ایجادات؛ جیون آسان

ندیم سبحان میو  اتوار 21 جنوری 2018
ان آلات کو فعال رکھنے کے لیے ’برقی ٹانک‘ فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

ان آلات کو فعال رکھنے کے لیے ’برقی ٹانک‘ فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

ہمیں زندگی میں چھوٹے چھوٹے مسائل اور مشکلات کا سامنا رہتا ہے، جن سے نجات کے لیے مختلف تدبیریں کی جاتی ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی ایسی تدابیر، تیکنیکوں، ایجادات اور اختراعات کے ذریعے یہ مسائل حل اور مشکل کو آسان کرتی ہے۔ ایکسپریس سنڈے میگزین کا یہ نیا سلسلہ ’’جیون آسان‘‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایسی ہی ایجادات کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ امید ہے یہ سلسلہ آپ کو پسند آئے گا۔

یو ایس بی پورٹ کی حامل بیٹری
اسمارٹ فون کی چارجنگ ختم ہوجانے کی فکر سے نجات
موبائل فون، ٹیبلٹ اور اسی نوع کی متعدد دوسرے دستی آلات انسانی زندگی کا جزو لازم بن چکے ہیں۔ بلاشبہ ان کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ ان آلات نے انسانی جیون میں بہت سی آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ اسے ہر لمحہ اہل خانہ، عزیز و اقارب اور دوست رشتہ داروں کے ساتھ رابطے میں رہنے کے ساتھ ساتھ دنیا جہان کی پل پل کی صورت حال سے باخبر رہنے کے قابل کردیا ہے۔ علاوہ ازیں اس پر تفریح اور روزگار کے نت نئے دَر وا کیے ہیں۔

ان آلات کو فعال رکھنے کے لیے ’برقی ٹانک‘ فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر یہ کمزور پڑتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر جواب دے جاتے ہیں۔ اسمارٹ فون اور دوسرے آلات کو چارجر کے ذریعے برقی توانائی فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم ہر وقت اور ہر جگہ انھیں طاقت پہنچانا یعنی چارج کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ چارجر تو ہوتا ہے مگر برقی توانائی کا ماخذ موجود نہیں ہوتا۔ یو ایس بی پورٹ کی حامل بیٹریوں نے یہ مشکل دور کردی ہے۔ اب آپ چاہے گھر میں ہوں یا دفتر میں یا پھر محوسفر ہوں، دستی برقیاتی آلات کو چارج کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔ بس یہ بیٹری ساتھ رکھیے اور اسمارٹ فون کی بیٹری ختم ہونے کی فکر سے نجات پائیے ۔

کباب تلیں اور انڈے بھی !
منفرد فرائی پان جس میں بہ یک وقت چار چیزیں پکائی ؍ تلی جاسکتی ہیں
’’بھئی بیگم میرے لیے تو کباب فرائی کردو، پر ذرا جلدی ورنہ دفتر کے لیے نکلنے میں دیر ہوجائے گی‘‘،’’امی ! میں تو آملیٹ کھاؤں گا۔‘‘،’’امی جان ! عارف سے پہلے مجھے آملیٹ بناکر دیں۔‘‘،’’نہیں امی پہلے مجھے دیں ۔‘‘ ہر روز ناشتہ بناتے ہوئے خاتون خانہ کے کان میں اس طرح کے جملے پڑتے ہیں۔ شوہر نے کباب تلنے کی فرمائش کردی ہے۔ بچے آملیٹ اور سکے ہوئے توس کے ساتھ ناشتہ کریں گے۔ اور نازیہ بہ ضد ہے کہ اسے بھائی سے پہلے آملیٹ بناکر دیا جائے۔ ادھر عارف کا بھی یہی اصرار ہے۔ خاتون خانہ پریشان ہوجاتی ہیں کہ پہلے کس کی فرمائش پوری کی جائے۔ پہلے آملیٹ بنائیں تو شوہر کو دفتر سے تاخیر ہوجانے کا خدشہ ہے۔

اگر ایک بچے کو پہلے آملیٹ بناکر دے دیا تو دوسرا منھ پُھلا کر بیٹھ جائے گا۔ آخرکار اس منفرد فرائی پان نے ان کی مشکل حل کردی۔ اس کے اندر علیٰحدہ علیٰحدہ چار خانے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں بہ یک وقت چار چیزیں گرم کی جاسکتی یا تلی جاسکتی ہیں۔ چناں چہ اب خاتون خانہ سب کی فرمائش بہ یک وقت پوری کرسکتی ہیں۔ نہ شوہر کو دفتر جانے کے لیے تاخیر ہوگی، نہ ہی بچے اسکول سے لیٹ ہوں گے اور نہ وہ دوسرے کی فرمائش پہلے پوری کرنے پر منھ پُھلائیں گے۔

انتظار کیوں؟
برقی چُھری مکھن پگھلائے بھی لگائے بھی!
ناشتے میں مارجرین تو عام استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے فریج یا فریزر میں رکھا جاتا ہے۔ فریزر میں رکھنے پر یہ برف کے مانند منجمد ہوجاتا ہے۔ فریج میں کئی روز تک رکھے رہنے کا نتیجہ بھی کچھ یہی برآمد ہوسکتا ہے۔ اس وقت بڑی کوفت ہوتی ہے جب ہم ناشتے کی میز پر بیٹھے ہوئے ہوں، سامنے پلیٹ میں توس رکھے ہوئے ہوں، دوسری پلیٹ میں چھری اور مکھن کی ٹکیا پڑی ہو، ہم چھری مکھن پر آزمائیں تو وہ چلنے سے انکاری ہوجائے۔ برف بنے مکھن کی سطح پر چھری چلانے سے خراش تک نہ پڑے۔ اب انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب مکھن نرم ہو اور کب اسے چھری کی مدد سے توس پر لگاکر معدے میں منتقل کریں۔

دفتر جانے کے لیے دیر ہورہی ہو تو پھر جمے ہوئے مکھن کی وجہ سے ہونے والی کوفت جھنجھلاہٹ میں بدل جاتی ہے۔ بس پھر جیسے تیسے کرکے مکھن توس پر لگاتے ہیں، توس کھاکر چائے کے گھونٹ پیتے ہیں اور عجلت میں گھر سے دفتر کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔ مگر جو مزہ پگھلے ہوئے مکھن میں ہوتا ہے وہ جمے ہوئے میں کہاں ! چناں چہ اس موقع کے لیے یہ چھری بہترین ہے۔ اس برقی چھری کے دستے کے اندر دو بیٹریاں اور ایک سرکٹ بورڈ نصب ہے۔ دستے کے اوپر سرکٹ کو آن یا آف کرنے کے لیے بٹن موجود ہے۔ آن کرنے پر سرکٹ کے ذریعے برقی رَو چھری کے پھل کے اندر موجود ہیٹنگ ایلیمنٹ تک پہنچتی ہے۔ اس سے حرارت پھل میں منتقل ہونا شروع ہوتی ہے اور سیکنڈوں میں پھل گرم ہوجاتا ہے جسے ٹکیا پر رکھتے ہی مکھن پگھل جاتا ہے اور اسے بآسانی توس پر لگایا جاسکتا ہے۔

گھر کا دروازہ مقفل کرنے بھُول گئے؟
تو کوئی بات نہیں، اسمارٹ فون اٹھائیے اور تالا لگادیجیے
اگر آپ اپنے گھر یا اپارٹمنٹ میں تنہا رہتے ہیں تو بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہوگا جب عجلت میں نکلتے ہوئے یا کسی ذہنی پریشانی کے زیراثر بیرونی دروازہ مقفل کرنا بھول گئے ہوں گے۔ کچھ دور جاکر اچانک یاد آیا ہوگا کہ دروازہ بند تو کیا تھا مگر مقفل نہیں۔ اتنی دور آکر واپس جانا آپ کو اذیت ناک تو محسوس ہوا ہوگا مگر دروازہ مقفل کرنے کے لیے بادل نخواستہ آنا ہی پڑا ہوگا۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے آپ Lockitron سے مدد لے سکتے ہیں۔ یہ ایسی ڈیوائس ہے دور جانے کے باوجود آپ گھر کا داخلی دروازہ مقفل کرسکتے ہیں۔ دراصل یہ ڈیوائس وائی فائی کے ذریعے کام کرتی ہے۔ وائی فائی کے ذریعے یہ اسمارٹ فون سے منسلک ہوتی ہے اور ایپ کے ذریعے ملنے والی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے دروازہ مقفل کردیتی ہے۔ علاوہ ازیں دروازہ کھولے جانے پر ایپ آپ کو اس کی اطلاع بھی کردیتی ہے۔

روبوٹ ویکیوم کلینر
کمرے کے ناقابل رسائی حصوں کی صفائی ستھرائی بھی ممکن
یوں تو ہر فرد کو گھر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا چاہیے مگر اس کی زیادہ ذمہ داری خواتین پر ہوتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صفائی ستھرائی پر ستائش خواتین ہی کی ہوتی ہے اور گندگی کی صورت میں تنقید بھی انھی کے حصے میں آتی ہے۔ لان، کوریڈور، کمروں کے فرش وغیرہ کی صفائی تو روز ہی ہوتی ہے۔ گھر میں اگر قالین بچھا ہو تو اس پر بھی ہر دو تین کے بعد ویکیوم کلینر چلایا جاتا ہے۔ پھر بھی کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جن کی صفائی مشکل ہوتی ہے۔ روزانہ کی جھاڑپونچھ اور صفائی ستھرائی کے دوران ان پر توجہ دینا خواتین کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ چناں چہ یہاں گرد کی تہہ جمتی چلی جاتی ہے۔

اگر آپ اپنے گھر میں سوفہ سیٹ اور بیڈ کے نیچے جھانکیں تو آپ کو یہاں گرد اور چھوٹا موٹا کوڑا کرکٹ پڑا نظر آجائے گا۔ اب ان مشکل جگہوں کی روزانہ صفائی کوئی مشکل کام نہیں رہی۔ اس روبوٹ ویکیوم کلینر کا ہدف گھر کے ایسے ہی مقامات ہیں۔ طشتری نما یہ روبوٹ ننھے ننھے پہیوں کی مدد سے ’ تیرتا‘ ہوا سوفے، بیڈ اور دوسری تنگ جگہوں پر بہ آسانی پہنچ جاتا ہے اور وہاں موجود گرد اور مٹی کو ’ سانس‘ کے ذریعے کھینچ کر اپنے ’شکم‘ میں بھرلیتا ہے۔ اس جدید روبوٹ کلینر کو اسمارٹ فون کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

اسمارٹ ہیلمٹ
سائیکل سواروں کو حادثات سے بچائے
سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت زندگی کے ہر شعبے میں آسانیاں پیدا کررہی ہے۔ نت نئی ایجادات کی بدولت ٹریفک کے حادثات میں بھی کمی آسکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان کا صحیح اور بروقت استعمال کیا جائے۔ اسمارٹ ہیلمٹ بھی ایسی ہی ایجاد ہے۔ یہ ہیلمٹ موٹرسائیکل سواروں کے لیے نہیں بلکہ سائیکل سواروں کے لیے ہے۔ اسمارٹ ہیلمٹ میں آگے اور پیچھے دونوں جانب روشنیاں نصب ہیں۔ آگے سفید اور پیچھے لال۔ سامنے والی لائٹ سائیکل سوار کو اندھیرے میں آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔

سرخ لائٹ پیچھے آنے والی گاڑیوں کو اس بات کی اطلاع دے دیتی ہے کہ آگے سائیکل جارہی ہے لہٰذا وہ احتیاط کریں۔ ہیلمٹ میں پچھلی طرف دائیں اور بائیں کے اشارے بھی موجود ہیں جن سے عقب میں آنے والی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو سائیکل سوار کے ارادے کا پتا چل جاتا ہے کہ وہ دائیں یا مڑنے والا ہے۔ ہیلمٹ پر لگی ہوئی تمام روشنیاں اور اشارے ریموٹ کنٹرول سے چلتے ہیں۔ ریموٹ کنٹرول سائیکل کے ہینڈل پر نصب ہوتا ہے۔ ہیلمٹ حادثے کی صورت میں سائیکل سوار کی حفاظت تو کرتا ہی ہے مگر اسمارٹ ہوجانے کے بعد اب یہ حادثات سے بچاؤ میں بھی مددگار ہوگا۔

اب لیموں نچوڑیں نہیں چھڑکیں!
کھانے کے ساتھ سلاد کا مزہ اس وقت تک نہیں آتا جب تک اس پر لیموں نہ چھڑکا گیا ہو۔ کھیرے، ٹماٹر، ککڑی وغیرہ کی سلاد تنہا بھی کھائی جاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اس سے کھانے کے وقت ہی لطف اندوز ہوا جائے۔ خاص طور سے سخت گرمی میں اس کا استعمال فرحت بخش ہوتا ہے۔ مگر فرحت کا احساس صحیح معنوں میں اسی وقت ہوتا ہے جب کھیرے، ٹماٹر، مولی، گاجر اور ککڑی کے اپنے ذائقے کے ساتھ ان پر لیموں کی ترشی بھی موجود ہے۔

اس مقصد کے لیے ہم چھری سے لیموں کاٹ کر اس کی قاشیں پلیٹ میں نچوڑ دیتے ہیں۔ مگر اس طرح کرنے سے کسی ٹکڑے پر لیموں کے قطرے ٹپک جاتے ہیں اور کچھ اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یعنی سلاد میں لیموں کے رس کا چھڑکاؤ یکساں طور پر نہیں ہوتا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ سلاد کے ہر حصے پر لیموں کی ترشی یکساں طور پر محسوس ہو اور آپ کے ہاتھ پر رس بھی نہ لگے تو یہ چھوٹا سا آلہ اس مقصد کے لیے بہترین ہے۔ اس کے نوکیلے حصے کو لیموں میں پرودیں اور بس اس کے رس کا چھڑکاؤ شروع کردیں۔ یہ آلہ ایسے ہی ہے جیسا باڈی اسپرے یا پرفیوم وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔