دورہ نیوزی لینڈ کا مایوس کن آغاز

عباس رضا  اتوار 7 جنوری 2018
اگلے میچز میں بھی زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ فوٹو؛ اے ایف پی

اگلے میچز میں بھی زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ فوٹو؛ اے ایف پی

اس کو پاکستان کرکٹ کی خوبصورتی کہیں یا بدصورتی کہ اونچی اڑان بھرتے ہوئے بھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ ٹیم کب زمین پر آگرے گی۔

گرین شرٹس نے چیمپئنز ٹرافی میں چند حیران کن فتوحات کے بعد ٹائٹل پر قبضہ جمایا،پھر اپنی پسندیدہ یواے ای کی کنڈیشنز میں آئی لینڈرز کا بھی آسان شکار کرتے ہوئے فتوحات کا سلسلہ 9میچز تک طویل کرلیا،سال کا پہلا بڑا امتحان ہی نیوزی لینڈ کی مشکل ترین کنڈیشنز میں طے پایا تو دنیا بھر کے کرکٹ شائقین اس سیریز کے شدت سے منتظر تھے، بیشتر وقت لیگز میں مصروف رہنے والے قومی کرکٹرز کی مختصر تیاریاں بھی چھٹیوں پر جانے والے غیر ملکی کوچنگ سٹاف کے بغیر ہوئیں۔

نیوزی لینڈ میں قبل از وقت پہنچ کر ایک ہفتے کا کیمپ لگائے جانے کے بعد پریکٹس میچ میں فلیٹ پچ پر کیوی بچوں کے مقابل پاکستانی بیٹنگ لائن بھی خوب چلی،بولرزبھی اچھی فارم میں نظر آئے لیکن ویلنگٹن میں صورتحال قطعی مختلف نظر آئی،بیسن ریزرو کے میدان میں اطراف سے چلنے والی ہوائیں اکثر ٹیموں کی ناتجربہ کاری کا امتحان لیتی ہیں،سیریز کے پہلے ون ڈے میچ میں بھی پاکستان کا سخت سرد موسم نے استقبال کیا،بادلوں نے مسائل میں مزید اضافہ کیا۔

موسم کے تیور دیکھتے ہوئے کپتان سرفراز احمد نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو توقع کی جارہی تھی کہ بولرز سازگار کنڈیشنز کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ابتدا میں ہی کیوی دفاع میں شگاف ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن انجرڈ جنید خان کی غیر موجودگی میں رومان رئیس کو ابتدا میں بولنگ دینے کا نقصان ہوا،محمد عامر نے تو ابتدا میں مارٹن گپٹل اور کولن منرو پر کسی حد تک دباؤ رکھا لیکن دوسرے اینڈ سے رنز نہ روکے جاسکے۔

حیرت کی بات ہے کہ کپتان سرفراز احمد نے کوئی تاثر نہ چھوڑپانے والے رومان رئیس کی جگہ پر حسن علی کو آزمانے کی ضرورت محسوس نہ کی جس کے بعد محمد عامر بھی رنز نہ روک پائے،حسن علی نے اپنے دوسرے اوور میں وکٹ حاصل کی لیکن کیویز کو دباؤ میں لانے کا موقع سرفراز احمد کے ڈراپ کیچ نے گنوا دیا، گرچہ فخرزمان نے مارٹن گپٹل اور حسن علی نے روس ٹیلر اور فہیم اشرف نے ٹام لیتھم کو بڑا سکور نہیں کرنے دیا لیکن دوسری زندگی پانے والے کین ولیمسن کی ثابت قدمی نے کیویز کو بڑے ٹوٹل کی جانب گامزن رکھا۔

ہینری نکولز کی جارحانہ ففٹی نے پاکستانی بولرز کے حوصلے پست کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،چیمپئنز ٹرافی سمیت گرین شرٹس کی بیشتر فتوحات کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بولرز نے درمیانی اوورز میں رنز روکے یا وکٹیں حاصل کیں جس کی وجہ سے آخر میں دباؤ برقرار اور حریف کو کم ٹوٹل تک محدود رکھنا آسان ہوگیا،ویلنگٹن میں پاکستان ٹاپ آرڈرکو پریشان نہیں کرسکا،بعد ازاں ہینری نکولز نے بولنگ پلان غیر موئثر ثابت کردیا۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ محمد عامر دوسرے سپیل میں تیز ہوا اور نمی کا فائدہ نہیں اٹھاسکے،شاداب خان کی درمیانی اوورز میں وکٹیں بھی حریف ٹیم کی پیش قدمی روکنے کا ذریعہ بنتی رہی ہیں لیکن کیویز کے خلاف لیگ سپنر ایک بھی شکار نہیں کر پائے، یواے ای میں حالات مختلف اور بولنگ میں کاٹ تھی، انہیں بگ بیش سمیت نوعمری میں سیکھنے کے مواقع ملے ہیں لیکن ناموزوں کنڈیشنز میں بھی کفایتی اور کارگر بولنگ کا ہنر سیکھنا ہوگا۔

دوسری جانب بیٹنگ میں بھی پاکستان ٹیم حواس باختہ نظر آئی،جس پچ پر مہمان پیسرز رنز کا سیلاب روکنے میں ناکام نظر آرہے تھے،اسی پر کیویز نے ابتدا میں تباہی پھیلادی،اظہر علی ناقص آغاز کے دہرے ذمہ دار تھے، پہلے ہی ٹم ساؤتھی کی گیند پر ایل بی ڈبلیو قرار دیئے جانے کے بعد انہوں نے واضح آؤٹ ہونے کے باوجود خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلا سوچے سمجھے ریویو کا اشارہ کردیا،خود تو پویلین جانا پڑا لیکن بابر اعظم کی راہ میں بھی کانٹے بوکر گئے۔

ایک وائیڈ بال کے بعد اگلی پر نوجوان بیٹسمین کو بھی ایل بی ڈبلیو دیا گیا،یہ فیصلہ قطعی طور پر درست نہیں تھا اور چیلنج کیا جاسکتا تھا لیکن ریویو ہی ضائع ہوچکا تھا،سرفراز احمد کی جانب سے کیچ ڈراپ کئے جانے کے بعد یہ دوسرا بڑا جھٹکا تھا جو پاکستان کو لگا،صورتحال گھمبیر ہونے پر ناتجربہ کار فخرزمان نے اپنے مزاج کے برعکس تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکٹ محفوظ رکھی لیکن سینئرز نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویئے کا مظاہرہ کیا۔

ٹرینٹ بولٹ نے محمد حفیظ کو بڑی پلاننگ کے ساتھ پھانس لیا،تجربہ کار بیٹسمین نے ایک غیرضروری ہک شاٹ کھیلی اور ایک آسان کیچ دے کر چلتے بنے،ٹی 10لیگ میں چھکے چھڑانے والے شعیب ملک کے بھی مشکل کنڈیشنز اور سرد موسم میں پسینے چھوٹ گئے،انہوں نے ٹم ساؤتھی کی باہر جاتی گیند کو چھیڑا اور وکٹ کیپر کو زحمت دیتے ہوئے میدان سے باہر کا راستہ دیکھ لیا۔

کیچ چھوڑنے کے بعد گھبراہٹ کا شکار ہونے والے کپتان سرفراز احمد ساتھی کھلاڑیوں کو ڈانٹ پلاتے ہوئے لال پیلے ہوتے نظر آرہے تھے،خود کریز سنبھالنے کا موقع آیا تو بوکھلائے نظر آئے،سپر ٹوڈ ایسٹل کی سیدھی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہونے سے ثابت ہوا کہ ٹاپ آرڈر کی ناکامی کے بعد وہ بھی مشن امپوسیبل کو دیکھتے ہوئے ہمت ہار چکے ہیں۔

فخرزمان نے اچھے سٹروکس کھیلتے ہوئے اپنی اننگز آگے بڑھائی بعد ازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھی کہا کہ پچ میں کوئی خرابی نہیں،صرف 54 رنز کے سفر میں 5وکٹیں گرنے کے بعد شاداب خان کی پراعتماد بیٹنگ نے بھی ثابت کیا کہ تحمل اور دانشمندی کے ساتھ کھیلا جاتا توان اوورز میں زیادہ وکٹیں گنوائے بغیر بہتر سکور ہوسکتا تھا،بارش کی وجہ سے کھیل رکنے کی وجہ سے ڈک ورتھ لوئیس میتھڈ پر پاکستان کو61رنز سے شکست ہوئی،اگر اننگز پوری کرنے کا موقع مل جاتا تو مارجن کہیں زیادہ ہوتا۔

ابھی تو سیریز کی ابتدا ہے،کیویز نے ویلنگٹن میں اپنے گزشتہ بہترین سکور 297کو عبور کرتے ہوئے 315 رنز بناکر خطرے کی گھنٹی بجائی ہے، پاکستان کو چیمپئنز ٹرافی کی فتح کے خمار سے نکل کر نہ صرف اپنی حکمت عملی بلکہ کمبی نیشن پر بھی غور کرنا ہوگا،اظہر علی گزشتہ دورہ آسٹریلیا میں ناکامی کے بعد ون ڈے ٹیم کی قیادت سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے، ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کے لیے انہیں سکواڈ میں شامل کرنا بھی گوارا نہیں کیا گیا تھا، چیمپئنز ٹرافی میں ایک بار پھر سکواڈ میں شامل ہوئے۔

سری لنکا کے خلاف یواے ای میں سیریز سے قبل انجیکشن لگواکر ٹیسٹ سیریز کھیلے اور ون ڈے میچز سے باہر ہوگئے،انگلینڈ میں علاج کرواکر واپس آئے تو ان کو پلیئنگ الیون کا حصہ بنانے کے لیے ڈیبیو پر سنچری بنانے سمیت اچھی فارم کا مظاہرہ کرنے والے امام الحق کو باہر بٹھادیا گیا،سلیکشن پالیسی شکست کے خوف کا شکار ہونے کہ وجہ سے نئے ٹیلنٹ کی حق تلفی اور مستقبل کی تیاریاں متاثر ہورہی ہیں، سینئرز کی موجودگی میں بھی ٹیم ویلنگٹن میں شکست سے نہیں بچ پائی۔

اگلے میچز میں بھی زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں،اگر ورلڈکپ 2019کی تیاری ہی کرنا ہے تو بڑی ٹیموں کے خلاف غیرملکی ٹورز میں نئے ٹیلنٹ کو مواقع دیئے جائیں، فخرزمان کارکردگی دکھاسکتے ہیں،شاداب خان بیٹنگ میں اعتماد کی جھلک دکھاسکتے ہیں تو امام الحق اور دیگر نواجوانوں کو آزمانے میں کیا حرج ہے،سینئرز کی جگہ پکی رکھنے کے لیے آصف ذاکراور عامر یامین جیسے کرکٹرز کو ٹورز میں صرف پانی پلانے تک محدود رکھ کر بعد میں ڈراپ کردینے سے نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے،مستقبل کی ٹیم بنانا ہے تو بڑے ناموں کے رعب اور شکست کے خوف سے نکلتے ہوئے نوجوانوں کو تسلسل کے ساتھ مواقع دینا ہوں گے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔