اور قیامت نہیں آئی

شایان تمثیل  جمعرات 20 دسمبر 2012

کراچی کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو روز کتنے ہی گھرانوں میں قیامت ٹوٹ پڑتی ہے لیکن وہ ’’قیامت‘‘ نہیں آئی جس کا غلغلہ چند سال سے میڈیا پر سنائی دے رہا تھا، بطور خاص سال رفتہ تو ہر جانب 21 دسمبر 2012 کو آنے والی قیامت کے چرچے زبان زدِ خاص و عام تھے۔ مایا تہذیب کے ’’نجومی کیلنڈر‘‘ کے  مطابق 2012 قیامت کا سال قرار پایا تھا اور اس موضوع پر نہ جانے کتنی ڈاکومینٹریز اور کتابیں منظر عام پر آئیں، ہالی ووڈ کو بھی ایک اچھوتا موضوع مل گیا اور یکے بعد دیگرے اس موضوع پر فلمیں بنائی گئیں جس میں فرضی قیامت کے منظرنامے کو فلما کر دنیا کو تباہ ہوتے دکھایا گیا۔

ایک انگلش چینل سے دکھائی جانے والی ڈاکومینٹری میں ان ممکنات کو کمپیوٹرائزڈ تمثیل کاری کے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بالفرض اگر قیامت آ بھی جاتی ہے تو اس کی ابتدا کیسی ہوگی؟ وہ کیا وجوہات ہوں گی جو اس سال قیامت کی آمد کا باعث بنیں گی؟ اور اس کے اثرات کس طرح انسانی زندگی پر مرتب ہوکر اس کے خاتمے کا باعث بنیں گے؟ ڈاکومینٹری میں سائنسی تحقیقات اور مفروضات پر مشتمل لٹریچر پیش کرتے ہوئے مزید پیش گوئی کی گئی تھی کہ اس سال دنیا کو کئی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں طوفان، زلزلہ اور تباہ کن سیلابوں کا بھی تذکرہ تھا، نیز ایک بہت بڑے شمسی طوفان سے بھی لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کی گئی تھی اور یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہی قدرتی آفات بالآخر دنیا کے اختتام کا باعث بنیں گی۔

جن لوگوں نے سال کی ابتدا میں یہ ڈاکومینٹری دیکھی ہوگی وہ یقیناً پورے سال اس کے سحر میں گرفتار رہے ہوں گے، کئی یورپی ممالک نے تو قیامت کے استقبال کی تیاری بھی پوری کرلی تھی لیکن ان کی یہ تیاریاں رائیگاں ہی گئیں کیونکہ دنیا تو نہیں البتہ سال کا اختتام قریب ہے۔ اس پورے پیراگراف میں ماضی کا صیغہ استعمال کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان پیش گوئیوں کے غیر حقیقی ہونے کا اعتراف کیا جائے۔ ہرچند علم نجوم، علم رمل اور پیش گوئیوں کا علم ایک حقیقت رکھتا ہے لیکن یہ حقیقت سب سے بالا ہے کہ غیب کا علم صرف اور صرف اﷲ ہی کے پاس ہے۔

دنیاوی تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں جابجا کئی نجومی اور پیش گو دکھائی دیں گے جو ہر سال یا ماہ کی ابتدا میں مختلف تاریخوں کے ساتھ آنے والے واقعات کی پیش گوئی کرتے ہیں لیکن ان واقعات کی حقیقت ان تاریخوں کے گزرنے کے بعد سامنے آجاتی ہے جب کوئی بھی پیش گوئی پوری نہیں ہوتی، حسن اتفاق سے کوئی بات مکمل یا ملتے جلتے انداز میں تکمیل پا جائے تو یہ نجومی اور پیش گو اس بات کا خوب چرچا کرکے اپنی دکان چمکاتے نظر آتے ہیں، حالانکہ حقیقت صرف یہی ہوتی ہے کہ وہ باتیں محض حالات و واقعات کے تناظر میں اندازے کی بنا پر کی گئی ہوتی ہیں اور ایسی باتوں کا اندازہ ایک عام شخص بھی اپنے مشاہدے کی بنا پر لگاسکتا ہے۔ آپ محض ایک سال کے اخبار و رسائل جن میں اس قسم کی پیش گوئیاں دی جاتی ہیں، اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں کہ ان نجومیوں کی حقیقت کیا ہے۔ یقین جانیے! ان میں سے اکثر معصوم عوام سے پیسے اینٹھنے والے نوسر باز ہیں۔

ان نوسر بازوں میں سے اکثر چہرے میں بزرگی کی نقاب لگائے اپنے آستانوں میں بیٹھے معصوم اذہان کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں جب کہ بہت سے عالم و فاضل قسم کے جدید اور ماڈرن نجومی باقاعدہ اخبارات میں اپنی حاضری دے کر اپنے پیروکاروں کی تعداد بڑھا رہے ہیں لیکن گلیوں چوباروں میں تاریک کمروں میں بیٹھنے والے عامل اور نجومی ہوں یا سوٹ بوٹ میں ملبوس پڑھے لکھے قسمت کا حال بتانے والے مقصد دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے، غریب و پریشان حال عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنا اور انھیں تابناک مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر جو کچھ ان کے پاس موجود ہے اس سے بھی محروم کردینا۔ ایسے جعلی عامل اور پیروں کی لرزہ خیز وارداتوں کی داستانیں بھی میڈیا میں آتی رہتی ہیں، لیکن پھر بھی عوام ان کے دام فریب سے نکل نہیں پارہے۔

بات ہورہی تھی 21دسمبر کے حوالے سے مایا تہذیب کی۔ مایا تہذیب کا یہ کیلنڈر گوئٹے مالا کے جنگلوں میں کھدائی کے دوران دریافت ہوا جسے ایک اہم دریافت قرار دیا جارہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کیلنڈر میں گزشتہ ادوار میں ہونے والے کئی واقعات کی بالکل صحیح پیش گوئیاں درج ہیں، جس سے یہ اخذ کیا گیا کہ 21 دسمبر کے حوالے سے جو قیامت کی پیش گوئی کی گئی ہے شاید وہ بھی درست ثابت ہو۔ لیکن یہاں یہ بات واضح کردینا ضروری ہوگا کہ مایا کیلنڈر میں بطور خاص قیامت کا ذکر نہیں بلکہ یہ تاریخی اعداد و شمار پر مشتمل ایک ایسا کیلنڈر ہے جس میں مختلف پیش گوئیاں کی گئی ہیں اور 21 دسمبر 2012 پر آکر یہ کیلنڈر ختم ہوجاتا ہے، اس سے یہ بات اخذ کی گئی کہ کہیں یہ تاریخ دنیا کے لیے ’’آخری‘‘ تو ثابت نہیں ہوگی؟ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

بطور مسلمان ہمارا اس کیلنڈر پر اعتبار نہیں لیکن مایا تہذیب کے سحر میں گرفتار لوگ مختلف توجیہات پیش کررہے ہیں کہ ایسا کیوں نہیں ہوا۔ ایک خیال یہ بھی پیش کیا جارہا ہے کہ مایا کے پاس مزید کیلنڈر بھی ہوں گے اور یہ کیلنڈر ان میں سے صرف ایک ہے۔ انگریزی چینل ڈسکوری نیوز کے مطابق امکانات پر مشتمل یہ کیلنڈر 5,126 سال پر مبنی ہے اور اگر اسے جدید کیلنڈر سے ملایا جائے تو اس کی ابتدا 3114 قبل مسیح سے ہوتی ہے۔ اس طرح اگر بنیادی اعداد و شمار کرتے ہوئے دیکھا جائے تو 5126 سال بعد اس کا اختتام ٹھیک 21 دسمبر 2012 پر ہوتا ہے، لیکن اگر یہ شماریات غلط ہے تو اگلا ’’اختتام کا دن‘‘ 13 اکتوبر 4722 ہوگا۔

فلپائنی ماہر فلکیات فریڈرک گبریانا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 21 دسمبر کو سورج ’’ملکی وے‘‘ کے سینٹر یا Galactic خط استوا میں ہوگا لیکن اس سے زمین پر کوئی ضرر نہیں پہنچے گا، یہ ایک نارمل بات ہے، کیونکہ ایسا ہر 26 ہزار سال بعد ہوتا ہے، اس لیے اگر Galactic خط استوا کے ایک لائن میں سیاروں اور سورج کے آنے سے زمین کو نقصان پہنچنا ہوتا تو اب تک زمین کئی ملین مرتبہ تباہ ہوچکی ہوتی۔ سیارہ X سے متعلق افواہوں کے بارے میں ناسا کے ماہر فلکیات ڈیوڈ موریسن نے سیارہ ایکس Nibiru اور قیامت کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کئی سوالات کے جواب دیے ہیں، ڈیوڈ نے ایسے کسی بھی سیارے کے وجود سے واضح انکار کیا ہے۔ ناسا کی ویب سائٹ پر ڈیوڈ نے کہا کہ ’’یہ بہت دلچسپ ہے کہ لوگ 2012 میں قیامت کے دن سے متعلق پرانی کہانیوں کو پھر سے زندہ کرکے فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘ موریسن نے کہا ہے کہ وہ لوگ جو یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا گول ہے، کہتے ہیں کہ جنوب کی طرف سے زمین کی جانب کوئی آبجیکٹ آئے گا جسے صرف انٹارکٹیکا ہی میں دیکھا جاسکتا ہے، جب کہ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو وہ قطب جنوبی کے تمام ممالک میں دیکھا جانا چاہیے۔  ریزال ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی میں فلکیات پڑھانے والے فلپائن کے استاد جوز روڈریگو ٹوریس نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ اگر ایسا کوئی سیارہ ہوتا جو زمین سے ٹکرانے والا ہے تو ماہرین فلکیات اسے صدیوں پہلے دیکھ چکے ہوتے۔

21 دسمبر کو قیامت کو رد کرنے کے حوالے سے مزید پیش رفت اور جواز بھی پیش کیے جارہے ہیں۔ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی  مایا تہذیب کے ملنے والے اس کیلنڈر پر تحقیقات کے لیے مزید فنڈ فراہم کررہی ہے جب کہ ڈسکوری نیوز کا کہنا ہے کہ ماہرین آثار قدیمہ کو اس کیلنڈر کے بعد کچھ پینٹنگز اور نمونے ملے ہیں۔ ایک اور خیال جو پیش کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ مایا کے نزدیک 400 سال پر مبنی ایک Baktun ہوتا ہے اور 21 دسمبر 2012 کو تیرھویں Baktun کا خاتمہ ہوگا، سائنسدانوں کا اصرار ہے کہ اس تاریخ سے متعلق مایا کا خیال تھا کہ یہاں سے ایک نئے سائیکل کا آغاز ہوگا۔ بوسٹن یونیورسٹی کے ولیم سیٹرنو نے کہا ہے کہ قدیم مایا تہذیب کی پیش گوئی کے مطابق دنیا قائم رہے گی اور اگلے 7 ہزار سال تک چیزیں اسی طرح رہیں گی۔

وقت گزر چکا ہے، اب باتیں بنائی جاتی رہیں گی جیسے گلیوں، فٹ پاتھوں پر بیٹھنے والے نجومی اور عامل کامل بنگالی باوا، مستانی مائیاں اپنی کہی ہوئی کے پورا نہ ہونے پر بناتے ہیں۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان تو یہی ہے کہ قیامت کے دن کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کو ہے۔ جو نشانیاں قیامت کی ہمیں بتائی گئی ہیں ان میں سے کافی ابھی پوری ہونی باقی ہیں۔ اس لیے یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ قیامت فی الحال دور ہے لیکن انسان اپنے اعمال کے  باعث خود کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔