امریکی صدارتی الیکشن 2016: نیا صدرکون ہوگا؟

فرحان احمد خان  منگل 8 نومبر 2016
فاتح کوئی بھی ہو پاک امریکا تعلقات میں نمایاں تبدیلی کا امکان نہیں ۔  فوٹو : فائل

فاتح کوئی بھی ہو پاک امریکا تعلقات میں نمایاں تبدیلی کا امکان نہیں ۔ فوٹو : فائل

امریکی صدارتی انتخابات کئی ماہ کی زبردست گہما گہمی کے بعد آج منعقد ہو رہے ہیں ۔ ان انتخابات میں امریکی عوام کے علاوہ پوری دنیا کے لوگ دلچسپی لے رہے ہیں ۔

اس کی بڑی وجہ امریکا کی دنیا میں بالادست حیثیت ہے ۔امریکا کے صدارتی انتخابات میں اس وقت دو پارٹیاں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن نمایاں طورآمنے سامنے ہیں جبکہ گرین پارٹی اور لبریٹیرین پارٹی کے امیدوار بھی معرکے میں شامل ہیں ۔ اب کی بار ریپبلکن پارٹی کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ جبکہ ڈیموکریٹس کی جانب سے ہیلری کلنٹن صدر بننے کی دوڑ میں آمنے سامنے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ ایک ارب پتی کاروباری شخصیت ہیں اور ان کا تعارف ٹی وی کے ریالٹی شو پرسنالٹی کا بھی ہے۔دوسری جانب ہیلری کلنٹن ایک سیاست دان ہیں اور سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہیں ۔ اس سے قبل وہ امریکا کی وزیر خارجہ بھی رہ چکی ہیں ۔آج برپا ہونے والے انتخابی معرکے کے جائزے سے قبل امریکی صدارتی الیکشن کے طریقۂ کار کو سمجھ لینا چاہئے۔

امریکی صدارتی انتخابات کا طریقۂ کار
امریکی صدارتی انتخابات کے کئی مرحلے ہوتے ہیں ۔ پہلے مرحلے میں پرائمری الیکشن اور کاکسز کی جانب سے نامزدگی کے لیے ووٹنگ ہوتی ہے ۔اس ووٹنگ کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی دن ہو بلکہ ہر ریاست میں الگ الگ ایام میں یہ ووٹنگ ہوتی ہے پرائمری اور کاکسز الیکشن جنوری اور جون کے درمیان ہوتے ہیں اور پھر نومبر کے پہلے ہفتے میں منگل کے دن حتمی عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔

پرائمری الیکشن ریاست یا مقامی حکومتیں کراتی ہیں اور ان کا طریقہ کار تقریباً عام انتخابات جیسا ہی ہوتا ہے جبکہ کاکسز میں کسی بھی جماعت کے پسندیدہ افراد کی ایک ’’ڈیلیگیٹ‘‘ کی صورت میں شناخت ہوتی ہے ۔ پھر غور و خوض اور مباحثے میں یہ طے ہوتا کہ کون نیشنل پارٹی کنونشن میں ’’ڈیلیگٹ‘‘ کے فرائض سر انجام دے گا۔اسی طرح پرائمری اور کاکسز الیکشن کی اوپن یا کلوزڈ ہونے کے اعتبار سے کچھ ذیلی اقسام بھی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد ہر پارٹی نیشنل کنونشن منعقد کرتی ہے جس میں صدارتی امید وار کا حتمی اعلان ہوتا ہے اور نامزد صدارتی امیدوار اسی کنونشن میں اپنے نائب کا اعلان بھی کرتا ہے۔ اس کے بعد دونوں جانب سے صدارتی امیدوار ملک بھر میں پرزور مہم چلاتے ہیں جو عام انتخابات تک جاری رہتی ہے ۔

اس دوران مباحثے بھی ہوتے ہیں اور کئی یونیورسٹیاں اور نجی ادارے مقابل صدارتی امیدواروں کی مقبولیت کے تعلق سے سروے بھی جاری کرتے رہتے ہیں ۔ یہاں یہ خیال رہے کہ امریکی صدارتی انتخاب میں ہر آدمی کا ووٹ ایک مخصوص گروپ کے لیے ہوتا ہے ۔صدر کے انتخاب کے بعد الیکٹورل کالج کا مرحلہ آتا ہے جس میں ہر ریاست کی آبادی کے تناسب سے کانگریس میں اس کی نمائندگی کے لیے امیدوار حصہ لیتے ہیں۔ الیکٹورل کالج میں کل 538الیکٹورل ووٹ ہوتے ہیں اور جو بھی امیدوار نصف یعنی 270 سے زائد ووٹ لیتا ہے وہ کامیاب تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد منتخب صدر اور نائب صدر جنوری میں اپنے عہدے کا حلف لے کر کام شروع کر دیتے ہیں۔

خیال رہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے امیدوار کی عمر کی کم سے کم حد 35سال ہے اور اس کا امریکی شہری ہونا لازمی ہے ۔ امریکی شہری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی امریکا میں رہائش کی مدت کم از کم 14برس ہونی چاہیے۔اس الیکشن میں یہودی سرمایہ کار اور بڑے بزنس مین اپنے فنڈز کی بل بوتے پر کافی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ صدر کے لیے نمایاں امیدواروں کے درمیان مباحثے بھی ہوتے ہیں جن کے نتائج مجموعی طور پر کسی بھی جانب کے ووٹ بینک کو متاثر کر سکتے ہیں۔

حالیہ انتخابات کا احوال
امریکا کا نیا صدر کون ہوگا؟ یہ سوال اس وقت امریکا سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے اور آج اس سوال کا حتمی جواب سامنے آ جائے گا ۔ اس الیکشن کے پرائمری مرحلے میں پارٹیوں کے اندر صدارتی امیدوار منتخب ہونے کے لیے سرگرم مقابلہ دیکھنے میں آیا۔ڈیموکریٹس میں ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں برنی سینڈرز نمایاں تھے ۔ برنی سینڈرزکو بائیں بازو کے خیالات کا حامل سیاست دان سمجھا جاتا ہے لیکن ان کی شناخت ہیلری کے مقابلے میں ایک مقامی سیاست دان کی تھی جبکہ ہیلری اس سے قبل وزارت خارجہ جیسے اہم عہدے پر کام کر چکی ہیں۔دوسری جانب ریپبلکن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سینیٹر ٹیڈ کروز ،گورنر اوہائیو جان کسیچ اور سنیٹر مارکو روبیو کو شکست دی اور صدارتی امیدوار کے لیے نامزد ہوئے ۔

ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ لبریٹیرین پارٹی کے گورنر آف نیو میکسیکو گیری جونسن اور گرین پارٹی کی جانب کے سابق فزیشن جِل سٹین صدارت کے لیے نمایاں امیدواروں میں شامل ہیں تاہم اصل مقابلہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس ہی میں ہے ۔

کئی ماہ سے جاری انتخابی مہم میں کئی دلچسپ مرحلے آئے ۔ ارب پتی بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ نے بھرپور مہم چلائی اور زبان کا کافی کھلا استعمال کیا ۔ ٹرمپ نے جہاں ہیلری کلنٹن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا وہیں کئی موقعوں پر مسلمانوں کو بھی معاف نہیں کیا ۔ ایک موقع پر تو ٹرمپ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو امریکا میں مسلمانوں کا داخلہ بند کر دیں گے اور مساجد میں بغیر وارنٹ کے چھاپے مارے جائیں گے۔

اس بیان کے خلاف امریکی مسلم کمیونیٹی ی جانب سے کافی ردعمل دیکھنے کو ملا۔ٹرمپ کے ان انتہاء پسندانہ بیانات کے بعد مسلمانوں کے خلاف وہ باتیں کھلے بندوں کی جانے لگیں جن کا اظہار پہلے دبے الفاظ میں ہوتا تھا۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو ایک مباحثے کے دوران ’’ناسٹی وومن‘‘ قرار دیا جس کا فائدہ ہیلری کلنٹن کو پہنچا اور ووٹرز میں ان کے لیے ہمدردی میں اضافہ ہوا اور ٹرمپ پر کافی تنقید کی گئی۔ٹرمپ نے ہیلری کے شوہر اور سابق امریکی صدر کے معاشقوں کو بھی اپنی مہم کے دوران ہیلری کے خلاف استعمال کیا۔ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ’’اگر وہ صدر بن گئے تو ہیلری کلنٹن جیل میں ہوں گی کیونکہ ان کے دل میں نفرت بھری ہے ‘‘انہوں نے ایک موقع پر یہ بھی کہاکہ ہیلری کلنٹن کی شام کے بارے میں خارجہ پالیسی میں سے تیسری جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔

دوسری جانب ہیلری کلنٹن بھی اپنے مخصوص انداز میں الزامات لگاتی رہیں ۔ انہوں نے ٹرمپ کو ٹیکس کے حوالے سے خرد برد کرنے والا قرار دیا اور اس الیکشن ہنگامے میں کئی ایسی امریکی خواتین بھی منظر عام پر آئیں جنہوں نے ٹرمپ پر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کا الزام لگایا ۔مزید برآں ایک ایسی ویڈیو بھی امریکی سوشل میڈیا صارفین میںمقبول ہوئی جس میں ٹرمپ خواتین کے بارے میں انتہائی نازیبا کلمات استعمال کر تے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ٹرمپ کی اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کی اہلیہ میلانیا سمیت کئی ری پبلکن افراد نے اسے ناقابل قبول اور قابل مذمت قرار دیا ہے ۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں نے تو صرف الفاظ استعمال کیے ہیں جبکہ ہیلری کے شوہر نے تو اس طرح کا عمل بھی کرتے رہے ہیں ۔

گزشتہ کئی ماہ سے جاری اس لفظی جنگ کے دوران سامنے آنے والے سرویز اور جائزوں میں اتار چڑھاؤ آتے رہے لیکن حالیہ رپورٹس کے مطابق اس وقت ڈیمو کرٹیس امیدوار ہیلری کلنٹن کا پلہ قدرے بھاری ہے ۔رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے کے مطابق اس وقت 47فی صد امریکی ہیلری کو مستقبل کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ 43فی ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ہیں ۔

یہ جائزہ رپورٹ واشنگٹن پوسٹ اور امریکن براڈ کاسٹنگ کارپوریشنز کی مشترکہ کاوش سے تیار کی گئی ہے۔ ا س وقت امریکا کی ریاستوں کیلی فورنیا، میسا چوسٹس، میری لینڈ اور مینیس سوٹا وغیرہ سولہ ریاستوں میں ڈیموکریٹس جبکہ الاباماء، ارکنساس، انڈیانا اور اوکلا ہوما سمیت اٹھارہ ریاستوں کے بارے میں خیال یہ ہے کہ وہاں ریپبلکن پارٹی کا ووٹ بینک مستحکم ہے ۔ ڈیموکریٹس کی حامی ریاستوں کے الیکٹورل ووٹ 200ہیں جبکہ ری پبلکن کی حامی سمجھی جانی والی ریاستوں کے الیکٹورل ووٹ 144ہیں۔ کولوراڈو ، مشی گن اورنوادا سمیت کچھ ریاستوں کے 74الیکٹورل ووٹ تقسیم ہو سکتے ہیں جبکہ الاسکا بھی اور اپرزونا سمیت پانچ ریاستوں کے 46ووٹوں کا یہی حال ہے ۔ مؤخر الذکر ریاستوں کو ’’سوئنگ اسٹیٹس‘‘ شمار کیا جاتا ہے ۔ ان ریاستوں میں دونوں پارٹیوں کے امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے تاہم اب تک کی اطلاعات کے مطابق ڈیموکریٹس کی ہیلری کلنٹن کو برتری حاصل ہے۔

اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں پارٹیوں کے امید واروں نے انتخابی مہم کے آخری دونوں میں اپنی توانائیوں کا بھرپور استعمال کیا ۔ ہیلری نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں دو ریاستوں میں میوزیکل کنسرٹس کا اہتمام کیا جبکہ ٹرمپ اُن ریاستوں کے دورے پر رہے جن میں بظاہر ڈیموکریٹس کو حمایت حاصل ہے ۔ وہ ان ریاستوں میں ڈیموکریٹس کی ووٹ بینک پر اثر انداز ہونے کی پوری کوشش کرتے رہے ۔ چند دن قبل تک رائے عامہ کے جائزوں میں ڈیموکریٹس امید وار کو اپنے حریٖٖٖٖٖف کے مقابلے میں چار سے پانچ پوائنٹ برتری کا حامل دکھایا گیا مگر ٹرمپ نے جب ہیلری کے ای میلز سے حساس معلومات کے افشاء کا الزام عائد کیا تو ہیلری کی مقبولیت کو کسی حد تک دھچکا ضرور لگا تھا۔ ایف بی آئی نے اس معاملے کی تحقیقات کے بعد کہا ہے کہ انہیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہو کہ ہیلری نے بحثیت وزیر خارجہ قانون کی خلاف ورزی کی ہے ۔

ایف بی آئی کی جانب سے ہیلری کو بے قصور قرار دینے سے ان کی انتخابی مہم پر چھائی دھند کافی حد تک چھٹ چکی ہے اور ٹرمپ اس رپورٹ کے بعد ایف بی آئی کو بالواسطہ طور پر تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ہے کہ دھاندلی کا نظام ڈیموکریٹ پارٹی کو تحفظ فراہم کر رہا ہے اور ان کا یہ بھی کہا کہ اتنی بڑی تعداد میںای میلز کی جانچ اس مختصر مدت میں ایف بی آئی کے لیے ممکن نہیں۔ دوسری جانب ہیلری کا موقف رہا ہے کہ انہوں نے حساس معلومات کے لیے اپنے ذاتی ای میل کا استعمال نہیں کیا ہے۔

اس انتخابی مہم میں دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثے بھی ہوئے جن میں ایک دوسرے پر کھلی تنقید کی گئی تاہم دونوں مباحثوں میں ہیلری کلنٹن کا پلہ بھاری نظر آیا ۔ بہت سے امریکی ڈونلد ٹرمپ کے تند وتیز اور اشتعال انگیز بیانات سے نالاں نظر آئے اور ان کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے جاری رہا ۔ دوسری جانب ہیلری اپنے نرم اور جچے تلے لب ولہجے کے بل پر مقبولیت حاصل کرنے میں نسبتاً کامیاب رہی ہیں ۔ اب تک کی معلومات کے مطابق ڈیموکریٹس امیدوار ہیلری کلنٹن آگے ہیں لیکن جب یہ سطور پڑھی جا رہی ہوں گی تو منظر کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔

امریکی مسلمان کیا سوچتے ہیں؟
امریکا میں 33لاکھ سے زائد مسلمان مقیم ہیں اور وہ کل آبادی کا دو فی صد ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا اور یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے ۔ان کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے واقعات بھی وقتاً فوقتاً پیش آتے رہے ہیںاور ابھی تک یہ سلسلہ رکا نہیں ۔ امریکا کے مسلم باشندوں میں گزشتہ دو عام انتخابات میں صدر باراک اوباما کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا تھا ۔ اس کی ایک وجہ اوباما کے والد کا مسلمان ہونا بھی ہو سکتی ہے تاہم صدر اوباما نے بعد میں خود سے اس تاثر کو زائل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ نائن الیون کے بعد ہونے والے دو عام انتخابات میں مسلم کمیونیٹی زیادہ متحرک نظر نہیں آئی شاید اس کی وجہ ان کی بڑھی ہوئی مایوسی ہو۔ اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف پے در پے نفرت آمیز بیانات سامنے آئے ہیں تو مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کی جانب سے ردعمل کی طور پر ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کی حمایت میںاضافہ دیکھنے میں آیا ہے تاہم کچھ مسلمان ابھی بھی ٹرمپ کو امریکا کے لیے بہتر سمجھتے ہیں جیسا کہ ریاست ٹیکساس کے شہر پیرس کے میئر ڈاکٹر ارجمند ٹرمپ کے حامی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کو پارٹی نے نامزد کیا ہے اور وہ پارٹی کے اس فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ انہی کے بڑے بھائی ڈاکٹر حسن ہاشمی جو ہیلتھ کئیر کے شعبے میں بڑے سرمایہ کار ہیں ، وہ ٹرمپ کے مخالف ہیں اور ان کی اہلیہ سلمیٰ ہاشمی ریپبلکن ہونے کے باوجود ٹرمپ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔

سلمیٰ ہاشمی امریکی ریاست فلوریڈا کی پہلی مسلمان پاکستانی مئیر بھی رہ چکی ہیں۔ اس وقت امریکا میں ’’مسلم ڈیموکریٹس کاکس ‘‘ کے رہنماؤں کی پوری کوشش ہے کہ مسلم کیمونیٹی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے گھروں سے نکلنے پر آمادہ کیا جائے۔اس سلسلے میں گزشتہ کچھ عرصے سے مسلمان امریکیوں کے گھروں میں فون کے ذریعے مہم چلائی جا رہی ہے۔ ’’مسلم ڈیموکریٹس کاکس‘‘ کا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کی عام انتخابات میں بھرپور شرکت کافی اثر ڈال سکتی ہے ۔ ریاست ٹیکساس امریکا میں پاکستانی مسلمانوں کا گڑھ سمجھی جاتی ہے اور اب کی بار وہاں کے مسلمانوں نے ماضی کے بر عکس بڑی تعداد میں ووٹ کے لیے رجسٹریشن کروائی ہے۔ ’’سوئنگ اسٹیٹس ‘‘ (وہ ریاستیں جہاں کسی بھی پارٹی کی یک طرفہ حمایت نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی اپ سیٹ کا امکان ہوتا ہے) میں بسنے والے مسلمانوںکا خیال ہے کہ اگر وہ اس انتخابات میں ماضی کے برعکس سرگرم شرکت کریں گے تو اس سے نتائج پر کافی فرق پڑ سکتا ہے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ امریکی مسلمانوں کی اکثریت ٹرمپ کے مستقبل کے ممکنہ صدر بننے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے اور وہ ہیلری کلنٹن کی جیت لیے نیک جذبات رکھتے ہیں۔

امریکی الیکشن کا نیا فاتح اور پاکستان
پاکستان اور امریکا کے دلچسپ تعلق کی وجہ سے یہاں کے باشندے امریکی الیکشن میں کافی دلچسپی لیتے ہیں ۔ اب کی بار ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرے بیانات کے بعد پاکستانی عوام کی خواہش ہے کہ ٹرمپ کو شکت ہو جائے لیکن سوال یہ ہے کہ ہیلری کلنٹن پاکستان کے لیے کیسی ثابت ہوں گی؟ یہ درست ہے کہ ٹرمپ کے مقابلے میں ہیلری پاکستان کے بارے میں زیادہ آگاہ ہیں کیونکہ وہ بطور امریکی وزیرخارجہ پاکستان کا دورہ بھی کر چکی ہیں لیکن اسی اکتوبر میں وہ پاکستان کے ٹیکنیکل ایٹمی پروگرام کے بارے میں اندیشے کا اظہار کر چکی ہیں کہ وہ ’’جہادیوں‘‘ کے ہاتھ لگ سکتا ہے اور اس طرح ایٹمی خودکش حملہ آور پیدا ہو جائیں گے۔

انہوں نے پاکستان کی بھارت کے ساتھ کشیدگی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ تاثر دیا کہ اس تناؤ کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ ان بیانات کی روشنی میں یہ سمجھنا کہ ہیلری صدر منتخب ہونے کے بعد پاکستان کی جانب جھکاؤ اختیار کریں گی ، محض ایک خوش فہمی سی محسوس ہوتی ہے ۔ ہیلری کے مقابل امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے تو کھلے لفظوں میں پاکستان کے روایتی حریف بھارت کی حمایت کی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم انڈیا کے شانہ بشانہ چلیں گے اور آپس میںخفیہ معلومات کا تبادلہ کر کے اپنے عوام کو محفوظ رکھیںگے۔ٹرمپ نے ممکنہ طور پراقتدار میں آنے کے بعد بھارت سے سفارتی اور فوجی تعلقات کو مستحکم بنانے کے عزم کا اعادہ بھی کیا ہے اور امریکا میں بھارتی نژاد ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہندی زبان میں ایک اشتہار بھی جاری کیا جس میں ٹرمپ ’’اب کی بار ، ٹرمپ سرکار‘‘ کہتے دکھائی دیتے ہیں۔یاد رہے کہ امریکا میں اس وقت سب سے زیادہ تعداد میں ایشائی باشندوں کا تعلق بھارت سے ہے اور وہ امریکا میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ کمانے والے بھی سمجھے جاتے ہیں ۔ اس کے باجود انتخابی مہم میں سامنے آنے والے بعض سرویز میں بھارتی باشندوں کی بڑی تعداد کا جھکاؤ ہیلری کلنٹن کی جانب دکھایا گیا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے بعد ایسی تقاریب منعقد کیں جن میں بھارتی اداکاروں اور رقصاؤں کو بلایا گیا اور شرکاء کے ہاتھوں میں ٹرمپ کی حمایت پر مبنی نعروں والے پلء کارڈز دکھائے گئے۔

اس پس منظر کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کافی عرصے سے جاری بے اعتمادی کی فضاء کو نظر اندازنہیں کیا جا سکتا ۔ اسی سال کے شروع میں امریکا کی جانب سے پاکستان کی ایف 16 طیاروں کی مد میںمدد روکنا ، حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ، طالبان کے خلاف ڈومور پالیسی کا تسلسل، اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری پر امریکا کی برہمی ، بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدات اور وہاں منڈیوں کی تلاش اور سرمایہ کاری وغیرہ ایسی علامات ہیں جو مستقبل میں پاکستان امریکا تعلقات کے متعلق ’’سب اچھا نہیں ہے ‘‘ کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ امریکا میں صدر کے تبدیل ہونے سے وہاں کی خارجہ پالیسی پر بہت زیادہ اثر نہیں پڑتا اس لیے گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری کسی بھی امیدوار کے صدر بننے کی صورت میں مکمل طور پر ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی تاہم اس میں کسی حد تک کمی یا شدت کا امکان ضرور ہے۔

٭ امریکی صدارتی انتخابات ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے ہفتے میں منگل کے روز ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ 1845ء سے جاری ہے۔

٭ امریکی صدارتی انتخاب کے دن عام تعطیل نہیںہوتی ۔ اس دن تمام دفاتراور نجی ادارے کھلے ہوتے ہیں۔

٭امریکا میں جو شخص ایک بار صدر منتخب ہو جائے تو اس کے نام کے ساتھ تاحیات صدر لکھا اور بولا جاتا ہے۔

٭ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ صدارتی انتخاب میں شکست کے باوجود بھی امریکا کا صدر بنا جا سکتا ہے ۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب عام انتخاب میں ہارنے والے امیدوار کو 270سے زائد الیکٹورل ووٹ حاصل ہو جائیں۔ 2000ء کے الیکشن میں الگور بش کے مقابلے میں واضح برتری کے باوجود اسی وجہ سے صدر نہیں بن سکے تھے۔

٭ امریکا کی ریاست نیواڈا میں ووٹر کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ کسی کوووٹ نہ دے ۔ وہ اپنی پرچی پر ’’میرا ووٹ کسی کے لیے نہیں ہے ‘‘ لکھ سکتا ہے۔

امریکی صدارتی انتخابات کے دلچسپ پہلو:

٭ایک اور امریکی ریاست نارتھ ڈکوٹا میں ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹریشن کروانا لازمی نہیں ہے۔

حالیہ الیکشن:

٭ یہ امریکا کے 58ویں صدارتی انتخابات ہیں۔

٭ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اس برس جون میں 70برس کے ہو چکے ہیں ۔اگر وہ صدر منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر شمار ہوں گے ۔ اس سے قبل صدر رونلڈ ریگن کی عمر انتخاب کے وقت 69برس تھی جبکہ براک اوباما جب پہلی بار صدر بنے تو ان کی عمر 47سال تھی۔

٭ہیلری کلنٹن کی عمر 69برس ہے ۔صدر بن جانے کی صورت میں ان کا شمار معمر صدور کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہوگا ۔

٭ یہ 1944ء کے بعد پہلا صدارتی مقابلہ ہے جس میں دونوں امیدواروں کا تعلق نیویارک سے ہے۔اس سے قبل 1944ء نیویارک سے تعلق رکھنے والے گورنر تھامسن ای ڈیووی اور فرنکلن روزوولٹ صدارتی معرکے میں آمنے سامنے تھے۔

٭اگر ٹرمپ صدر بنتے ہیںتو وہ گزشتہ 60 برسوں میں پہلے ایسے صدر ہوں گے جن کے پاس گورنر یا کانگریس کا تجربہ نہیں ہے ۔

٭ہیلری کلنٹن امریکی صدارتی انتخاب کی پہلی نامزد خاتون امیدوار ہیں ۔ صدر بن جانے کی صورت میں انہیں پہلی خاتون امریکی صدر کا اعزاز بھی حاصل ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔