- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
- آئی پی ایل؛ ’’پریتی زنٹا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر کھلائے‘‘
- اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
امریکی انتخابات 2016ء ۔۔۔۔ الیکشن ڈائری (پہلا حصہ)
امریکی انتخابات کے حوالے سے ابتدائی تعارف
8 نومبر کو ریاست ہائے متحدہ کے تقریباً 200 ملین ووٹر اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے امریکہ کے 45ویں صدر کا انتخاب کریں گے۔ 2016ء کے انتخابات اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں کہ اس میں پہلی دفعہ کسی بڑی پارٹی نے ایک خاتون یعنی ہیلری روڈھم کلنٹن کو اپنا صدارتی اُمیدوار نامزد کیا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی ہیلری کلنٹن کا مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ سے ہوگا جن کی شہرت ایک بڑے سرمایہ دار اور ٹی وی پروگرام کے میزبان کے حوالے سے بھی ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم 2016ء کی انتخابی مہم کا جائزہ لیں، مناسب ہوگا کہ امریکہ کے انتخابی نظام کا ایک مختصر سا تعارف کرا دیں۔ امریکی آئین کی رو سے صدارتی انتخاب ہر 4 سال بعد نومبر کی پہلی منگل کو ہوتا ہے لیکن اگر یکم نومبر کو منگل کا دن ہو تو یہ انتخاب نومبر کی دوسری منگل کو ہوگا جیسا کہ اس سال 8 نومبر کو ہوگا۔
صدارتی اُمیدواروں کا انتخاب
پاکستان کے برعکس جہاں بے شمار سیاسی پارٹیاں ہیں امریکہ میں صرف دو بڑی پارٹیاں ہیں۔ ایک ڈیموکریٹک نیشنل پارٹی جس کا انتخابی نشان گدھا ہے اور یہ اپنے سوشل پروگریسیو ایجنڈا کے ساتھ لبرل اور افریقن امریکن یا سیاہ فام کمیونٹی میں اپنی گہری جڑیں رکھتی ہیں۔ اِس کے برعکس ریپبلکن پارٹی اپنے نشان ہاتھی کے ساتھ قدامت پسندانہ ایجنڈا رکھتے ہوئے مذہبی حلقوں اور جنوبی ریاستوں میں اثر و رسوخ رکھتی ہے۔
صدارتی انتخاب سے تقریباً ایک سال پہلے ہی دونوں بڑی پارٹیوں کے صدارتی اُمیدوار کے خواہشمند اپنی اپنی پارٹی کی نامزدگی کے حصول کے لئے کوششیں شروع کردیتے ہیں۔ ان کوششوں کا نقطہِ عروج پارٹی کا کنونشن ہوتا ہے۔ جس میں پارٹی کے الیکشن میں کامیاب امیدوار صدارتی الیکشن کے لئے پارٹی کا نامزد امیدوار قرار دیا جاتا ہے۔ پارٹی نامزدگی کا یہ طریقہ کار Primaries یا Caucuses کہلاتا ہے جہاں پارٹی ممبران بذریعہ ووٹ پارٹی کا صدارتی امیدوار نامزد کرتے ہیں۔
اصل انتخابی معرکہ دونوں پارٹیوں کے کنونشن کے بعد سجتا ہے۔ اگرچہ اس معرکہ میں وہ جوش و خروش تو دیکھنے میں نہیں آتا جو پاکستان یا دوسرے ترقی پذیر ممالک کے الیکشن کا خاصہ ہے لیکن صدارتی امیدوار مختلف شہروں میں جا کر اپنے اپنے حامیوں کے دلوں کو گرماتے ہیں اور ان مسائل پر بات کرتے ہیں جو عام آدمی کے لئے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کا ایک بڑا ذریعہ TV کے اشتہارات ہوتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ امیدوار اور پارٹی پر رجسٹرڈ ووٹر کو اپنا پیغام بذریعہ ڈاک بھیجتے ہیں۔
انتخابات میں عوامی دلچسپی
2012ء کے الیکشن میں تقریباً 58 فیصد افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ سیاسی تجزیہ نگار توقع کر رہے ہیں کہ 2016ء میں یہ تناسب 60 فیصد تک ہوسکتا ہے۔ امریکی انتخابی نظام کی ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک امیدوار زیادہ ووٹ لیکر بھی صدر بننے سے محروم رہ جائے۔ اِس کی بڑی مثال 2000ء کے الیکشن ہیں جس میں الگور نے جارج بش سے کہیں زیادہ عام ووٹ حاصل کئے لیکن الیکٹورل ووٹ کم حاصل کرنے کی وجہ سے صدر نہ بن سکے۔
الیکٹورل ووٹ سے کیا مراد ہے؟
امریکی آئین کے آرٹیکل 2 کے تحت صدر کا انتخاب الیکٹورل ووٹ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ ہر امریکی ریاست کے الیکٹورل ووٹ اس ریاست کے سینیٹرز اور کانگریس ممبران کی مجموعی تعداد کے برابر ہوتے ہیں۔ آئین کی رو سے ہر ریاست کی طرف سے دو سینیٹرز ہوتے ہیں اس طرح 50 ریاستوں کے 100 سینیٹرز امریکی سینیٹ کے ممبر ہوتے ہیں۔ لیکن اِس کے برخلاف کانگریس کے ممبران کا تعین ریاست کے حجم اور اُس کی آبادی کے حساب سے ہوتا ہے۔ اِس طریقہ کار کے تحت امریکہ کی 5 ریاستوں اور واشنگٹن DC کے 3 ,3 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ سب سے زیادہ الیکٹورل ووٹ کیلیفورنیا کے ہیں جن کی تعداد 55 ہے۔ مجموعی الیکٹورل ووٹ 538 ہیں اور امریکی صدر منتخب ہونے کے لئے کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
Battle Ground اور Blue States, Red States کا تصور
جس طرح پاکستان کے اندرون سندھ پیپلزپارٹی اور کراچی ایم کیو ایم کا گڑھ یا پنجاب مسلم لیگ (ن) کا حامی سمجھا جاتا ہے اِسی طرح امریکہ میں بھی کچھ ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی سمجھی جاتی ہیں۔ ان ریاستوں کو Blue States کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ریپبلکن پارٹی کی حامی ریاستیں Red States کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
لیکن چند ریاستیں ایسی بھی ہیں جو کسی ایک پارٹی کی طرف واضح جھکاؤ نہیں رکھتیں اور کسی الیکشن میں ڈیموکریٹک اور کسی میں ریپبلکن پارٹی کے اُمیدوار کو کامیاب کراتیں ہیں۔ یہ ریاستیں Battle Ground کہلاتی ہیں اور ہر پارٹی اپنا زیادہ وقت اور سرمایہ ان ریاستوں کے ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ 2016ء کے الیکشن میں فلوریڈا، اوہیو اور نارتھ کیرولینا Battle Ground ریاستیں ہیں جن کے مجموعی الیکٹورل ووٹ کی تعداد 62 ہے۔ یہ ریاستیں امریکہ کے آئندہ صدر کے انتخاب میں کلیدی کردار ادا کریں گی۔
آئندہ مضمون میں ہم زیادہ تفصیل سے Battle Ground ریاستوں، ان کے الیکٹورل ووٹ اور وہاں جاری انتخابی مہم کا ذکر کریں گے۔ اس کےعلاوہ نارتھ کیرولینا کے ریاستی اور لوکل الیکشن کے بارے میں بھی کچھ معلومات آپ تک پہنچائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔