- عوامی مقامات پر لگے چارجنگ اسٹیشنز سے ہوشیار رہیں
- روزمرہ معمولات میں تنہائی کے چند لمحات ذہنی صحت کیلئے ضروری
- برازیلین سپرمین کی سوشل میڈیا پر دھوم
- سعودی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے سے ایک شخص ہلاک؛ 95 کی حالت غیر
- وقاص اکرم کی چیئرمین پی اے سی نامزدگی پر شیر افضل مروت برہم
- گندم اسکینڈل پر انکوائری کب کرنی ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کا نیب پراسیکیوٹر سے استفسار
- ایٹمی طاقت رکھنے والے پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں؛ فاروق عبداللہ
- جماعت اسلامی کا احتجاجی مظاہرہ، تعلیمی اداروں میں مقابلہ موسیقی منسوخی کا مطالبہ
- مئی اور جون میں ہیٹ ویو کا الرٹ؛ جنوبی پنجاب اور سندھ متاثر ہونگے
- سوات : 13 سالہ بچی سے نکاح کرنے والا 70 سالہ شخص، نکاح خواں اور گواہ زیر حراست
- امریکا نے پہلی بار اسرائیل کو گولہ بارود کی فراہمی روک دی
- فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہوتا تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا،چیف جسٹس
- یقین ہے اس بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ساتھ لائیں گے؛ بابراعظم
- پاکستانی نوجوان سعودی کمپنیوں کے ساتھ مل کر چھوٹے کاروبار شروع کریں گے، وفاقی وزرا
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمتوں میں بڑا اضافہ
- جنوبی وزیرستان: نابینا شخص کو پانی میں پھینکنے کی ویڈیو وائرل، ٹک ٹاکرز گرفتار
- پنجاب پولیس نے 08 سالہ بچی کو ونی کی بھینٹ چڑھنے سے بچا لیا
- حکومتی پالیسی سے معیشت مستحکم ہو رہی ہے، پرائیویٹ سیکٹر کو آگے آنا ہوگا، وزیر خزانہ
- مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ایئرفورس کے قافلے پر حملہ؛ 1 ہلاک اور 4 زخمی
- پی ٹی آئی کا شیخ وقاص اکرم کو چیئرمین پی اے سی بنانے کا فیصلہ
پاکستان پارے کی بدترین آلودگی کا شکار ہے، سروے رپورٹ
اسلام آباد: پاکستانی شہروں میں رہنے والی ملک کی 40 فیصد آبادی کو گرد کے ذرات اور حیاتیاتی نظام میں موجود پارے کا سامنا ہے جب کہ زیریں سندھ کے میدانوں میں پارے کی سب سے زیادہ مقدار دیکھی گئی ہے۔
سائنس آف دی ٹوٹل اینوائرمنٹ میں شائع ایک رپورٹ میں پاکستانی ماہرین نے ملک کو پانچ خطوں یعنی سوات وادی و گلگت بلتستان، کشمیر، زیریں ہمالیہ اور سندھ کے میدانوں میں تقسیم کرتے ہوئے 22 اہم علاقوں سے انسانی بالوں کے نمونے لے کر ان کا تجزیہ کیا ہے۔
پاکستان میں اپنی نوعیت کے اس پہلے مطالعے کے بعد جو حقائق سامنے آئے ہیں ان میں سرِفہرست زیریں سندھ کے میدان ہیں جہاں زرعی اور صنعتی علاقوں میں پارے کی مقدار سب سے زیادہ ہے۔
دوسری جانب اس سروے کے مرکزی اسکالر اور کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ سید علی مستجاب اکبر شاہ ایقانی نے بتایا کہ ڈیٹا سے ظاہر ہوا ہے کہ لاہور کے صنعتی علاقوں میں پارے کی آلودگی سب سے زیادہ ہے یعنی 3000 حصے فی ارب اور حیاتیاتی ارتکاز ( بایو اکیوملیشن) 2480 حصے فی ارب ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ماحول میں پارے کے ارتکاز کو نوٹ کرنے کے لیے انسانی بال نہایت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس کی جڑوں میں پارہ جمع ہوتا رہتا ہے۔ انسانی پیشاب اور خون کے مقابلے میں بالوں کو دیکھنا آسان اور کم خرچ ہوتا ہے۔
سروے رپورٹ کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ اسپتالوں اور صنعتوں سے نکلنے والا فضلہ پارے کی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ رپورٹ پر اپنے خیالات بیان کرتے ہوئے سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے سینیئر مشیر محمود خواجہ نے کہا کہ پاکستان میں مرکری یعنی پارے کی آلودگی کے سروے میں کئی سقم تھے اور ان کی معلومات نہ ہونے سے پالیسی سازی میں رکاوٹ آتی رہی ہے۔ تاہم یہ نئی بیس لائن اسٹڈی اس خلا کو پر کرے گی اور حکومت پارے کے زہریلے اثرات پر کوئی قابلِ عمل پالیسی مرتب کرسکے گی۔
دیگر ماہرین نے اس ضمن میں مزید تحقیق اور فوری اقدامات پر زور دیا ہے۔ واضح رہے کہ پارہ شدید زہریلے خواص رکھتا ہے اور بچے کی پیدائش میں نقائص، گردے فیل ہونے، جسم میں کپکپاہٹ اور رسولیوں کی وجہ بنتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔