ایک پیغام والدین اور اولاد کے نام

مہوش کنول  ہفتہ 10 دسمبر 2016
اپنی اولاد کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں تاکہ وہ باہر دوست ڈھونڈنے کی بجائے اپنے گھر ہی میں دوستی کے رشتوں سے محظوظ ہوسکیں۔ فوٹو: فائل

اپنی اولاد کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں تاکہ وہ باہر دوست ڈھونڈنے کی بجائے اپنے گھر ہی میں دوستی کے رشتوں سے محظوظ ہوسکیں۔ فوٹو: فائل

یوں تو دنیا میں بہت سے اہم رشتے ہوتے ہیں لیکن دوست جیسے رشتے کا کوئی نعم البدل نہیں، دوستی کا رشتہ ہر انسان استوار کرتا ہے۔ ضروری نہیں دوستی ہم عمر لوگوں سے کی جائے، جیسے دوستی کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی اُسی طرح دوستی کے لئے رشتوں کی بھی کوئی قید نہیں ہوتی۔

بچپن سے بڑھاپے تک عمر کی ہر منزل پر ہم بہت سے دوست بناتے ہیں، لیکن جو سب سے قریبی رشتے ہوتے ہیں انہیں ہم نہ جانے کیوں نظر انداز کرجاتے ہیں، اور ایسا سوچتے ہیں کہ ان رشتوں میں دوستی کی گنجائش نہیں، جو رشتہ ہے بس وہی کافی ہے یا پھر یہ سوچ ہم پر حاوی ہوجاتی ہے کہ یہ احترام کے رشتے ہیں اور دوستوں والی بے تکلفی والا احساس اس رشتہ میں پیدا نہیں ہوسکتا۔

حالانکہ ایک بچہ بچپن میں سب سے پہلے اپنے والدین کو ہی اپنا دوست سمجھتا ہے کیونکہ وہی اُس کے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اسکول کی ہر چھوٹی سے چھوٹی، ہر اچھی بُری بات، اپنے دن بھر کی روداد والدین سے جب تک بیان نہیں کرلیتا تب تک بے چین رہتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے عمر کی منزلیں طے کرتا جاتا ہے اس کا حلقہ احباب بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس دوران اکثر والدین بھی دوسری مصروفیات میں اس دوستی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور بہت سے والدین کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ وقت پر اولاد کی فیس ادا کردینے اور اُن کی ضروریات پوری کر دینے سے اُن کے تمام فرائض کی ادائیگی ہوجائے گی۔

لیکن ان سب معاملات میں وہ یہ بات نظر انداز کرجاتے ہیں کہ تعلیمی ادارے بچوں کو تعلیم تو فراہم کرسکتے ہیں لیکن وہ انہیں والدین جیسی تربیت اور شفقت نہیں دے سکتے۔ اُس کے لئے والدین کو ہی اپنا وقت اولاد کو دینا پڑتا ہے۔ اپنی اولاد کو پروان چڑھانے کی انتھک محنت میں وہ اولاد سے ہی دور ہوجاتے ہیں اور پھر بچے گھر سے باہر جائے پناہ تلاش کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

ان حالات میں اولاد والدین سے اپنے دل کی بات کرنے کی بجائے اپنے دوستوں سے شیئر کرنے لگتی ہے، پھر ماں باپ کو جب اِس بات کا علم ہوتا ہے کہ فلاں فلاں بات اُن کی اولاد نے اُن کو بتانے کے بجائے اپنے دوستوں کو بتائی ہے تو ان کے دل کو ٹھیس پہنچتی ہے کہ جو بات اُن کو اپنی اولاد سے معلوم ہونی چاہیے تھی، وہی بات انہیں کہیں اور سے معلوم چل رہی ہے، لیکن افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اِس بات کا احساس خود سے ہی کرلینا چاہیے کہ اگر وہ اپنی اولاد سے خود دور نہیں ہوتے تو اولاد بھی اپنے دل کی بات انہیں بتانے کے بجائے دوستوں سے کبھی نہ کرتی۔

اس صورت میں سمجھدار والدین بچوں کو بٹھا کر سمجھاتے ہیں، ان کو مستقبل سنوارنے اور صحیح راہ پر چلنے کے مشورے دیتے ہیں۔ لیکن جو والدین ان چیزوں کو سمجھنا اور ہینڈل کرنا نہیں جانتے وہ اپنی اولاد کو جبری طور پر اُن معاملات سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کے احساسات اور جذبات کا خیال نہیں رکھتے اور دوستوں تک سے روابط رکھنے سے منع کردیتے ہیں۔

والدین ایسا قدم اُٹھاتے ہوئے یہ بات سراسر بھول جاتے ہیں کہ بچپن کی طرح زندگی کے ہر قدم پر اولاد کو اپنی دوستی کا احساس دلایا ہوتا تو یہ سب اس طرح نہ ہوتا۔ پہلے وہ خود ہی اولاد کو وقت نہ دے کر خود سے دور کر دیتے ہیں اور جب اولاد ان کے قابو سے باہر ہوجاتی ہے تو ایسے میں ہاتھ اٹھانے تک سے گریز نہیں کرتے۔ ایسے میں اولاد ماں باپ کی طرف سے مزید بدزن ہوجاتی ہے، اور پھر اولاد سنورنا تو دور کی بات بلکہ ضد میں آکر ہر وہ کام کر گزرتی ہے جس کے لئے اسے منع کیا جاتا ہے۔ بچوں کی یہ ضد اور خودسری معاشرتی برائیوں میں اُن کا حصّہ بن جاتی ہے۔

اولاد پر اپنے فیصلے تھوپنے اور اپنی نامکمل خواہشات کا بوجھ ڈالنے کے بجائے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کی اولاد کیا کرنا چاہتی ہے؟ کیونکہ اس طرح جب ایک طرف والدین اپنی اولاد کے مستقبل سے بہت سی اُمیدیں باندھ لیتے ہیں اور اولاد کا ایک بھی غلط قدم والدین کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ والدین کی انتہا کو چھوتی ہوئی اُمیدوں سے اولاد میں بھی غصہ پروان چڑھنے لگتا ہے اور یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ ان کی اپنی کوئی شناخت ہی نہیں، پھر وہ ہر طرح سے اپنے والدین پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح اولاد پر دو طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، یا تو وہ دنیا سے کٹ کر رہ جاتے ہیں یا پھر اپنی ضد میں کچھ بھی کر گزرنے کا جنون سر پر سوار کر بیٹھتی ہے۔

کچھ بچے والدین کی بے جا روک ٹوک کی وجہ سے اپنا گھر بار ہی چھوڑ دیتے ہیں اور والدین رو پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ ہر طرف سے ایک جملہ سُننے کو ملتا ہے،

’کیسی نا فرمان اولاد تھی جو بڑھاپے میں والدین کا سہارا بھی نہ بن سکی‘۔

اگر تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ بڑھاپے میں ان کی اولاد ان کا سہارا بنے تو سمجھدار والدین کی طرح اپنی اولاد کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں تاکہ وہ باہر دوست ڈھونڈنے کے بجائے اپنے گھر ہی میں دوستی کے رشتوں سے محظوظ ہوسکیں، اور اولاد کو بھی چاہیئے کہ اپنی دن بھر کی روداد نہ صحیح لیکن چیدہ چیدہ باتیں بتانے سے گریز نہ کرے، تاکہ کہیں اور سے باتیں پتہ چلنے پر وہ والدین کے غصے کا نشانہ نہ بنیں۔

اپنی اولاد کے اچھے کام پر ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ ان میں اعتماد پیدا ہو اور وہ مستقبل میں اپنے اچھے بُرے فیصلے لینے کے قابل بن جائیں۔ جہاں تک ممکن ہو اولاد پر اعتماد ظاہر کریں، ہر بات کو جبری طور پر نہیں بلکہ نرمی سے سمجھانے کی عادت اپنائیں، پھر اولاد بھی بدلے میں آپ کو ویسا ہی ردعمل دے گی جس کے آپ حقدار ہیں۔

گھر کے چھوٹے موٹے معاملات میں ان کی رائے لیں تاکہ اولاد کو احساس ہو کہ گھر میں ان کی بھی کوئی قدر و قیمت ہے اور گھر کے اچھے بُرے میں وہ بھی کچھ حصّہ دار ہیں۔ اس طرح گھر میں انہیں اپنی حیثیت کا اندازہ ہوگا اور وہ بھی اپنے معاملات بنا کسی گھبراہٹ کے والدین سے شیئر کرنے کے قابل بنیں گے۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ ساری ذمہ داری والدین کی ہرگز نہیں بلکہ اولاد کو بھی اپنی ذمہ داری اور فراٗض کو ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ والدین کی نصیحتوں کو دقیانوسی باتیں گردان کر انہیں نظر انداز کرنے کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے ایک بار اپنے فیصلوں اور معاملات کا بھی ایک تنقیدی جائزہ لے لیں۔
والدین سے دوستی کے لئے اُن کا نئے زمانے سے واقفیت رکھنا ضروری نہیں بلکہ ضروری ہے تو اولاد کا اپنے رویے کو اس قابل بنانا کہ والدین نہ صرف آپ کی بات کو سمجھ سکیں بلکہ آپ کے فیصلے کے اچھے اور بُرے دونوں پہلوؤں کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروا کر ان کے نتائج تک آپ کی رسائی کرواسکیں، کیونکہ اتنی آپ کی عمر نہیں ہے جتنا ان کا زمانے کے ساتھ واسطہ رہ چکا ہے اور ہر والدین اپنی اولاد کو سرد و گرم سے بچا کر ہی رکھنا چاہتے ہیں۔

یاد رکھئے! والدین سے بہترین دوست اولاد کو کبھی نہیں مل سکتے، اس لئے کبھی ایک دوسرے پر اپنی مصروفیت ظاہر نہ کریں جب کبھی اولاد کو والدین کی ضرورت ہو، چاہے پڑھائی کا معاملہ ہو یا کوئی ذاتی بات کہنی ہو، والدین ان کی بات سنیں، سمجھیں اور بہترین مشورہ دیں تاکہ وہ باہر اپنے لئے سہارے نہ ڈھونڈتے پھریں، اور اسی طرح جب کبھی والدین کو اولاد کی ضرورت ہو یا زمانے کی اچھی بُری بات سے آگاہ کرنا چاہیں تو اولاد بھی ہر طرح سے اُن کی بات سُننے اور سمجھنے کے لئے حاضر رہے۔ جوان اولاد سے دوستی کے لئے نئے زمانے سے واقفیت رکھنا ضروری نہیں بلکہ ضروری ہے تو اپنی اولاد کے رویے کو سمجھنا اور اس کے مطابق اس کے کردار کی تربیت کرنا، جو شاید اتنا مشکل کام بھی نہیں، اس لئے اپنوں کو اعتماد بخشیں اور ان کے بہترین دوست بنیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
مہوش کنول

مہوش کنول

بلاگر جامعہ کراچی سے ایم اے ماس کمیونیکیشن کرنے کے بعد نجی چینل سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔