متحدہ اپوزیشن کا فائنل راؤنڈ

ایاز خان  جمعرات 18 جنوری 2018
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

سانحہ ماڈل ٹاؤن میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون کے استعفے کے لیے دباؤ بڑھانے کے لیے احتجاجی تحریک کا مال روڈ لاہور سے آغاز ہو گیا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک نے 2014ء میں دھرنا دیا تو پاکستان تحریک انصاف اس کے ساتھ تھی جب کہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹ میں حکومت کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مداخلت کی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کرائی۔ دھرنا ختم ہوا اور طاہر القادری بیرون ملک روانہ ہو گئے۔ اس بار البتہ پیپلزپارٹی حکومت کے بجائے طاہرالقادری کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی تحریک میں بھرپور شرکت کر رہی ہے۔

آصف علی زرداری اور عمران خان دونوں اس تحریک میں شریک ہیں لیکن فی الوقت علیحدہ علیحدہ ہیں۔ شاید یہ ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ان دونوں لیڈروں خصوصاً عمران خان کی طرف سے ساتھ بیٹھنے سے انکار کی وجہ سے کسی جلسے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ محبت اور نفرت میں آخری حد تک چلے جاتے ہیں۔ وہ کسی کی حمایت میں ہوں تو اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں، کسی کی مخالفت کریں گے تو اسے دنیا کا بدترین شخص قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری سیاسی ذہانت کا عملی نمونہ ہیں۔ ان کی یہ خوبی بقول شاعر، وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا ،والی ہے۔

منگل کی رات وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ بلاول ہاؤس لاہور میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے تو ان سے عمران کے ان کے ساتھ نہ بیٹھنے سے متعلق سوال پوچھا گیا۔ زرداری صاحب نے ہونٹوں پر روایتی مسکراہٹ سجائی اور بڑے تحمل سے گویا ہوئے۔ ’’دیکھیں میں ِرنگ کی رائٹ سائیڈ پر ہوں اور وہ رنگ کی لفٹ سائیڈ پر ، بھائی سینٹر تک پہنچنے میں کچھ وقت تو لگے گا‘‘۔ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ہماری اپنی سیاست ہے اور پی ٹی آئی کی اپنی سیاست، الیکشن سے پہلے تو سیاسی اتحاد کا کوئی امکان نہیں البتہ الیکشن کے بعد کچھ بھی ممکن ہے۔ زرداری صاحب نے صرف ایک سوال کے جواب میں مستقبل کا پورا سیاسی نقشہ کھینچ دیا ہے۔

انھوں نے یہ امکان ظاہر کر دیا ہے کہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی آیندہ الیکشن کے بعد مخلوط حکومتیں بنا سکتی ہیں۔ مفاہمت کے جادو گر آصف علی زرداری سیاست میں سارے آپشن کھلے رکھتے ہیں۔ الیکشن کے بعد ضرورت پڑی تو پی ٹی آئی ہی نہیں، ن لیگ کے ساتھ بھی اتحاد کر سکتے ہیں۔

عمران خان کا معاملہ البتہ دوسرا ہے، وہ سولو فلائٹ لینا چاہتے ہیں۔ انھیں ایک بار پھر امید ہے کہ پی ٹی آئی آیندہ الیکشن میں کلین سویپ کرے گی اور وزارت عظمیٰ ان کی جھولی میں آگرے گی۔ اس وقت آیندہ وزارت عظمیٰ کے لیے دو ہی امیدوار ایسے ہیں جو بے انتہا پر اعتماد نظر آتے ہیں۔ جی ہاں!آپ ٹھیک سمجھے ، دوسرے امیدوار یقینا شہبا ز شریف ہیں۔ کپتان کی طرح چھوٹے میاں صاحب بھی خود کو آیندہ وزیراعظم سمجھ رہے ہیں۔ فی الحال دونوں کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہنوز دلی دو راست۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن تحریک کے حوالے سے دو آراء پائی جاتی ہیں۔ حکومت متحدہ اپوزیشن کی اس تحریک کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے رہی ہے۔ سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے والے وزیراعظم نوازشریف کو بھی اس میں سازش نظر آرہی ہے جب کہ الیکشن میں صرف ساڑھے چار ماہ رہ گئے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن اپنی تحریک کو عین جمہوری قرار دے رہی ہے۔ اس کے لیڈروں سے بات کی جائے تووہ کافی پر اعتماد ہیں کہ تحریک کے نتیجے میں پنجاب حکومت ختم ہو جائے گی۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہ صرف ان کی تحریک آئین اور جمہوریت کے دائرے میں ہے بلکہ حکومت کا خاتمہ بھی آئینی طریقے سے ہو گا۔ اب اس کے لیے کیا فارمولااستعمال ہو گا اس کی تفصیلات کوئی نہیں بتاتا۔ ممکن ہے تحریک انصاف کے لاک ڈاؤن کے موقع پر جس طرح عدلیہ نے مداخلت کی اور پاناما کیس کی سماعت کا آغاز کیا، اب پھر حالات اس نہج پر پہنچ جائیں اور سپریم کورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس اپنے ہاتھ میں لے لے۔ فی الحال قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔

کچھ لوگ اس تحریک کو بلوچستان میں ہونے والی حالیہ سیاسی تبدیلی سے بھی جوڑ رہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ نادیدہ قوتیں ایک بار پھر اپنا کھیل کھیل رہی ہیں اور موجودہ جمہوریت کو چلتا کر کے اس کی جگہ قومی حکومت کے قیام کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس قومی حکومت کا دورانیہ طویل بتایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے احتساب سمیت کچھ مزید کام لیے جانے کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔

ٹیکنوکریٹ حکومت کا چرچا ایک مدت سے ہو رہا ہے لیکن بظاہر اس کے آثار نظر نہیں آرہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جو کچھ بھی ہونا ہے وہ آیندہ 20 سے 25 دنوں میں ہو جائے گا۔ فروری کے پہلے ہفتے کو شاید اسی لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ بظاہر تو سب کچھ جمہوری انداز میں چل رہا ہے۔ بلوچستان میں ثناء اللہ زہری کے اپنے ہی ساتھیوں نے بغاوت کی اور ان پر عدم اعتماد کر دیا۔ 5سیٹوں والی مسلم لیگ (ق) کے عبدالقدوس بزنجو کو نیا وزیراعلیٰ منتخب کر لیا گیا۔ کہا جارہا ہے کہ اس تبدیلی میں آصف علی زرداری نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اسے مکمل جمہوری اقدام قرار دینا پڑے گا۔

اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحریک بھی جمہوری ہی سمجھی جائے گی۔ طاہرالقادری اور ان کی جماعت کے لیے جمہوری عمل کاجاری رہنا بھلے ہی ضروری نہ ہو، عمران خان اور زرداری صاحب کی بقا اسی میں ہے۔ اب اگر عمران، زرداری، پرویزالہیٰ، سراج الحق اور دیگر سیاسی و مذہبی رہنما اس ایشو پر طاہرالقادری کا ساتھ دے رہے ہیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ یہ سب جماعتیں حصول انصاف کے لیے اکٹھی ہوئی ہیں اس مسئلے کو اب تک حل ہوجانا چاہیے تھا۔

باقر نجفی رپورٹ کو پبلک کرنے میں اس قدر تاخیر نہیں ہونی چاہیے تھی۔ سانحے کے بعد پنجاب حکومت کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی۔ مخالفین الزام عائد کرتے ہیں کہ سانحہ کے ذمے داروں کو سزا دینے کے بجائے نوازا گیا۔ ان کے الزامات میں وزن ہے۔

وزیراعلیٰ اور ان کے وزیر قانون استعفے دینے پر تیار نہیں ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ہم استعفے مانگنے نہیں لینے آئے ہیں۔ یہ کیسے ہوگا؟ جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو خرم نواز گنڈا پور کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ آصف علی زرداری اور عمران خان سندھ اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔ فائنل راؤنڈ شروع ہو چکا ہے، دیکھیں فیصلہ کب ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔