دہشت گردی اور مسلم ممالک
بلاشبہ مسلم ملک اور مسلمان دہشت گردی کے سب سے زیادہ شکار ہورہے ہیں
اگرچہ دنیا کے مختلف ملکوں میں دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں لیکن مسلم ملکوں میں جس شدت سے دہشت گردی کی ہولناک وارداتیں ہو رہی ہیں اس کے جواز اور مضمرات پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اس خطرناک سلسلے کو روکنے کی کوشش دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ سنگین اور افسوسناک بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا نشانہ مسجدوں، امام بارگاہوں اور بزرگوں کے مزارات کو بنایا جا رہا ہے۔ خبروں کے مطابق نائیجیریا کی ریاست اڈاماوا کے شمال مشرقی علاقے موجی میں ایک مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں 50افراد ہلاک ہوگئے اور اس سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ خودکش دھماکا شدت پسند تنظیم بوکو حرام نے کیا ہے افریقی ملکوں میں دہشت گردی کا جو طوفان برپا ہے اس کے مرتکبین میں بوکوحرام تنظیم بھی شامل ہے اور خودکش حملوں میں یہ تنظیم پیش پیش نظر آتی ہے۔
مذہبی انتہا پسندی کی جو لہر ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے مسلم ملکوں میں آئی ہوئی ہے اس کی ابتدا کے حوالے سے یہ خیال عام ہے کہ یہ وبا 9/11 کے بعد روشناس ہوئی اس کی ابتدا اگرچہ افغانستان اور پاکستان سے ہوئی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے دہشت گردی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حیرت یہی ہے کہ اس کا نشانہ زیادہ تر مسلم ممالک ہی بنتے رہے اور بن رہے ہیں۔ عراق، شام، یمن وغیرہ میں ہزاروں معصوم شہری جان سے جاچکے ہیں، مسلم ملکوں میں اس کی شدت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف پاکستان میں 70 ہزار مسلمان دہشت گردی کی نظر ہوچکے ہیں اور اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے۔
9/11 کے بعد امریکا کے حکمران طبقے نے دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر ایک فوجی مہم چلائی اور عراق اور افغانستان پر قبضہ بھی کیا گیا، ایک عشرے سے زیادہ کی اس مہم جوئی میں امریکا اور نیٹو کے لاکھوں فوجیوں نے اس میں حصہ لیا لیکن دہشت گردی ختم ہونے کے بجائے بڑھتی گئی۔ امریکا کو عراق اور افغانستان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اب بھی افغانستان میں جزوی طور پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن جاری ہے لیکن کابل سمیت افغانستان کے کئی شہروں میں دہشت گردی کی بڑی بڑی کارروائیاں جاری ہیں اور سیکڑوں افغانی مسلمان موت کا شکار ہو رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ملکوں اور نیٹو کی فوجوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے کی مقدور بھرکوششیں کیں لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا دنیا کے کسی ملک نے خاص طور پر مسلم ملکوں اور مغربی ملکوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دہشت گردی کے اصل محرکات کیا ہیں؟ افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ کرنے والے امریکا نے اپنے تھنک ٹینکوں کے ذریعے دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے تحقیق کرانے اس کے محرکات کا پتا لگانے کی کوشش کی؟ یہ سوال اس لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کے نتیجے میں اب تک لاکھوں بے گناہ لوگ جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کی عمومی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم دہشت گردی کے محرکات ہیں۔ بلاشبہ فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نئے مسلمانوں میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا، اس جواز سے انکار ممکن نہیں لیکن اس حوالے سے ایک منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد مسلم ملکوں کو ہی اپنا نشانہ کیوں بنا رہے ہیں اور مسلمان ہی کیوں مارے جا رہے ہیں؟
بلاشبہ مسلم ملک اور مسلمان دہشت گردی کے سب سے زیادہ شکار ہورہے ہیں لیکن مغربی ملکوں میں بھی چھوٹے پیمانے پر ہی نقصانات ہو رہے ہیں اور مغربی ملکوں کو یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ کہیں ایٹمی ہتھیار مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں، اگر یہ خوف درست ہے تو پھر مغربی ملکوں کی سب سے زیادہ ذمے داری یہ بنتی ہے کہ وہ سب سے پہلے فلسطین اور کشمیر کے مسئلوں کو منصفانہ طور پر حل کرائیں۔ اس کے بعد یہ تحقیق کرائیں کہ اس وبا کے متاثرین میں سب سے زیادہ مسلمان کیوں شامل ہیں؟
پاکستان میں ضرب عضب کے نام سے دہشت گردی کے خلاف جو آپریشن شروع کیا گیا، بلاشبہ اس آپریشن کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کمر ٹوٹ گئی لیکن ابھی تک اس عذاب کا مستقل خاتمہ نہیں کیا جاسکا۔ مسئلہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ کئی مسلم ملکوں کا ہے جہاں دہشت گردی ننگی ناچ رہی ہے اور مساجد امام بارگاہیں اور بزرگان دین کے مزارات اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔ مغربی ملکوں نے نیٹو کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف چودہ پندرہ سال تک جدوجہد کی اور افغانستان میں یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں 40 کے لگ بھگ ملکوں کا ایک اتحاد صرف دہشت گردی کے خلاف بنایا گیا اس اتحاد کی فوج کی سربراہی پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کر رہے ہیں۔ کیا یہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف متحرک ہوگیا ہے اگر ہو گیا ہے تو اس کے نتائج کیا نکلے ہیں؟
کیا یہ اتحاد صرف مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف بنایا گیا ہے یا اس کے دوسرے سیاسی مقاصد بھی ہیں؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہو رہا ہے کہ مسلم ملک دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ عراق اور شام میں اس بٹوارے کو دیکھا جاسکتا ہے۔ عرب ملک سعودی عرب کی سربراہی میں ایران کے خلاف متحرک ہیں ۔ ایران بھی ایک مسلم ملک ہے لیکن عربوں اور ایران کے درمیان ایک طویل عرصے سے محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ فقہی اختلافات بتائے جاتے ہیں۔
مسلم ملکوں کے درمیان اختلافات دور کرنے اور انھیں ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے او آئی سی تشکیل دیا گیا۔ کیا او آئی سی اور عرب لیگ اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں؟ اس قسم کے سوالات منطقی ہیں اور اس وقت تک اٹھتے رہیں گے جب تک مسلم ملک بٹے رہیں گے۔