دُلا بھٹی

مدثر بشیر  اتوار 13 جنوری 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

 قلعہ لاہور کی اونچی اونچی فصیلوں کے درمیان ابھری ہوئی برجیوں میں ماہر تیر انداز بیٹھے ہوئے ہیں۔

فصیل کی شمال مغربی سیدھ کے ساتھ دریائے راوی کا ٹھاٹھیں مارتا پانی گزر رہا ہے۔ قلعے کے عظیم الشان دروازے کے ساتھ کئی ہاتھی بمعہ جنگی سازوسامان کھڑے ہیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ پر مضبوط قدوقامت کے مالک پٹھان اور راجپوت دستوں نے ہر جانب ایک ہو کاعالم طاری کر رکھا ہے۔ جلال اکبری کی ہیبت دیکھ کر دوسرے ممالک سے آئے سیاح مبہوت ہوئے جا رہے ہیں۔

قلعے کے اندرونی محلات میں بیگمات دالانوں کے بھاری بھرکم پردوں میں گفتگو بھی سرگوشیوں کی صورت میں کر رہی ہیں۔ پائیں باغ کا مالی اپنے ایک دوست اور ایک محلاتی خواجہ سرا کے ساتھ آزادانہ گفتگو کر رہاہے کیونکہ باغ قلعے کی سرکاری عمارت سے نسبتاً کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ خاموشی کی سنسناتی آواز میں ایک دم ایک دس گیارہ برس کے بچے کے ہنسنے اور دوڑنے کی آوازیں آتی ہیں جس کے پیچھے پیچھے اس کا اتالیق بھاگ رہا ہے۔ اتالیق کے ساتھ ساتھ کچھ نگران بھی گھبرائے ہوئے بھاگے پھر رہے ہیں۔ لیکن بچہ ہے کہ ہاتھ نہ آنے کی قسم کھا رکھی ہے اور بھاگتے بھاگتے وہ پائیں باغ میں آن پہنچتا ہے۔ بچہ ان کو منہ چڑاتا جا رہا ہے۔ اسی کی ہنسی نے تمام فضا میں ایک آزادی کی خوشبو مہکا دی تھی۔ بھاگتے بھاگتے وہ مالی کی جانب دیکھ کر بولا۔

’’مالی چاچا میں ان کے ہاتھ نہیں آنے والا‘‘۔

جواب میں ہنس کر مالی نے سرہلا دیا اور بچہ ہوا کے ایک جھونکے کی مانند آیا اور جھونکے کی مانند واپس اڑتا چلا گیا۔

’’بھائی یہ کون تھا‘‘۔ مالی کا دوست حقے کا ایک کش بھر کر بولا

’’بھیا یہ دلا ہے۔ دلا بھٹی…‘‘ مالی پھول کی پنکھڑیاں درست کرتے بولا

’’ہائے ہائے‘ دلہا کہو‘ دلہا کہو‘‘ خواجہ سرا تالی بجا کر بولا

’’ویسے بھی پنجابی زبان میں دلہا‘ انتہائی خوبصورت اور پیارے کو کہتے ہیں‘‘ مالی بولا

’’میں سمجھا شاید عبداللہ سے بگڑ کر دلا بنا ہے‘‘ دوست بولا

’’محل میں تو سارے اسے عبداللہ ہی سمجھتے ہیں‘‘ خواجہ سرا بولا

’’نئی ساندل بار کی آزاد سرزمین سے آیا ہے، اڑتا پنچھی قفس میں پھنس گیا ہے‘‘۔ مالی نے بھی حقے کا ایک کش بھرا

’’یہ بار کیا ہوتا ہے‘‘ خواجہ سرا بولا

’’بار کے دو مطلب ہوتے ہیں پہلا جو کہ زیادہ مستند ہے۔ ہم ایسے علاقے کو بار کہتے ہیں جو دو دریاؤں کے درمیان کی جگہ ہو جیساکہ پنجاب میں ساندل بار‘ نیلی بار اور گنجی بار بہت مشہور ہیں۔ ساندل بار دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا ہے‘‘۔

’’ہاں‘ اسی علاقے میں گرونانک نے جنم لیا اور صاحب عالی مقام بادشاہ اکبر نے سلیم کے نام پر نیا شہر شیخوپورہ آباد کیا ہے‘‘ مالی کا دوست بولا

’’مالی چاچا دوسرا مطلب کیا ہے’’خواجہ سرا نے پوچھا

’’ارے نصیبن‘ دو دریاؤں کی درمیانی جگہ بھی بہت زرخیز ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہاں قدرتی چراگاہیں بہت ہوتی ہیں۔ اس طرح کا ایک مقام پنڈی بھٹیوں کا بھی ہے۔ یہاں پر کئی صدیوں سے بھٹیوں کی آزاد حکومت تھی اور اب سرکار کا راج ہے۔ یہیں کا یہ دلا بھٹی بھی ہے اور دوسرا مطلب ایسی جگہ کو بھی بار کہتے ہیں جہاں پر قدرتی سبزہ‘ جنگل‘ اجاڑ وبیابان ہو، جہاں پر جانوروں کے لئے قدرتی خوراک کی فراوانی ہو‘‘۔

’’بھائی پھر یہ دلا یہاں کیوں ہے‘‘ مالی کے دوست نے حیرانگی سے پوچھا‘‘

’’دلا بھٹی کی ماں نے کچھ روز شیخو کو دودھ پلایا تھا اور یہ دونوں دودھ شریک بھائی ہیں۔ کیا کمال حوصلے والی عورت ہے اماں لدھی بھی۔ سرکار عالی مقام نے کہا، لدھی شیخو تیرا اور دلا میرا ہوا۔ یہاں پر اس کی تعلیم و تربیت کے لئے لایا گیا ہے۔

’’ دلے کا باپ کدھر ہے…؟‘‘ دوست نے پوچھا

’’ارے کیا موت کوآواز دینی ہے تم دونوں نے‘ کس قسم کی باتیں شروع کر دیں ہیں۔ قلعے میں دیواروں کے نہیں … ہوا کے بھی کان ہوتے ہیں‘ خواجہ سرا گھبرا کر بولا اور اپنا دوپٹہ درست کرتا اندر کی جانب چلا گیا۔ مالی نے اپنا کام پھر سے شروع کر دیا اور اس کا دوست حقے کے کش بھرتا گیا۔

ساندل بار کا علاقہ ایک وسیع و عریض رقبے پر مشتمل تھا۔ جہاں پر بھٹی قبائل کئی صدیوں سے آباد تھے۔ پنڈی بھٹیاں کے مقام پر ایک قبیلہ فرید خان بھٹی کی سرداری تھی اور اس کا باپ ساندل خان بھٹی ان قبائلی سرداروں کا سردار مانا جاتا تھا۔ اپنی جوانی میں سردار بجلی خان کے نام سے بھی مشہور تھا۔ ساندل کی رہنمائی میں ان قبائل نے بابر اور ہمایوں کے عہد میں مغل سرکار کی بھرپور مخالفت کی اور ہر محاذ پر ان کو شدید مزاحمت کا رویہ ملا۔ ہمایوں کے بعد جب اکبر نے تخت سنبھالا اور اکبر کو ان قبائل ہی کی مزاحمت کے باعث کئی برسوں تک لاہور کو دارالحکومت بنانا پڑا۔ اس دوران کئی بار سرکاری فوج اور بھٹیوں کا آمنا سامنا ہوا لیکن سرکاری فوج کو شکست فاش ہوئی۔ اس شکست کی بنیادی وجہ مقامی لوگوں کا بیرون ملک سے آئے مغلوں کی سرکار کو نہ ماننا تھا لیکن جب قلعہ فرید تباہ ہوا تو دونوں باپ بیٹوں کو گرفتار کر کے قلعہ لاہور میں شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے حضور پیش کیا گیا۔ اس وقت کی رواجی اطاعت کے تحت دونوں باپ بیٹے کو تین طرح کے معاہدوں کی پیش کش کی گئی۔

1۔ مغل سرکار کی اطاعت کرے‘ سرکاری شرح کے مطابق مالیہ دیا جائے

2۔ مغل سرکار کی اطاعت کر کے اناج اور دیگر آمدنیوں کی شرح سرکار کو دی جائے

3۔ آخری شرط یہ ہے کہ اگر درج بالا شرائط قبول نہیں تو مغل سرکار کو تسلیم کیا جائے اور صرف جنگی حالات میں مغل فوج کو اناج اور کمک فراہم کی جائے۔

لیکن دونوں بہادر سرداروں نے سرکار کے دئیے اس نظام کو نہ مانا کیونکہ آزاد سرزمین کے باسی تھے۔ وہ بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ لوگوں کے حقوق کا سودا کیونکر کرتے۔ دونوں سرداروں کو پھانسی دے دی گئی اور لوگوں کے لئے عبرت بنانے کے لئے دونوں کی نعشوں میں بھس بھر کر قلعہ لاہور کے باہر ٹانگ دیا گیا۔ دونوں سرداروں کی اس طرح کی گئی تذلیل کے باعث ساندل بار کے جوانوں کے دلوں میں مغل سرکار کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی۔ شنہشاہ اکبر جو کہ دنیا بھر میں اپنی سیاست کے باعث جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک ہاتھ تلوار کا دکھایا اور دوسرا پیار کا۔ فرید خان کی بیوہ اماں لدھی جو کہ پانچ ماہ کی حاملہ تھی۔ اس کو علاقے کی نفرت ختم کرنے کے لئے استعمال کیا اور پیدا ہونے والے دُلے کے ساتھ شیخو کو دودھ پلایا اور یہ کہا کہ دلا میرا ہوا اور شیخو تمہارا ہوا۔ یہ دونوں دودھ شریک بھائی ٹھہرے اور اس کے ساتھ ساتھ شیخوپورہ میں قلعہ بھی تعمیر کرنا شروع کر دیا کہ آنے والے وقت میں آزادی کے پروانوں کو کچلا جا سکے۔ حکومتوں کے تسلسل کے لئے بچھائی گئی بساط کی اس طرح کی مہارت اکبر ہی کے ہاں دیکھی جا سکتی ہے۔

دُلے کی عزت و تکریم شاہی خاندان کے لوگوں کے برابر ٹھہرائی گئی۔ شہزادہ سلیم کے ہم رتبہ ہونے کے باعث شاہی محلات میں وہ سب کچھ دُلے کو حاصل تھا جو شیخو کو حاصل تھا۔ دُلے کو دی جانے والی تعلیم میں اس کو درباری ادب و آداب سکھائے جانے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت کی بیورو کریسی کے تیار کردہ نصاب میں درج مضامین کا ایک ہی محاصل تھا اور وہ تھا ’’ظل الٰہی‘‘ بادشاہ ہی عوام کی امیدوں کی آخری اور پہلی کرن ہے۔ پاکیزگی اور طہارت کے تمام درجات صاحب تخت کی جانب سے مقرر کردہ تھے۔ آزاد منش باپ اور دادا کا خون کیونکر ان چیزوں کو قبول کرتا۔ طبقات میں تقسیم کردہ معاشرت جس کی تمام تشبیہات دربار میں بدرجہ اتم موجود ہیں، وہ کسی بھی طور دُلے کو اپنا نہ کر سکیں اور ایک روز دلا تمام تر بادشاہی اور بادشاہی تعلیم کو ٹھکرا کر ایسا ساندل بار کو گیا کہ پھر دوبارہ واپس نہ آیا۔

کنوئیں کے صاف و شفاف پانی میں اپنا عکس دیکھتی جوان لڑکیاں ایک دوسرے سے مذاق کر رہی تھیں ،کچھ لڑکیاں پانی کے گھڑے‘ پانی سے بھر کر لہلہاتے کھیتوں میں چہل قدمی کر رہی تھیں۔ ایک جانب سے نوجوان دلا اپنی غلیل کے ساتھ چڑیوں کا شکار کرتا بھاگتا ہوا کنوئیں کی جانب آیا۔ دُلے کو دیکھ کر لڑکیاں بھاگیں اور گھبرائی نظر آئیں، یوں جان پڑتا تھا کہ شاید کرشن گوپیوں کی جانب آیا ہو۔

’’بھاگو یہاںسے، اب اس نے ہمیں تنگ کرنا ہے‘‘ ایک نوجوان لڑکی بولی

’’چلو جلدی سے اپنے گھڑے اٹھاؤ اور گھر کی جانب چلو‘‘ ایک دوسری لڑکی بولی

’’اصل میں اماں لدھی کا لاڈلا ہے نہ … دلا بھٹی…‘‘ ایک اور لڑکی بولی

’’یہ کس نے میرا نام پکارا‘‘ دلا غلیل سے نشانہ لیتے ہوئے بولا

’’میں نے ہی کہا تھا کہ چلو تم یہ گھڑا ہی اٹھوا دو مجھے‘‘ وہی لڑکی بولی

’’تمہیں پتہ نہیں میں شکار کر رہا ہوں‘‘ دلا اکڑ کر بولا

’’لو دیکھو بڑا شکاری‘‘ لڑکی نے ہنس کر کہا

’’کیا میں شکاری نہیں‘‘ دلا غلیل سے ایک بار پھر نشانہ لگا کر بولا

’’ہاں ہے تو تو بہت بڑا شکاری … لیکن ہے چڑی مار‘‘ دوسری لڑکی نے ہنس کر کہا

’’اچھا تو یہ بات ہے‘‘ دُلے بھٹی نے کہااور نشانہ لے کر اس کا گھڑا توڑ دیا

’’ہائے… ہائے… میرا گھڑا توڑ دیا‘ … چڑی مار‘‘

’’کل آ کر دوسرا گھڑا بھی توڑ دوں گا‘‘

’’اتنی اکڑ ہے تو جا کر مغلوں کے سر قلم کر جنہوں نے تیرے باپ دادا کا قتل کیا‘‘

’’کیا… کیا مطلب؟‘ مغلوں نے میرے باپ دادا کو قتل کیا تھا‘‘۔ وہ لڑکی کے پاس بیٹھتے بولا۔

’’جا کر اماں لدھی سے پوچھ بڑا آیا راجپوت، تو تو بس لڑکیوں کے گھڑے توڑنے والا ہے … چڑی مار‘‘۔

’’مجھے میری ماں نے کبھی کچھ نہیں بتایا … تم مجھے بتاؤ‘‘

’’چل بیٹھ میں تجھے ساری بات بتاتی ہوں‘‘ یہ کہہ کر لڑکیاں اپنے گھروں کو چلی گئیں اور وہ لڑکی اس کو تفصیلات بتانے لگی۔

اس لڑکی سے باتیں سننے کے بعد دلا بھٹی سیدھا اماں لدھی کے پاس گیا۔ ماں نے اسے پہلے سینے سے لگایا اور پھر بتایا کہ وہ تو خود اس دن کا انتظار کر رہی تھی کہ کس دن وہ عمر کے اس حصے میںپہنچے گا جب تجھے مغلوں کے کئے گئے مظالم کے بارے میں بتاؤں گی کہ کس طرح انہوں نے تیرے جوان باپ اور بزرگ دادا کو ان کی غلامی نہ کرنے پر موت سے ہمکنار کیا۔

ماں کی باتیں سن کر اس کے اندر کا آزاد راجپوت جاگ گیا اور اس کے کانوں میں رہ رہ کر شاہی اتالیق اور دیگر اساتذہ کی باتیں گونجنے لگیں جن پر عمل کر کے وہ بادشاہی میں ایک اچھا مقام حاصل کر سکتا تھا۔ لیکن جب اس کو بات سمجھ میں آئی کہ اس کے باپ دادا نے ذاتی مفادات نہیں بلکہ لوگوں کی آزادی اور لوگوں کے حقوق کے لئے مغل بادشاہی کو ماننے سے انکار کیا کیونکہ بادشاہی تو ہے ہی لوگوں کے خون پینے کے مترادف۔

وقت گزرتا گیا، دلا بھٹی اپنے ساندل بار کے ساتھیوں کے ساتھ اکبر سلطنت کے لئے خوف اور دہشت کی علامت بنتا گیا۔ دلا بھٹی نے جگہ جگہ پر گوریلا کارروائیاں کرکے مغل سلطنت اور ان کے حمایت یافتہ قافلوں کو لوٹنا شروع کیا۔ لوٹی ہوئی دولت سے نہ صرف اپنی طاقت کو بڑھایا بلکہ غریب لوگوں کو بھی اس دولت میں حصہ دیا۔ لوگوں کی ہمدردیاں تو پہلے ہی سے ساندل اور فرید بھٹی کی قربانیوں کے باعث دُلے بھٹی کے ساتھ تھیں لیکن جس طرح اس نے لوگوں کے حقوق کی رکھوالی کی اس کے باعث اس کی شہرت اس کی قوت اور طاقت کا باعث بنتی گئی۔ مغل سرکار کے ظلموں سے تنگ نوجوانوں نے دُلے بھٹی کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ دن بدن بھڑتی طاقت کے باعث اکبر نے لاہور میں ڈیرے یہاں تک بڑھا لئے کہ کئی برس تک لاہور دارالحکومت بنا رہا۔ اس دوران سیاسی چالیں بھی چلی گئیں۔ اماں لدھی سے جہانگیر کو نقصان نہ پہنچانے کا وعدہ بھی لیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دُلے بھٹی کو سلطنت میں اہم عہدوں کی پیش کش بھی کی گئی لیکن دلا تو آزادی اور آزاد سماج کے لئے جنگ لڑ رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لاہور کے عظیم صوفی شاعر شاہ حسین رحمتہ اللہ علیہ بھی دلا بھٹی کی حمایت میں شامل تھے لیکن شہنشاہ اکبر کی سیاسی چالیں اپنا کام کرتی رہیں اور ایک روز دھوکے سے دُلے بھٹی کو گرفتار کر لیا گیا اور گرفتاری کے بعد لاہور کے قلعہ میں لایا گیا۔ وہاں پر ایک بار پھر سے اس کے ساتھ کئی طرح کے معاہدات کی پیش کش کی گئی لیکن آزاد دُلے بھٹی نے اپنے والد اور دادا کی مانند موت کو قبول کیا اور مغل بادشاہی کو ماننے سے انکار کیا۔ ساندل بار کے انتہائی پسندیدہ شخص کو ایک باغی کے روپ میں پیش کیا گیا اور قدیم دہلی دروازہ لاہور کے باہر قدیمی نخاس کے سامنے دُلے بھٹی کوسر عام پھانسی دے دی گئی تاکہ لوگوں کو عبرت رہے کہ آئندہ بادشاہی کے سامنے کوئی سر نہ اٹھا سکے۔

دلا بھٹی کی شہادت کے بعد ایک عرصہ تک دُلے کا نام بھی لوگوں کے لئے ممنوع تھا۔ دُلے بھٹی کی حمایت کے باعث کئی برسوں تک مغل سلطنت کے اہلکار شاہ حسین کے ساتھ سائے کی مانند چمٹے رہے اور ایک ایک پل کی خبر شہنشاہ اکبر تک جاتی رہی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا کلام عام لوگوں کے ساتھ ساتھ شاہی محلات تک بھی پہنچتا رہا۔ دُلے کا نام مغل عہد میں باغی کے روپ میں پیش کر کے ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن دُلے بھٹی کا کردار پنجابی لوک داستان کی ایک خاص صنف ’’وار‘‘ میں زندہ رہا۔ بادشاہت نے ہمیشہ کی بادشاہت کا ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز سرکار کے عہد میں لاہور کی تاریخ پرلکھوائی گئیں کتب میں دُلے بھٹی کو ایک ڈاکو‘ راہزن اور باغی کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہاں تک کہ ’’تحقیقات چشتیہ‘‘ میں مولوی نور احمد چشتی نے بھی دُلے بھٹی کو درج بالا الفاظ میں ہی تحریر کیا۔

دوسری جانب لوگوں کے حقوق کے لئے جان دینے والا دلا بھٹی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہا۔ دُلے بھٹی کا کردار تقسیم کے بعد بھی دونوں پنجابوں میں قابل عزت رہا۔ دونوں جانب کے اہم مصنفین نے مضامین اور ڈرامے تحریر کئے۔ واروں میں کردار جیتا جاگتا رہا۔ اس حوالے سے ایک اہم لیکن غیر معروف گائیک جو کہ لاہور کے ایک پرانے علاقے مزنگ کے رہائشی تھے۔ ’’شیخ بسا‘‘ نے ایک عرصہ تک واریں گائیں۔

دلا بھٹی جو کہ ایک عہد‘ ایک شخصیت‘ ایک تحریک اور فلسفے کانام تھا، چار سو پچاس برس سے زائد قدیم اس عظیم شخصیت کو ہر آنے والی بادشاہی نے ختم کرنا چاہا لیکن وہ اس کو ختم نہ کر سکے۔ شیخ بسا کا عہد حاضر میں واریں گانا اور پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں گیتوں کے اندر یہ جیتا جاگتا کردار‘ جلال اکبری کی حدود سے باہر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔