نئی عورت کا جنم

محمد عمار فیضان  جمعرات 7 مارچ 2013

علامہ اقبال نے فرمایا کہ ’’عورت کو کمزور دماغ ملا ہے، اس لیے کہ Creative Function اس کے معاملے میں دماغ کے بجائے Womb سے تعلق رکھتا ہے، مرد دماغ سے تخلیق کا کام لیتا ہے اور عورت Womb سے، یہی وجہ ہے کہ جن عورتوں کا رحم اپنا طبعی کام کرتا ہے (یعنی جو بچے جنتی ہیں) وہ زیادہ ذہین اور سمجھ دار ہوتی ہیں، بمقابلہ ان کے جنھوں نے کبھی بچہ نہیں جنا۔‘‘ اس سوچ کی کئی تشریحات پیش کی گئی ہیں، وہ یہ کہ اس سے مراد یہ تھی کہ قومی زندگی میں قیادت عورتوں کے بس کی چیز نہیں ہے، ان کے نزدیک زیادہ اہمیت عورت کے ’فریضۂ امومت‘ کی ہے، عورت کو اولاد سے محروم کردینے کو وہ تہذیب حاضرہ کے بدترین نتائج میں شمار کرتے ہیں۔

اس کا خلاصہ آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے، مرد بے کار، زن تہی آغوش۔ جدید تہذیب نے خاتون خانہ کو جب گھر اور در بدر کیا تو اس خیال اور امید کے ساتھ کہ اس پیکر خاکی کی نزاکت کو قوت میں تبدیل کردے گا، صنف نازک سے وہ تمام کام سرزد کروائے گا جو کہ بے چارہ مرد صدیوں سے انجام دیتا آیا ہے، جس طرح دماغوں نے ارتقا کی منزلیں طے کی ہیں، اسی طرح اب ان جسموں میں بھی وہ صلاحیت پیدا ہوجائے گی جو نا صرف فطرت کو شکست فاش دے گی بلکہ اس پر تصرف حاصل کرنے کے بعد اس کو مکمل طور پر اپنے تابع کرکے اس سے وہ کام لے گی جو انسانی دماغوں میں آتے ہیں۔

ہر دور میں جب انسان خدا بنا ہے تو اس نے یہ ہی حرکت انجام دی ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ زمینی خدا ایک حد تک جانے کے بعد ختم ہوگئے لیکن فطرت میں تبدیلی نہ آسکی۔ مغرب پوری جان مار کر بھی عورت میں وہ ’خدائی صلاحیت‘ پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے ہاں البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ دنیا کے سکون اور امن کو غارت کرنے کا فریضہ بخوبی انجام دے گیا ہے۔ آج دو سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی مغرب کوئی ’بڑی‘ عورت نہیں جنم دے سکا ہے، یہی وجہ ہے صرف اپنے ہاں ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشروں میں بھی عام ڈگر سے ہٹی ہوئی کمسن بچی بھی ان کے لیے اہمیت کا باعث بن جاتی ہے اور اس پر وہ ’نوازشیں‘ ہوتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

یہ بات علامہ اقبال تک محدود رہتی تو اس کی اہمیت اتنی نہ ہوتی، لیکن کیا کیجیے کہ گوروں کا تجسس بہت دفعہ ان سے وہ بات بھی کروا دیتا ہے جس کی توقع ہم سے تھی۔ ایک مغربی ادارے کی تحقیق کے مطابق دنیا میں ’بڑا آدمی‘ نہیں پیدا ہورہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو جنم دینے کے لیے ایک ’بڑی عورت‘ کی ضرورت ہے، اور بڑی عورت وہ ہوگی جس میں وہ تمام چیزیں پائی جاتی ہوں جو ایک بڑے آدمی کے کردار میں پائی جاتی ہوں۔ اس بات کا کیا مطلب ہے؟

عورت کا مطلب ہی چھپی ہوئی شے ہے، اس لیے مذہب نے بھی پردہ کا حکم دیا، پردہ بہت ہی وسیع معنی رکھتا ہے، عورت کو صرف جسمانی پردے کا نام نہیں دیا جاتا بلکہ اس کی ہر چیز ڈھکی ہوئی تھی، اس کی آواز کا پردہ تھا، جذبات اور احساسات کا پردہ تھا، خوشی اور غم کے اظہار کا پردہ تھا، خیالات اور سوچوں کو بھی ایک دائرہ فراہم تھا جس میں رہتے ہوئے ہی دنیا کی سترہ تہذیبوں کی خواتین نے بڑے بڑے آدمیوں کو جنم دیا جن کے کردار اور کارناموں سے آج بھی دنیا واقف ہے۔

جدید تہذیب نے عورت کو صرف جسمانی طور پر گھر سے نہ نکالا بلکہ اس نے ایک خاص زندگی کا تصور دیا۔ برصغیر کے علما اور بزرگ کہا کرتے تھے ’لڑکی کو لکھنا نہ سکھائو، عاشق کو خط لکھے گی۔‘ پتا نہیں کون سا علم تھا یا کیسا وجدان؟ جو وہ یہ بات جانتے تھے، آج کے جدید تعلیمی اداروں سے نکلی ہوئی لڑکیاں اپنے جذبات اور خیالات کے اظہار کے لیے جس کا سب سے زیادہ سہارا لیتی ہیں وہ ان کی تحریروں کی صورت میں ہی نکلتا ہے، اور ’جدید اشیاء‘ نے اس کام کو اور بھی سہل بنا دیا ہے۔

موجودہ عہد میں آواز کا پردہ تو احمقوں کی جنت میں رہنے والی بات ہے، دنیا کی بشمول اسلام کی تا ریخ میں بھی جتنے بڑے آدمی پیدا ہوئے ہیں ان کی مائیں پڑھی لکھی نہ تھیں (جدید علم کو ہی پڑھا لکھا کہا جاتا ہے) اگر پڑھتی بھی تھیں تو وہ علم دیا جاتا تھا جو ان کی عائلی زندگی کے لیے ضروری ہو، جو بچوں کو اچھا انسان اور مسلمان بنانے کے لیے لازمی ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ کچھ جانتی نہیں تھیں، یا اپنے دور کے حالات اور واقعات سے انجان ہوتی تھیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ تمام تر معاملات کو بخوبی سمجھتی اور پہچانتی تھیں، وقت کی سختی، زمانے کی نزاکتوں پر ان کی گہری نگاہ رہتی تھی۔

وہ صرف مٹی کی پتلیاں نہیں تھیں، احساس، جذبات، خیالات، غم اور خوشی سے گندھی ہوئی ایک ’مکمل‘ خاتون ہوتی تھیں، فرق صرف یہ ہوتا تھا کہ ان تمام چیزوں کا اظہار انسانی زندگی میں نظر نہیں آتا تھا، اور جب یہ تمام چیزیں وہ اپنے جگر پر سہتی تھیں تو ان کی فکر اور روح اس چیز کا ادارک پیدا کرتی تھی کہ ہمیں اس کا حل کرنا ہے، اس کا کچھ منطقی انجام لازمی ہے، اور اسی حال میں بچپن سے جوانی تک کا سفر طے ہوتا تھا، اور پھر پہلی دفعہ اظہار کا وقت آتا تھا جو کہ ’اولاد‘ کی صورت میں دنیا میں جنم لیتا تھا، اور وہ تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ایک ’پورا آدمی‘ ہوتا تھا، جس کو زندگی میں تربیتی کورسوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، اس میں انسانی احساسات کو جگانے کے لیے فلموں، ڈراموں کا سہارا نہیں لیا جاتا تھا، قائدانہ صلاحیت پیدا کرنے کے لیے اس کو کسی ’لیڈر شپ ڈیولپمنٹ‘ پروگرام کی ضرورت نہیں تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ مغرب کے نظام نے ایک ’نئی عورت‘ کو جنم دیا ہے، ایک نئے قسم کے تعلیمی دور سے گزر کر اس کو ایک عجیب طرز کی ’مخلوق‘ میں تبدیل کردیا ہے جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی، جو اپنی تخلیقی صلاحیت پانے کے لیے آج مردوں کی محتاج ہے، وہ کام جو فطرت نے اس کو عطا کیا تھا ہزاروں روپوں کے عوض ’ورک شاپس‘ اٹینڈ کرکے حاصل کرتی ہے، وہ تربیتی مراحل جو روایتی معاشرہ خود بخود ایک خاتون میں منتقل کرتا تھا اب کتابوں، سی ڈیز اور ٹی وی پروگراموں سے منتقل کیے جارہے ہیں، وہ تمام زندگی کی درکار ضروریات جو فطری طور پر نسلوں میں منتقل ہوتی تھیں اب زبردستی داخل کی جاتی ہیں، کیونکہ مائیں ’خالی‘ ہیں۔

جذبات کا اظہار کبھی تحریروں میں ظاہر ہوتا ہے تو احساسات اور غم کی شدت جلوسوں، مظاہروں اور سیمیناروں میں خطاب کی صورت میں بہہ جاتی ہے، وہ خوشی جو کبھی چلمن میں تھی آج سرِبازار گھومتی دکھائی دیتی ہے۔ فکر اور خیالات جن کی پرورش حالات کی ستم ظریفی برسوں میں کیا کرتی تھی اب ناولوں اور ڈراموں سے ہر ماہ تغیر پذیر رہتے ہیں۔ دنیا کی معلوم تاریخ میں مائوں کو ہر طرح کے عنوان سے نوازا گیا جو اس کی بڑائی اور اہمیت کا عکاس تھا، اس دورجدید کی خالص مادی تہذیب نے ماں کو Working women کے لقب سے جاننا اور پہچاننا شروع کردیا اور ان کی تعریفوں کے مطابق ’کام‘ تو وہ ہوتا ہے جس کے عوض چند روپے حاصل کیے جاسکیں۔

نسلِ نو کی تیاری اور گھر کی خدمات گزاری تو زندگی ’ضایع‘ کرنے کا طریقہ ہے اور ایسی ’مجبور‘ عورت کو تحقیر کے ساتھ House wife کہا جاتا ہے، جس کو ادا کرنے کا انداز ہی شرمندگی سے بھرپور ہوتا ہے۔ آج مذہب کا نام لینے والی خواتین بھی بہت فخر سے وہ کورسز جو مغرب نے ’اپنی‘ گھر سے نکالی ہوئی عورت کے لیے ترتیب دیے تھے بغیر کسی کمی بیشی کے ان خواتین کو کروا دیتی ہیں جن کا تصورِ زندگی ہی کچھ اور ہے۔

یہ بھی خیال نہیں گزرتا کہ علم کبھی ’غیراقداری‘ نہیں ہوتا۔ اگر ہر علم تمام طرح کے انسانوں کے لیے ایک جیسا ہوتا ہے تو مغرب میں گھریلو ٹوٹکوں کا کوئی کورس کیوں نہیں ہوتا؟ ’بہشتی زیور‘ جیسی کوئی کتاب کیوں شایع نہیں ہوتی؟ جو معاشرہ گھر اور خاندان جیسی جکڑ بندی کو آزادی کے خلاف سمجھتا ہو اس کو ٹوٹکوں کی نہیں صرف نوٹوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو مالجوں اور ٹرینرز پر لٹائے جاسکیں اور اس کے لیے چادر اور چاردیواری کو پھلانگنا پڑتا ہے۔ ہانڈی چولہا اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس لیے لازم ہے اس کو چوراہے پر پھوڑ دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔