نیا نظام شمسی اور کرۂ ارض کے مسائل

ہمارے کرۂ ارض کے باسی اب تک کرۂ ارض کو ہی کل کائنات سمجھتے آرہے ہیں


Zaheer Akhter Bedari December 21, 2017
[email protected]

KARACHI: سائنس ٹیکنالوجی اور خلائی سائنس کے تناظر میں اگر ہم اپنی فکری ترقی کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ابھی پتھر کے دور ہی میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں، دنیا زمین سے نکل کر کائنات کے اسرار سے پردے اٹھا رہی ہے اور ہم ابھی تک دھرنوں کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ دنیا چاند پر ہوکر آگئی ہے اور ہم ابھی تک چاند دیکھنے کے مسئلے پر دست و گریباں نظر آتے ہیں۔

دنیا مریخ پر آبادیاں تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے ہم ابھی تک غیر قانونی بستیاں مسمار کرنے میں مصروف ہیں۔ دنیا کائنات کے اسرار پر سے پردہ اٹھانے میں مصروف ہے ہم خودکش حملہ آور تیار کرنے میں مصروف ہیں، دنیا لیپ ٹاپ، اسمارٹ موبائل فون سے اور واٹس ایپ سے مستفید ہو رہی ہے اور ہم ابھی تک اونٹوں کی لڑائی سے محظوظ ہو رہے ہیں، دنیا خلا میں مصنوعی سیارے بھیج کر مواصلاتی نظام میں ترقی کی معراج کی طرف پیش رفت کر رہی ہے اور ہم پسند کی شادی کرنے والے نوجوان جوڑوں کو قتل کرکے دنیا پر اپنی اخلاقی برتری ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دنیا خلائی بستیاں بسانے کے پلان کر رہی ہے اور ہم مسجدوں، امام بارگاہوں کو بموں سے اڑانے کی مشق میں مصروف ہیں، دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ناقابل یقین ترقی کر رہی ہے، ہم سائنسی علوم کی تعلیم کو دین دشمنی قرار دے رہے ہیں، دنیا کے ملک سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں مسابقت کررہے ہیں۔ ہم ملک کو فکری ترقی کی راہ پر لے جانے والوں پر فتوے لگا رہے ہیں۔ دنیا دل، گردوں، لیور وغیرہ کی پیوند کاری میں آگے جا رہی ہے اور ہم ان بیماریوں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر مر رہے ہیں۔ اہل نظر حیران ہیں کہ ہم ماضی میں زندہ رہنے کو کب تک نظریاتی ضرورت قرار دیتے رہیں گے؟

آج دنیا کی ترقی سے اپنی تنزلی کا مقابلہ کرنے کا خیال اس لیے آیا کہ آج اخباروں میں ایک خبر لگی ہے کہ امریکا کے خلائی ادارے ناسا نے اپنی مصنوعی ذہانت کے کمپیوٹر اور خلائی دوربین کیپلر کی مدد سے ہمارے نظام شمسی سے مشابہ خلا میں ایک اور نظام شمسی دریافت کیا ہے، جس میں وہاں کے سورج کے گرد گردش کرنے والے سیاروں کی تعداد بھی ہمارے نظام شمسی کے سیاروں کی تعداد کے برابر یعنی آٹھ ہی ہے۔ اس نظام شمسی میں چھوٹے حجم کے سیارے اپنے سورج کے قریب گردش کر رہے ہیں اور بڑے حجم کے سیارے اپنے سورج سے دور گردش کر رہے ہیں۔ ناسا کی طرف سے جاری بیان کے مطابق یہ نو دریافت نظام شمسی زمین سے 2545 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ ناسا کا کہنا ہے کہ اس دریافت کیے جانے والے نظام شمسی میں ایسا ماحول نظر نہیں آتا جو زندگی کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے کرۂ ارض کے باسی اب تک کرۂ ارض کو ہی کل کائنات سمجھتے آرہے ہیں اور اسی پس منظر میں اپنے نظریات کی تشکیل کرتے آرہے ہیں، وہ لوگ چند فیصد سے زیادہ نہیں جو دنیا کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی نظر سے دیکھتے ہوں، اس فکری پسماندگی نے ہمارے اردگرد مصنوعی مسائل کے پہاڑ کھڑے کر دیے ہیں۔ پسماندہ ملکوں کو تو چھوڑیے ترقی یافتہ ملکوں کے حکمران طبقات کائنات میں کرۂ ارض کی ایٹمی ذرے سے کمتر حقیقت کے باوجود ایٹمی ہتھیار بنا رہے ہیں اور کرۂ ارض کو ایٹمی جنگ کی طرف دھکیلنے کی احمقانہ بلکہ سفاکانہ کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سفاک اور جاہلانہ ذہنیت کے ساتھ اپنے آپ کو اشرف المخلوقات قرار دے رہے ہیں۔

ناسا جیسا خلائی تحقیق کا ادارہ اور کیپلر جیسی خلائی دوربین ترقی یافتہ ملکوں میں ہے اور ترقی یافتہ ملک ایٹمی میزائلوں کی دوڑ میں مصروف ہیں، دنیا کے 7 ارب انسان رنگ نسل زبان ملک و ملت کے خانوں میں بٹ کر کھربوں ڈالر کا سرمایہ احمقانہ جنگوں کی تیاریوں میں پھونک رہے ہیں اور دنیا کی آبادی کا 80 فیصد حصہ دو وقت کی روٹی کا محتاج ہے اور پسماندہ ملکوں کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ صرف امریکا کا دفاعی بجٹ 700 ارب ڈالر ہے جب کہ صرف ترقی یافتہ ملکوں کا مجموعی دفاعی بجٹ کھربوں ڈالر ہے۔ پسماندہ ملکوں کا دفاعی بجٹ بھی اربوں پر مشتمل ہے جب کہ ان ملکوں میں بھوک بیماری بے روزگاری سے ہر سال لاکھوں افراد موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

کرۂ ارض پر انسانی معلوم تاریخ صرف دس بارہ ہزار سال پر مشتمل ہے جب کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں لاکھوں سال پرانی انسانی باقیات دریافت ہو رہی ہیں، ابھی حال ہی میں چین کے ایک شہر میں 36 لاکھ سال پرانی ایک انسانی کھوپڑی ملی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں انسان کا وجود لاکھوں بلکہ کروڑوں سال پرانا ہے اور اس اندازے میں کوئی ابہام اس لیے نہیں ہے کہ کرۂ ارض کی عمر 4 ارب سال ہے۔ اس ناقابل یقین طویل عرصے میں کرۂ ارض پر جانے کتنی بار زندگی وجود میں آئی اور مٹ گئی۔

ماہرین ارض، خلائی ماہرین اپنی مہارت سے زمین کے اندر اور خلا کے اسرار سے پردے اٹھا رہے ہیں۔ بلاشبہ انسانی تاریخ کے روشن باب ہیں، لیکن ہمارے ماہرین آثار قدیمہ اب تک یہ دریافت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ماضی بعید میں کرۂ ارض پر کس قسم کا نظام معیشت، نظام معاشرت نافذ تھا، کس قسم کی رہائش تھی، انسان کس قسم کی خوراک استعمال کرتا تھا، انسان کا عقائدی نظام کیسا تھا، کیا ماضی بعید میں بھی جنگوں کا کلچر موجود تھا، اگر تھا تو ان ادوار میں ہتھیاروں کی نوعیت کیا تھی۔ ہم پتھر کے دور کی تاریخ سے تو واقف ہیں لیکن اس لاکھوں سال پرانی دنیا کے حوالے سے ہماری معلومات صفر ہیں۔

ہم آج بھی جنگلوں میں رہنے والے انسانوں کو وحشی انسان کہتے ہیں، لیکن آج کا انتہائی تہذیب یافتہ انسان صلیبی جنگوں سے لے کر پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں جس وحشت و بربریت کا مظاہرہ کرتا رہا ہے کیا یہ وحشت و بربریت جنگلوں میں رہنے والے وحشی قبائل کی وحشت و بربریت سے کمتر تھی؟

ہمارے خلائی ماہرین کی مہارت سے انسان چاند پر ہو آیا، مریخ پر جانے کی تیاری کر رہا ہے ہمارے خلائی ادارے ناسا نے 2545 نوری سال کے فاصلے پر ایک نیا نظام شمسی دریافت کیا ہے جو ہمارے نظام شمسی سے مشابہت رکھتا ہے، بلاشبہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے لیکن کیا ہمارے ماہرین ارض زلزلوں کی وجوہات کے ساتھ ساتھ یہ معلوم کرسکے ہیں کہ زلزلوں کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے کیسے روکا جاسکتا ہے۔

سمندری طوفانوں سے انسانوں کا بے پناہ جانی و مالی نقصان ہوتا ہے کیا سمندری طوفانوں کو روکا جاسکتا ہے، اس کی ہلاکت خیزیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے، کیا زلزلوں اور سمندری طوفانوں کو روکنے کے لیے ایٹمی طاقت سے مدد لی جاسکتی ہے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر ہمارے ماہرین ارض کو بھرپور طریقے سے غور کرنا چاہیے تاکہ ہماری تحقیق بامعنی بن سکے۔

مقبول خبریں