچویں نسل کے جدید ترین چینی لڑاکا طیارے ’’جے 20‘‘ (J-20) میں بھی پاکستانی ماہرین شریک ہوچکے ہیں۔ سرِدست یہ منصوبہ بھی تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے اور امید ہے کہ 2017 تک چینی فضائیہ میں 12 عدد جے 20 لڑاکا طیارے شامل ہوچکے ہوں گے۔

یہ خبر بھی پڑھیں : دنیا کی سپرپاور بنتی مملکت چین کا پہلا اسٹیلتھ طیارہ

جہاں تک جے 31 کا تعلق ہے تو یہ جسامت میں جے 20 سے چھوٹا ضرور ہے لیکن اس کے تقاضے بھی مختلف ہیں۔ اگر آپ لڑاکا طیاروں سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتے ہیں تو آپ کے لیے یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ اگر ’’جے 20‘‘ کو امریکی ’’ایف 22 ریپٹر‘‘ (Raptor) کا چینی جواب قرار دیا جاسکتا ہے تو ’’جے 31‘‘ بھی امریکی ساختہ ’’ایف 35‘‘ کا مدمقابل ہے اور یہ بات اس کی جسامت سے بھی ظاہر ہے۔

جے 31 بنانے والی ’’شنیانگ ایئرکرافٹ کارپوریشن‘‘ کی جاری کردہ تفصیلات اور فضائی دفاعی ماہرین کے لگائے ہوئے اندازے یکجا کردیئے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایف سی 31 جرفالکن/ جے 31 دو عدد ٹربوفین انجنوں والا، پانچویں نسل کا اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ ہے جو ہیلمٹ پر نصب، اگلی نسل کے بصری آلات (نیکسٹ جنریشن ہیلمٹ ماؤنٹڈ سائٹ)، ہولوگرافک کاک پٹ ڈسپلے اور الیکٹرو آپٹیکل ٹارگٹنگ سسٹم (ای ٹی او ایس) سے یقینی طور پر لیس ہے۔

اس کی جسامت اور ظاہری خدوخال سے پتا چلتا ہے کہ اس میں ’’شارٹ ٹیک آف اینڈ ورٹیکل لینڈنگ‘‘ (STOVL) کی صلاحیت بھی ہے۔ یعنی یہ کم فاصلہ طے کرکے اڑان بھرنے اور (ہیلی کاپٹر کی طرح) سیدھا زمین پر اُترنے کے قابل ہے۔ یہ صلاحیت اُن طیاروں کے لیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے جنہیں طیارہ بردار بحری جہازوں پر رکھنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ یعنی توقع کی جاسکتی ہے کہ جے 31، طیارہ بردار چینی بحری بیڑے کا حصہ بنایا جائے گا۔

مغربی دفاعی ماہرین کو اب تک یہ سوال بری طرح کھٹک رہا ہے کہ آخر چین نے کس طرح سے انجن اور ریڈار جیسے اہم نظام مقامی طور پر تیار کرلیے ہیں اور یہ کہ مختلف الاقسام ٹیکنالوجیز کو کس طرح سے ایک چھوٹے طیارے میں سمودیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ سوالات اس لیے اہم ہیں کیونکہ جے 31 منصوبے کے بارے میں دنیا کو پہلی باقاعدہ اطلاع ستمبر 2011 میں چینی حکومت کی جاری کردہ ایک تصویر سے ملی جس پر ’’F-60‘‘ کا لیبل لگا ہوا تھا۔ بعد ازاں اس طیارے کی اوّلین مصدقہ آزمائشی پرواز 31 اکتوبر 2012 میں ہوئی۔ جے 31 سے متعلق اس سے پہلے کی معلومات دستیاب نہیں۔

امریکی دفاعی ماہرین کو جے 31 اور جے 20، دونوں سے یہ خطرہ ہے کہ اگر ان طیاروں کی ٹیکنالوجی امریکی ایف 22 ریپٹر سے کم تر درجے کی بھی ہوئی تب بھی یہ اتنی بڑی تعداد میں ہوں گے امریکی فضائیہ کے لیے ان کے سامنے ٹھہرنا مشکل ہوجائے گا کیونکہ اس وقت امریکا کے پاس جنگ کے لیے تیار صرف 120 عدد ریپٹر موجود ہیں۔

جے 31 کی چیدہ چیدہ تفصیلات یہ ہیں:

  • عملہ: 1 (پائلٹ)
  • لمبائی: 16.9 میٹر (55 فٹ 5 انچ)
  • بازؤوں کا پھیلاؤ: 11.5 میٹر (37 فٹ 9 انچ)
  • اونچائی: 4.8 میٹر (15 فٹ 9 اِنچ)
  • بازؤوں کا رقبہ: 40 مربع میٹر (430 مربع فٹ)
  • مجموعی وزن: 17,600 کلوگرام (38,801 پاؤنڈ)
  • ٹیک آف پر زیادہ سے زیادہ وزن: 25,000 کلوگرام (55,116 پاؤنڈ)
  • انجن (پروٹوٹائپ): 2 عدد روسی ساختہ RD-93 آفٹر برننگ ٹربو فینز؛ اور ہر انجن کا انفرادی تھرسٹ 84,000 نیوٹن
  • انجن (پروڈکشن ایئرکرافٹ): 2 عدد چینی ساختہ WS-13A آفٹر برننگ ٹربو فینز؛ اور ہر انجن کا انفرادی تھرسٹ 100,000 نیوٹن
  • انتہائی رفتار: 2,200 کلومیٹر فی گھنٹہ (ماک 1.8)
  • حربی حدِ ضرب (کومبیٹ رینج): 1,200 کلومیٹر
  • سفری حد (فیری رینج): 4,000 کلومیٹر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔