کراچی کی عبرت ناک تباہی

رضوان طاہر مبین / عرفان علی  اتوار 4 مارچ 2018
قبضے، تجاوزات اور چائنا کٹنگ کے حملوں سے شہر تاراج، بہ ظاہر امن لیکن ڈاکوؤں، راہ زنوں اور پولیس گردی کا راج۔ فوٹو: فائل

قبضے، تجاوزات اور چائنا کٹنگ کے حملوں سے شہر تاراج، بہ ظاہر امن لیکن ڈاکوؤں، راہ زنوں اور پولیس گردی کا راج۔ فوٹو: فائل

یہ تذکرہ ہے اُس عروس البلاد کا جو بحیرۂ عرب کے کنارے سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر ہے۔

1737ء میں کراچی مغلیہ سلطنت سے نکلا، تو تالپوروں، کلہوڑوں اور ریاست قلات کی باج گزاری میں آتا جاتا رہا۔ 1839ء میں کراچی پر انگریزوں کا تسلط ہوا، جس کے بعد سندھ بھی انگریزوں کے زیرنگیں ہوا۔ انگریزوں کی آمد سے قبل کراچی کے گرد مٹی کی اونچی فصیلیں تھیں، جو اتنی چوڑی تھیں کہ ان پر دو بیل گاڑیاں بہ آسانی چل سکتی تھیں۔

غروب آفتاب کے بعد نقارے بجانے کے بعد فصیل کے دروازے بند کردیے جاتے۔ کھارادر اور میٹھادر کے علاقے انہی دروازوں کے نام پر ہیں۔ 1860ء میں یہ فصیل مسمار کر دی گئی، اسی برس ’ایوان صنعت وتجارت‘ کی استدعا پر باقاعدہ ’کراچی‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اسی سال کراچی میں سندھ کا پہلا ہائی اسکول قائم ہوا۔

کمشنر سندھ بریٹل فریئر Bratle Frere نے 1851ء میں کراچی میں پہلا عام کتب خانہ قائم کیا۔ تاریخی فریئر ہال کی عمارت انہی سے منسوب ہے، جو 1865ء میں مکمل ہوئی۔ 17فروری 1843ء کو سندھ پر انگریزوں کا قبضہ ہوا، اس کے بعد کراچی کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بسانے کا سلسلہ رہا، جس میں ’بمبئی ریزیڈنسی‘ کے گورنر سر چارلس نیپئر کا نام آتا ہے۔ ان کے دور میں باقاعدہ کئی عمارات تعمیر ہوئیں، جن میں خالق دینا ہال، ڈینسو ہال، کلفٹن کی برجی کے علاوہ ایم اے جناح روڈ مشہور زمانہ بلند و بالا عمارت لکشمی بلڈنگ جس کی وجہ تسمیہ اس پر نصب لکشمی دیوی کی مورتی تھی، جو قیام پاکستان کے بعد ہٹا دی گئی۔ سام راجیوں نے 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد بڑی تعداد میں حریت پسندوں کو شہید کیا، اور ان کے مقتل پر ’ایمپریس مارکیٹ‘ تعمیر کر دی۔

یکم ستمبر 1885ء کو حسن علی آفندی نے معروف درس گاہ سندھ مدرسۃ الاسلام قائم کی۔ کراچی کا پہلا کالج 1887ء میں قائم ہوا، یہ دیوان دیارام جیٹھمل کالج (ڈی جے کالج) ہے۔ 1913ء میں شہر قائد میں بجلی کی سہولت آئی۔ 1865ء میں نیٹی جیٹی کے پل کے ذریعے جزیرہ کیماڑی کو شہر سے ملادیا گیا، کلفٹن کا پل 1919ء میں سر جہانگیر کوٹھاری کے 3 لاکھ کے عطیے سے تعمیر ہوا۔

1933ء میں جمشید نسروانجی کراچی کے پہلا باقاعدہ میئر منتخب ہوئے۔ انہیں جدید کراچی کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ 1942ء تک کراچی فقط تین، چار لاکھ افراد کا مسکن تھا۔ شام چار پانچ بجے یہ شہر بند ہو جاتا، بِشتی (سقّے) سڑکوں پر نکل آتے اور سڑکیں دھوئی جاتی تھیں، جرائم کا نام بھی نہ تھا۔ چوری یا راہ زنی کی کوئی واردات ہو بھی جاتی تھی، تو برسوں اس کا چرچا رہتا۔ انگریزوں کے دور میں جہاں صفائی ستھرائی پر توجہ دی گئی، وہاں سبزی و گوشت وغیرہ کے باقاعدہ بازار بنائے گئے، (جن میں ایمپریس مارکیٹ اور فریئر مارکیٹ قابل ذکر ہیں) یہی نہیں شہر میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر عوامی بیت الخلا تعمیر کیے گئے۔

بار برداری اور سامان ڈھونے کے کام آنے والے جانوروں کے لیے بھی جگہ جگہ ’’پیاؤ‘‘ اور چارہ رکھنے کی جگہ بنائی گئی۔ قیام پاکستان سے قبل شہر میں گجراتی، میمنی اور انگریزی زبانیں رائج تھیں، جب کہ اردو بھی بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ گجرات کے علاقے کچھ کی برادری 1850سے قبل لی مارکیٹ اور اس کے قرب وجوار میں آباد ہے۔ 1851ء میں کراچی سے برصغیر کا پہلا ڈاک ٹکٹ جاری ہوا، جس کی کم سے کم مالیت دو پیسے تھی۔ کراچی ایوان صنعت وتجارت کی عمارت کا سنگ بنیاد8 جولائی 1934ء کو رکھا۔ اُس وقت یہ انڈین مرچنٹ ایسوسی ایشن کی عمارت تھی، آزادی کے بعد اس میں چیمبر منتقل کیا گیا۔

1809ء میں کراچی کی پہلی باقاعدہ مردم شماری کے مطابق صرف ساڑھے چھے ہزار افراد پر مشتمل تھا، 1891ء کی مردم شماری میں یہ شہر ایک لاکھ نفوس سے تجاوز کر گیا۔ 1947ء کے بعد کچھ ہی برسوں میں کراچی کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا، پہلی ہجرت 1946ء میں صوبہ بہار کے ہندو مسلم فسادات کے بعد ہوئی اور لیاری میں مہاجروں کی پہلی بستی ’بہار کالونی‘ کے نام سے آباد ہوئی، جب کہ بٹوارے کے بعد بہت بڑے پیمانے پر ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت عمل میں آئی، ان میں سے بہت سے یہاں موجود خالی گھروں کے مکین ہوئے ، جب کہ ایک بہت بڑی تعداد طویل عرصے تک قائداعظم کے مدفن کے گرد عارضی خیموں اور جھگیوں میں مقیم ہوئی، اُس وقت یہ جگہ ’قائد آباد‘ کہلاتی، دھیرے دھیرے انہیں شہر کے مختلف علاقوں میں بسایا جاتا رہا۔ 1950ء میں لیاقت، نہرو سمجھوتے میں دونوں طرف نقل مکانی کرنے والوں کی متروکہ املاک کا مسئلہ بھی طے ہوا، جس کے مطابق سندھ سے جانے والے 52 فی صد اقلیتوں کی متروکہ املاک پر 80 فی صد نقل مکانی کرنے والوں کا حصہ قرار پایا۔

کراچی برصغیر کا شاید وہ واحد شہر ہے، جہاں ہندوستان اور پاکستان کے جتنے گوشوں سے آکر لوگ آباد ہیں، اس کی نظیر پورے برصغیر میں کہیں نہیں ملتی۔ اس شہر میں 1947ء کے بعد ہندوستان بھر سے ہجرت ہوئی ملک کے ہر علاقے ہر زبان مذہب اور مکتبہ فکر کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں آباد غیر مسلموں میں ہندو، عیسائی، پارسی اور سکھ حتیٰ کہ یہودی بھی شامل ہیں۔

قیام پاکستان سے قبل کراچی میں ڈھائی ہزار یہودی تھے اور رنچھوڑ لائن میں ان کی عبادت گاہ ’اسرائیلی مسجد‘ کے نام سے معروف تھی، جو 1980ء کے اوائل تک موجود رہی، اب اس کی جگہ ایک کاروباری مرکز قائم ہے، کیوں کہ کراچی کے بیش تر یہودی، اسرائیل، ہندوستان اور برطانیہ ہجرت کر گئے۔ بعض محققین کا دعویٰ ہے کہ آج بھی کچھ یہودی خاندان اپنی شناخت پوشیدہ رکھے ہوئے کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ میوہ شاہ کے یہودی قبرستان میں آج بھی کراچی کے یہودیوں کی قبریں موجود ہیں۔

قیام پاکستان کے اعلان کے بعد 9 جون 1947 کو کراچی کو ہی دارالحکومت بنانے کا فیصلہ ہوا۔ مئی 1948ء میں دستور ساز اسمبلی نے کراچی کو دارالحکومت بنانے کی توثیق کی۔ جب کراچی کو دارالحکومت بنایا گیا، تو عارضی طور پر خیموں میں ریڈیو پاکستان قائم کر کے نشریات کا آغاز کیا گیا، پھر 14 اگست 1948ء کو باقاعدہ عمارت میں کراچی اسٹیشن کا افتتاح کیا گیا۔ کراچی کی پہلی جامعہ، جامعہ کراچی 1951ء میں قائم ہوئی، جس کا کل رقبہ 11,279 ایکڑ ہے۔

دارالحکومت اور معاشی اہمیت کے سبب ملک بھر سے یہاں نقل مکانی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا، تب سے یہ شہر پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کراچی کی مرکزی جیل شہر کی حدود سے باہر تھی، مگر شہر کی وسعتیں کبھی کی اسے پامال کرچکیں۔ شاہ راہ فیصل پر واقع 1843ء کا مشہور مسیحی قبرستان (گورا قبرستان) بھی شہر کی حدود سے پرے تھا، آج شہر کے مرکز میں ہے، حتیٰ کہ ملیر جو کہ ایک الگ ضلع کی حیثیت رکھتا تھا۔ اب شرقی، غربی، وسطی، جنوبی اور کورنگی کی طرح کراچی کا ایک ضلع کہلاتا ہے۔ اس کے طول و عرض لگ بھگ 100 کلومیٹر تک پھیلے ہوئے ہیں، گویا یہ شہر اپنے وسط سے چاروں سمت تقریباً 50 کلو میٹر تک دراز ہے، جس میں مضافاتی گوٹھ بھی شامل ہیں۔

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کراچی کی جانب برق رفتار نقل مکانی وہ مسئلہ ہے، جو اس شہر کے 90 فی صد مسائل کا سبب ہے۔ بنیادی سہولیات سے امن وامان کے مسائل تک ہمیں یہی وجہ دکھائی دیتی ہے، اس کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ گزشتہ 70 برس میں اس شہر کے وسائل میں آبادی کے لحاظ سے خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا۔ اگر وسائل بھی اسی تناسب سے بڑھائیں، تب بھی ایک شہر کی آبادی میں اتنی تیزی سے اضافہ مسائل کا باعث ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ نئے شہر بسائے جائیں اور دیگر شہروں میں بھی روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔

٭گنجانیت کے ’اہدافی قتل‘
کسی دانش ور نے کہا تھا کہ ’اپنے شہر کی آبادی کا خیال رکھو اور اسے مقررہ حد سے آگے نہ بڑھنے دو، کیوں کہ شہر میں آبادی کے بے تحاشا اضافے سے شہر کی اخلاقی اور ثقافتی روح پر موت کا عالم طاری ہوجاتا ہے جس سے شہر میں شر اور فساد کی قوتیں سر اٹھاتی ہیں اور تباہی پیدا کرتی ہیں۔‘ شہر قائد کو دیکھیے تو یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے۔ یہ شہر پورے ملک کو تو چلا رہا ہے، مگر اب خود اس کے لیے چلنا دوبھر ہو چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس اہم ترین مسئلے پر کوئی بات تک نہیں کی جا رہی۔ الٹا شب وروز ہزاروں گھروں پر مشتمل سیکڑوں فلک بوس عمارتوں کی تعمیر زور وشور سے جاری ہے، کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آنے والے دنوں میں انسانوں کا یہ سمندر شہر قائد کی چھاتی پر کیوں کر پر سمائے گا؟

اس وقت کراچی انسانی گنجانیت کا ایک ایسا سلگتا ہوا ’بارود‘ ہے، جو مختلف زمروں میں روزانہ ان گنت انسانوں کو لقمہ اَجل بنا رہا ہے، روزانہ یہ جانیں کسی بھی ہنگامی صورت حال میں امداد پہنچنے کی تاخیر کی صورت میں جا رہی ہیں۔۔۔ سڑکوں پر ہمہ وقت تیز رفتار گاڑیوں کا ازدہام بھی روزانہ بہت سے انسانوں کو نگل رہا ہے۔۔۔

آج کراچی کا 88 فی صد پانی پینے کے قابل نہیں، عالمی ادارہ صحت کے ایک سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر نجیب الشوا براجی کے مطابق آلودگی اور گندگی کے سبب کراچی کی تقریباً آدھی آبادی الرجی کا شکار ہے۔ آلودگی، گندگی اور غلاظتوں کے سبب کینسر، ذیابیطیس، گردے اور امراض قلب کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، مختلف وبائی امراض پھیل رہے ہیں، ڈینگی اور چکن گنیا سے لے کر ایسے امراض سامنے آرہے ہیں، جن کی تحقیق کے لیے بیرونی ماہرین کی مدد لینی پڑ رہی ہے۔ سانس اور پیٹ کے امراض کا شکار ہو کر اَن گنت افراد لقمہ اَجل بن جاتے ہیں۔ اہدافی قتل اور دہشت گردی میں مرنے والوں پر تو سب تشویش ظاہر کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ایسی ہلاکتیں ’حادثات‘ کے خانے میں ڈال کر آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں۔

ناگہانی حادثات میں طبی امداد پہنچنے میں تاخیر کے سنگین عمل پر کسی اقدام اور حکمت عملی کے بہ جائے افسوس اور دکھ کے اظہار پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ چوں کہ یہ جانیں براہ راست کسی بے امنی یا خدانخواستہ دہشت گردی کے نتیجے میں نہیں جا رہیں، اس لیے ان کے خلاف کوئی ’آپریشن‘ یا ’ریسکیو‘ کا خیال بھی کسی کے ذہن میں نہیں۔

کراچی میں کسی بھی ناگہانی صورت حال میں کوئی بھی بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اس کی جھلک 2015ء کی قیامت خیز گرمی میں دیکھی گئی، جب ڈیڑھ ہزار افراد جان سے گئے۔ عالم یہ تھا کہ شہر کے ہزاروں متاثرین سے اسپتالوں اور کلینکس بھرے ہوئے تھے، بستر خالی نہ تھے اور مریض اسپتالوں کی پارکنگ میں پڑے سسک رہے تھے، مریضوں کے لیے ایمبولینسیں، اسٹریچر، ڈاکٹر اور بنیادی طبی سہولیات اتنے بڑے پیمانے پر موجود نہ تھیں، کہ جتنے متاثرین تھے۔ بنیادی سہولیات کے بحران کے اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شہر مستقل طور پر کتنے بڑے المیوں کے دہانے پر ہے!

٭بنیادی ضروریات سے ہنگامی امداد تک!
کراچی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب پانی، بجلی، گیس، مواصلات اور نکاسی اور صفائی جیسی سہولیات بری طرح تباہ ہو کر رہ گئی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ شہر کے بیچوں بیچ ایسے علاقے موجود ہیں، جہاں اب لائن کا پانی آنا قصہ پارینہ بن چکا ہے، اگر پانی آتا بھی ہے، بقدر اشک بلبل۔۔۔ پانی جیسی ضرورت کے لیے اس شہر کو ہزاروں روپے کے منہگے ٹینکروں تلے روند دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پانی کم ہے، تو یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ اس نے غیر قانونی تعمیرات کیوں نہیں روکیں؟ پھر اگر واقعی پانی کا بحران ہے، تو آخر ان ٹینکروں کو پانی کہاں سے دست یاب ہو رہا ہے؟

کراچی کی طبی سہولیات کا جائزہ لیجیے تو 1859ء میں سول اسپتال، 1938ء میں میڈیکل کارپس سینٹر (جناح اسپتال) قائم ہوا، 1947ء کے بعد ’قومی ادارہ برائے امراض قلب‘ اور عباسی شہید جیسے بڑے اسپتال قائم ہوئے۔ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز(NIBD) جیسے ادارے بھی تعمیر ہوئے، لیکن خلق خدا کے لیے یہ سہولیات اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم ہیں۔ شہر میں کوئی حادثہ یا دہشت گردی ہو تو زخمیوں کو دور دور سے سول، عباسی یا جناح اسپتال لایا جاتا ہے، جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔

ایک طرف یہ بنیادی ضروریات شہر کی مجموعی طلب سے کئی گنا کم ہیں، تو دوسری طرف باقاعدہ ٹیکس ادا کر کے یہ سہولیات حاصل کرنے والے افراد ان سہولیات سے محروم ہیں اور غیر قانونی طریقے سے یہ سہولیات حاصل کرنے والے بہت آرام سے ہیں۔ ’کراچی سب کا ہے‘ کے نعرے کے تحت ملک بھر سے لوگ یہاں آکر اپنے اہل خانہ کی کفالت کرتے ہیں، یہاں کی پانی، بجلی، گیس، سڑکیں، تعلیم اور صحت کی سہولیات استعمال کر تے ہیں، جب کہ اہل کراچی کو ان سہولیات کے حوالے سے مصائب کا سامنا ہے۔

جب مردم شماری ہوتی ہے، تو اُن کا شمار ان کے آبائی علاقوں میں کیا جاتا ہے، گویا قانوناً ان کے حصے کا بجٹ وہاں لگتا ہے اور یہ حصے دار یہاں کے بجٹ میں بنتے ہیں! یہی غیر منصفانہ روش اور محرومی عوام کے درمیان لسانیت یا صوبائیت کا باعث بھی بنتی ہے، کہ دوسرے علاقوں کے لوگ اپنے آبائی علاقوں کی سیاست کرتے ہیں اور اس شہر کے مکین اپنے ’گھر‘ میں اجنبی ہوجاتے ہیں۔آمدورفت کے باب کو دیکھیے تو نئی سڑکوں کی تعمیر کا کام 2010ء میں مقامی حکومتوں کے خاتمے کے بعد سے تقریباً معطل رہا، حتیٰ کہ پہلے سے بنی ہوئی سڑکیں ہی خستہ حالی کا نمونہ بن کر رہ گئیں۔

انتخابات قریب آتے ہی گذشتہ کچھ دنوں سے حکومت سندھ کی جانب سے بہ یک وقت کئی مرکزی سڑکوں پر انڈرپاس اور پُلوں کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ پہلے ہی شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر گاڑیوں کا ایک ازدہام رہتا تھا، اب بہ یک وقت تعمیری سرگرمیوں نے اسے مزید پریشان کُن کردیا ہے۔ معاشی دارالحکومت ہونے کے ناتے بندرگاہ سے صنعتوں تک بھاری گاڑیوں کی آمدورفت بھی عام سڑکوں سے ہوتی ہے، اور ممانعت کے باوجود بھیڑ کے اوقات میں دندناتی پھرتی ہیں۔ ایک عدالتی حکم کے بعد بھاری ٹریفک کو شہر کی عام سڑکوں سے گزرنے سے روک دیا تھا، لیکن اس پر چند دن ہی عمل ہو سکا، مبینہ طور پر حکام کی ملی بھگت سے شام کے اوقات میں ہی ٹینکر، کنٹینر، ٹرالر اور ڈمپر وغیرہ دندناتے نظر آتے ہیں، جو نہ صرف ٹریفک حادثات کا باعث بنتے ہیں بلکہ عام شہریوں کی آمدورفت بھی وبال بنا تے ہیں۔

کراچی میں پارکنگ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ملک کے پہلا کثیر المنزلہ پارکنگ پلازہ صدر، کراچی میں تعمیر ہوا، جس میں 200 گاڑیاں اور 500 موٹر سائیکلیں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے۔ اس سات منزلہ عمارت کی دو بالائی منزلیں دفاتر کے لیے مختص کی گئیں، جب کہ نچلی منزل پر دکانیں بنیں۔ بدقسمتی سے یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا۔

کراچی میں گزشتہ کچھ عرصے میں لاتعداد رہائشی اور تجارتی منصوبے قائم ہوئے، لیکن اِن منصوبوں میں پارکنگ کی گنجائش اب جاکر رکھی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر بازاروں اور شاپنگ سینٹروں کی پارکنگ سڑکوں پر کی جاتی ہے، جس سے آمدورفت محال ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف متوسط اور نچلے طبقے کی گنجان آبادیوں میں سڑکوں اور گلیوں میں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں کھڑی کرنا ایک معمول کی بات ہے، جس سے بعض اوقات پیدل چلنے کی بھی گنجائش نہیں رہتی۔

جو شہر ناپرساں زندگی کی بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہا ہو، وہاں کسی ہنگامی سہولت کی بات کرنا ’مسخرہ پن‘ معلوم ہوتا ہے۔۔۔ ریاست کے سب سے بڑے شہر میں ایمبولینس اور فائر بریگیڈ سے لے کر کسی بھی قسم کے ناگہانی آفت یا حادثے سے نمٹنے کے لیے کوئی بڑی منظم ہنگامی سہولت سرے سے موجود ہی نہیں۔ ایمبولینسوں تک کے لیے یہ شہر ابھی تک رفاہی اداروں پر اکتفا کرتا ہے، فائربریگیڈ کا یہ حال ہے کہ آبادی کے لحاظ سے یہ سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ فائربریگیڈ پہنچتی اتنی تاخیر سے ہے کہ آگ قابو سے باہر ہو جاتی ہے، اس دوران بار بار پانی ختم ہونے سے رکاوٹ آٹی ہے اور آتش زدگی بڑا سانحہ بننے لگتی ہے، بالخصوص بلند عمارتوں میں آتش زدگی دم گھٹنے کے سبب انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بھی بن جاتی ہے۔

٭بیرونی نقل مکانی کے سلسلے
ریاست بھر سے کراچی کی طرف کُوچ کا سبب یہاں روزگار کے وسیع مواقع ہونا ہیں، لیکن یہاں باقاعدہ ایسی آبادکاری کی تاریخ دیکھتے ہیں تو ’آمر اول‘ جنرل ایوب خان کے دور میں کراچی میں ایسی پہلی بڑی نقل مکانی ہوئی اور تربیلا ڈیم کے متاثرین کو وہاں کے بہ جائے کراچی لا کر بسایا گیا، کراچی ابھی مہاجروں کی آباد کاری سے نبرد آزما تھا، اس پر یہ آبادی سراسر بوجھ لادنے کے مترادف تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت وہیں نزدیکی جگہ پر بسانے کا پروگرام بناتی، مگر بوجوہ ایسا نہیں کیا گیا۔ بعد میں یہ امر سیاسی اور لسانی تقسیم کے لیے استعمال کیا گیا۔

1980ء کی دہائی میں افغان جنگ شروع ہوئی، تو لاکھوں افغان باشندے بھی اس شہر میں آئے اور یہیں کے ہو رہے۔۔۔ گویا زمانہ کراچی کی وسیع القلبی کا امتحان لینے کے لیے نت نئے طریقے آزماتا رہا۔۔۔ ملک کے چپے چپے سے روزگار حاصل کرنے والوں کی آمد کا سلسلہ بھی مسلسل جاری تھا، جو مختلف سرکاری اور نجی شعبوں میں روز وشب بسر کر کے میلوں دور اپنے گھر والوں کی روزی روٹی کا سامان کرتے۔

اس شہر کی بندرگاہ کے وسیلے ریاستی معیشت کے پہیے کو تو مہمیز ملتا، لیکن اس شہر کے وسائل مسلسل سکڑتے رہے۔ اکتوبر 2005ء کے تباہ کُن زلزلے کے بعد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے متاثرین کی ایک بہت بڑی تعداد نے کراچی کا رخ کیا، 2008ء کے بعد سوات اور قبائلی علاقوں میں آپریشن کیے گئے، تب بھی متاثرین نے اس شہر کی سمت کُوچ کیا اور یہیں بس گئے۔ 2011ء میں سندھ کے خوف ناک سیلاب کے موقع پر بہت بڑی تعداد کراچی کی مکین ہوگئی۔

٭قلب شہر میں انسانی ’عقوبت خانے‘
آج شہر قائد کی حدود جاننے کے لیے نکلیں، تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی انت ہی نہیں۔ دوسری طرف شہر کے بیچوں بیچ گنجانیت کا یہ عالم ہے کہ تنگ وتاریک گلیوں میں کئی منزلہ عمارتیں کھڑی ہیں۔ اس پر بھی نیچے دکانیں اور اوپر فلیٹ ہیں، بازار ہونے کے سبب لوگوں اور باربردار گاڑیوں کی آمدورفت بڑھ جاتی ہے اور پیدل چلنا تک محال ہوتا ہے۔ راہ گیر ٹھیلوں، پتھاروں، موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کے درمیان بری طرح پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر پانچ، چھے فٹ چوڑی گلیوں میں 50,50 گز پر سات، سات منزلہ عمارتیں ہیں، جو رہائش کم اور عقوبت خانے زیادہ ہیں۔ یہاں کی گلیوں میں دن میں بھی رات کی سی تاریکی ہوتی ہے۔

کیوں کہ ان عمارتوں کی بالائی منزلوں کے درمیان فاصلہ بہ مشکل دو، تین فٹ ہوتا ہے، اور بعض جگہوں پر تو بالائی منزلیں اس قدر ملی ہوئی ہیں کہ گھروں کی کھڑکیاں تک ٹھیک سے نہیں کھل سکتیں۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کے مکین ہوا اور روشنی کے بغیر کس قید کے ماحول میں زندگی کرتے ہوں گے۔ ایسی آبادیوں میں موبائل کے سگنلز بھی نہیںآتے ۔گرمیوں میں بجلی کا تعطل یہاں کے عام مکینوں سے لے کر بچوں، بزرگوں اور مریضوں پر کس قدر کٹھنائیاں لاتا ہوگا۔ ان آبادیوں میں معمول کی زندگی ہی اس قدر بھیانک منظر بناتی ہے، کہ کسی قدرتی آفت یا حادثے کا تصور ہی دل دہلا دیتا ہے۔

شہر کے قلب میں ایسی وحشت ناک تعمیرات سے بے خبر ریاست اب بھی کسی اندیشے سے بہت پرے غفلتوں کی اتھاہ گہرائیوں میں کہیں محسوس ہوتی ہے، الّا یہ کہ توقع کی جائے کہ کبھی ایسی غیرانسانی تعمیرات اور پوری پوری آبادیوں کے قیام کے دوران مجرمانہ کردار ادا کرنے والے افسران کا تعین ہو، یا کم سے کم اس سلسلے کو بڑھنے سے روکنے کے لیے کوئی مسیحا ہی آجائے۔۔۔ مگر یہ امید بھی کم ہے!

٭فلک بوس رہائشی منصوبے
کراچی کے شرق وغرب سے شمال وجنوب تک، چاہے کسی بھی سمت نکل جائیے، دھڑا دھڑ 20, 20 منزلہ کثیر رہائشی منصوبے زیر تعمیر ہیں، جس کا مطلب ہے کہ آیندہ چند برسوں میں ہی شہر کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ کچھ بڑے رہائشی منصوبوں میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ پانی، بجلی، گیس سے لے کر پارکنگ وغیرہ تک کی تمام بنیادی سہولیات میں ’خود کفیل‘ ہیں، لیکن اس بات کا کیا جواب ہے کہ کیا اُن کی آمدورفت کے لیے اس شہر کی سڑکوں میں کوئی گنجائش ہے؟ اُن کی گاڑیاں کا ایندھن کیا اس شہر کی فضا میں نہیں جلے گا؟ ان منصوبوں کے نکاسی آب کہاں ہوگی اور یہاں کا کوڑا کرکٹ کہاں جائے گا؟ اِن نام نہاد خود کفیل رہائشی منصوبوں میں کیا طبی اور تعلیمی سہولیات کے لیے اپنے اسکول اور اسپتال بھی وہیں بنائے ہیں؟ اور پھر فلک بوس رہائشی منصوبوں میں کسی ناگہانی حادثے کی صورت میں حفاظتی اقدامات کس قدر ہیں؟

٭قبضے، تجاوزات اور ’چائنا کٹنگ‘
کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب غیرقانونی آبادیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ رہا ہے، جس سے براہ راست منسلک ہے، زمینوں پر قبضے کا قضیہ، جس کی بازگشت گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ میں بھی بازگشت سنائی دی۔ کے ڈی اے کے اعدادوشمار کے مطابق 80 ہزار ایکڑ زمین غیر قانونی قبضے میں ہے، جس کی مالیت 100 ارب روپے بنتی ہے۔ خالی زمینوں پر باقاعدہ آبادیاں قائم کرنے کے ساتھ ایک عشرے قبل شہر میں ’چائنا کٹنگ‘ کی اصطلاح بھی سامنے آئی، جو شہر میں خالی پڑے ہوئے پارک اور کھیل کے میدانوں کو چھوٹے چھوٹے قطعوں میں فروخت یا قبضہ کرنے کا نام ہے۔

یوں بھی کراچی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تعمیرات ایک نفع بخش کاروبار بنتا جا رہا ہے، اس سے پہلے شہر کی خالی زمینوں پر قبضے اور پوری پوری آبادیاں قائم کرنا بھی روا رہا ہے، جن میں سے بہت سوں کو حکومت کی جانب سے لیز بھی دے دی گئی ہے۔ یہ کچی آبادیاں قبضہ برقرار رکھنے کے لیے مختلف سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کا سہارا لیتی ہیں۔ کراچی کے طول وعرض میں لاتعداد ہاؤسنگ سوسائٹیز کی زمینوں پر ’لینڈ مافیا‘ کے قبضے ہیں، جس کے لیے شہریوں نے زندگی بھر کی پونجی لگائی اور مہینوں اقساط جمع کرائیں، آج اُن پر قبضہ مافیا کا راج ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چائنا کٹنگ مجموعی غیر قانونی قبضوں کا محض 20 فی صد ہے۔

2016ء میں کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے سیکڑوں غیر قانونی دفاتر مسمار کر دیے گئے، اس کے بعد درجنوں شادی ہال بھی گرائے گئے۔ بہت سے کھیل کے میدانوں سے بھی قبضے چھڑائے گئے۔ ان غیرقانونی اراضیوں کی قیمت چند برسوں میں لاکھوں سے کروڑوں تک پہنچ چکی ہیں، پھر بہت سی جگہوں پر موجود مکینوں کے پاس ان کے کاغذات موجود ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر زمین پر قبضہ تھا، تو یہ سارے قانونی کاغذات کیوں کر بنائے گئے؟

کچی آبادیاں:
کراچی میں کچی آبادیوں کے ذکر پر ایشیا کی سب سے بڑی ’کچی آبادی‘ کہلانے والی بستی ’اورنگی ٹاؤن‘ کا نام ذہن میں ابھرتا ہے، جو 1971ء میں سقوط ڈھاکا کے بعد وہاں محصور شہریوں کے آنے کے بعد بسائی گئی۔ اس سے قبل بڑی نقل مکان کے باب میں بٹوارے کے بعد مہاجروں کی آباد کاری سامنے آئی، لیکن انہیں عارضی انتظامات کے بعد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بسایا گیا۔ قائد اعظم کے مدفن کے گرد ایک عرصے تک مہاجر خیمہ زن رہے، جو اُس وقت ’قائد آباد‘ کہلانے لگا تھا، پھر انہیں یہاں سے منتقل کر دیا گیا۔

روزبروز بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث شہر کے مضافات میں تیزی سے کچی آبادیاں قائم ہوتی چلی گئیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اہل حَکم اپنے مفاد کی خاطر ان سے آنکھیں موندے رہے، بلکہ انہیں باقاعدہ غیر قانونی طریقے سے سہولیات اور بہت سوں کو لیز تک دے دی گئی، بعد میں اسے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا۔ شہر کی ایسی تمام کچی غیر قانونی آبادیوں کو مختلف سیاسی ولسانی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

سوسائیٹیز کی زمینوں پر قبضے:
کراچی میں لینڈ مافیا کی جانب سے قبضہ کی گئی زمینوں میں مختلف سوسائیٹیز کی زمینیں بھی شامل ہیں، جن میں اسکیم 33 کی سوسائٹیز کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ 35 سال پرانی بجنور ہاؤسنگ سوسائٹی کے مکینوں کو قبضہ ملنے کی راہ میں طاقت وِر لینڈ مافیا آج بھی رکاوٹ ہے، جب کہ مکین برسوں پہلے اس کی مکمل قیمت بھی چُکا چکے۔ احسن آباد بلاک 3 اور 5 ، کوئٹہ ٹاؤن 4-A (سہراب گوٹھ)، گلستان جوہر بلاک 10-11 کا کچھ رقبہ،پوسٹ آفس سوسائٹی 25-A (سچل) کے علاوہ ملیر میں ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کی زمین پر بھی قبضہ مافیا کا راج ہے۔

کورنگی، مہران ٹاؤن میں لینڈ مافیا سے کچھ زمین واگزار کرائی گئی، لیکن بہت سی زمین پر اب بھی قبضہ ہے! ان غیر قانونی آبادیوں کو پانی، بجلی اور گیس کے قانونی کنکشن تو فراہم نہیں کیے جا سکتے، لیکن مبینہ طور پر عملے کی ملی بھگت سے ساری سہولیات وافر مقدار میں دست یاب ہیں، جب کہ شہر کے قانونی صارفین ان سہولیات کے لیے ترستے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تجاوزات کی بھرمار:
کراچی کی گلیوں اور سڑکوں سے شاہ راہوں تک شاید ہی کوئی علاقہ ہو، جو تجاوزات کے سبب آمدورفت میں رکاوٹ نہ ہو۔ تجاوزات کا سلسلہ فٹ پاتھ سے لے کر سڑکوں اور نالوں تک دراز ہے۔ یہ صرف اپنی حد سے آگے بڑھنے والوں اور جگہ گھیرنے والوں کا ذکر ہے، غیر قانونی قبضے اس کے علاوہ ہیں۔ تجاوزات ٹریفک جام کا ایک بڑا سبب ہے۔ ماضی میں ان تجاوزات کے خلاف بہت آپریشن کیے گئے، لیکن اکثر یہ عارضی ثابت ہوئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں مبینہ طور پر رشوت ستانی کے ذریعے ٹھیلوں اور پتھاروں کو پھیلنے دیا جاتا ہے۔ جب کارروائی ہوتی ہے، تو نقص امن کا خدشہ ہوتا ہے اور پتھارے داروں کی بے روزگاری کا سوال بھی آن کھڑا ہوتا ہے۔

بڑے دکان داروں نے بھی اپنا کچھ نہ کچھ سامان دکان سے باہر نکال کر رکھا ہوتا ہے، کہیں تو دیوار میں لگے ہوئے شٹر میں بیٹھنے تک کی جگہ نہیں ہوتی اور ساری ’دکان‘ فٹ پاتھ اور سڑک پر پھیلی ہوتی ہے۔ گلیوں میں یہ عالم ہے کہ گھر کے آگے بڑے آہنی جال کی شکل میں تنگ گلیاں مزید تنگ کر دی گئی ہیں، اور اس جال کے بعد بھی ایک چبوترا بنا کر مزید گلی گھیر لی گئی ہے، اور کوئی روکنے والا نہیں۔

ایک زمانے میں بمبئی کے لیے کہا جاتا تھا کہ یہاں کی فٹ پاتھیں بھی کرائے پر ملتی ہیں، اب یہ مناظر کراچی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں، کراچی میں نہ صرف مستقل طور پر سڑک کنارے گزربسر کرنے والے افراد دکھائی دینے لگے ہیں، بلکہ اب خانہ بدوش خاندانوں کے پورے پورے جتھے سڑک کے کنارے اور پُلوں کے نیچے بسیرا کیے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی نہیں کینٹ اسٹیشن کے قریب سڑک کے کنارے پر پوری فٹ پاتھ سیکڑوں بستروں سے آراستہ ہو جاتی ہے، اور صبح ہوتے ہی یہ چارپائیاں فٹ پاتھ پر ہی ایک جگہ ڈھیر کر دی جاتی ہیں۔

سماجی ادارے بھی تجاوزات کی دوڑ میں:
انتہا تو یہ ہے کہ اس شہر کے مختلف چھوٹے بڑے رفاہی اداروں نے بھی مصروف ترین سڑکوں کی پوری پوری فٹ پاتھوں اور گزر گاہوں پر قبضے کر کے اپنے عارضی دفاتر قائم کر لیے ہیں۔ ان کی ایمبولینسوں سے لے کر صدقے کے بکروں اور ڈسپنسریوں سے صبح وشام کے دسترخوانوں تک کے لیے تجاوزات کی راہ اپنائی گئی ہے۔ یہ امر بالکل ایسے ہی ہے، جیسے قبضے کی جگہ پر مسجد یا اسکول بنا کر اس قبضے کے خلاف کسی بھی کارروائی کی مدافعت کر دی جاتی ہے۔

٭ٹرانسپورٹ کی اذیت
ملے نہ ملے۔۔۔ جہاں اور جب جی چاہے رکے اور جہاں چاہے روکے نہ رکے۔۔۔ جب چاہے طوفانی رفتار، اور جب چاہے چل کے ہی نہ دے، چلے تورینگ رینگ کر وقت ضایع کرے۔۔۔ جب اترنا ہو تو، بیچ سڑک پر تیز چلتی گاڑیوں کے درمیان زوردار بریک مار کے کودنے کے لیے چیخ پکار مچے تو تڑاخ اور گالم گلوچ ہو۔۔۔‘ جی بالکل یہ ملک کو 70 فی صد ریونیو کما کر دینے والے کراچی کی ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کا ذکر ہے۔ جس کی ٹوٹی پھوٹی اور خستہ حال بسوں میں سفر کی اذیت ناقابل بیان ہے، اور اب ان بسوں کی تعداد بھی گھٹتی جا رہی ہے۔ یہ محدود بسیں بھی شام ڈھلتے ہی بند ہونے لگتی ہیں۔ ان بسوں کے کرائے ڈیزل کے حساب سے لیے جاتے ہیں، جب کہ استعمال ’سی این جی‘ ہوتی ہے اور سی این جی کی بندش کی صورت میں من مانے لیے جاتے ہیں۔ اپنے روٹس کو محدود کر کے دُگنے کرائے لینے کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔

چاہے ان بسوں کی خراب اور تنگ نشستوں سے نُچ کر آپ کے کپڑے پھٹ جائیں، زنگ کے نشان پڑ جائیں، بارش میں ٹوٹی کھڑکیوں سے کیچڑ اندر آئے، ٹپکتی چھتوں سے کپڑے گندے ہوں، لیکن کراچی کے متوسط طبقے کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں!

خستہ حال، ٹوٹی پھوٹی، لرزتی، پرشور مسافر بسیں اس شہر کی تاریخ کا ایک گمبھیر ترین مسئلہ ہے۔۔۔ ماضی میں مسافر بس کا ہی ایک حادثہ یہاں دہکتے ہوئے لاوے کے پھٹنے کا سبب بھی بنا اور پھر سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ ہنگاموں اور احتجاج کے دوران تواتر سے مسافر بسیں نذر آتش کی جاتی رہیں۔ ماضی کی شہری حکومتیں کئی مرتبہ نئی بسیں متعارف کرا چکیں، مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ ان دنوں وفاقی حکومت کی جانب سے سرجانی ٹاؤن تا نمائش چورنگی ’گرین لائن بس منصوبے‘ پر کام جاری ہے، مگر یہ منصوبہ کراچی جیسے بڑے شہر میں نہایت محدود پیمانے پر ہی سہولت کا باعث بن سکے گا۔

چالیس، پچاس برس قبل اس شہر میں ’ٹرام‘ عوامی آمدورفت کا ایک باسہولت ذریعہ تھی، جس کا آغاز 1885ء میں ہوا، ابتداً اسے گھوڑے کھینچتے تھے، جب کہ 1909ء میں ٹرام پیٹرول پر چلنے لگی۔ پھر اس کی جگہ شہریوں کا نصیب یہ اذیت ناک مسافر بسیں ہوگئیں، جب کہ کراچی ہی وہ شہر ہے، جہاں 1858ء میں متحدہ ہندوستان کی پہلی ریلوے لائن کا کام ہوا اور 1861ء میں کراچی تا حیدرآباد ریل گاڑی چلنے لگی۔ ایک زمانے میں اس شہر کو ’سرکلر ریلوے‘ کی سہولت بھی میسر تھی، جو سکڑتے سکڑتے کچھ عرصے پہلے مکمل طور پر بند کر دی گئی، سرکلر ریلوے کی پٹریاں اب بھی موجود ہیں، لیکن اس کی زمینوں پر قبضہ ہے۔

کراچی کے امور پر نظر رکھنے والے دانش وَر جبار قریشی تجویز دیتے ہیں کہ شہر کے بالکل درمیان ایک برساتی ندی سرجانی ٹاؤن اور معمار آباد سے شروع ہوتی ہوئی نئی کراچی، سہراب گوٹھ، گلشن اقبال، عزیز آباد، پیرکالونی، تین ہٹی، لسبیلہ، گل بہار، پاکستان کوارٹر، میوہ شاہ، عثمان آباد سے ہوتی ہوئی آگرہ تاج پر ختم ہوتی ہے اور آگے سمندر سے مل جاتی ہے۔ اس گزرگاہ کے ساتھ درمیان میں نکاسی آب کا انتظام کر کے دُہری پٹری ڈالی جاسکتی ہے اور اسے موجودہ ریلوے سرکلر (آگرہ تاج) سے ملایا جا سکتا ہے۔

٭تفریحی سہولیات
1861ء میں انگریزوں نے گھوڑوں کے چارے کے لیے لی گئی قطع اراضی کو ایک باغ کی شکل دی، جہاں 1890ء میں کچھ جانور لائے گئے اور اسے ’وکٹوریہ گارڈن‘ کا نام دیا گیا۔

1934ء میں موہن داس گاندھی کراچی آئے، تو اسے ’گاندھی گارڈن‘ کہا جانے لگا، جسے آج ’چڑیا گھر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ شہر کی گنجانیت کے لحاظ سے تفریحی سہولیات ناکافی ہیں، یہ امر براہ راست نفسیاتی مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ شہری زندگی کے کٹھن اور اعصاب شکن شب وروز کے بعد ضروری ہوتا ہے کہ کھلا اور سرسبز ماحول ملے۔ 2001ء میں پرویز مشرف کے شہری حکومتوں کے انتظام میں بڑے پیمانے پر پارکس بنائے گئے۔

جس سے شہریوں نے اظہار مسرت کیا۔ شہر کی سبزی منڈی کو سپرہائی وے منتقل کیا گیا تو پرانی سبزی منڈی کی وسیع اراضی کو ’عسکری پارک‘ بنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ ساحل سمندر پر باغ ابن قاسم اور بوٹ بیسن پر بے نظیر بھٹو پارک قائم کیے گئے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں بہت سے پارک ’چائنا کٹنگ‘ اور قبضوں کی نذر بھی ہوئے۔ بہت سے کھیل کے میدان بھی مافیا نگل گئی۔ بہت سے کھیل کے میدان سیکورٹی فورسز کے تصرف میں بھی ہیں۔شہر کے مصائب اتنے ہیں کہ تفریحی سہولیات کی کمی کو مسئلہ ہی نہیں سمجھا جارہا۔

٭ڈکیتی وراہ زنی کی وارداتیں
راہ چلتے کسی بھی لمحے کوئی بھی اسلحے کی زور پر آپ کو نقدی، موبائل اور دیگر قیمتی سامان سے محروم کر سکتا ہے، یہ اس شہر کا ایسا مسئلہ ہے، جو امن بہتر ہونے کے باوجود ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ ’اے ٹی ایم‘ کے کیبن سے نکلتے ہوئے بھی ہر لمحہ لُٹنے کا خوف رہتا ہے، اگر مقفل ’اے ٹی ایم‘ کا دروازہ نہ کھولیں تو وہ باہر سے گولی مار کر چلے جاتے ہیں۔ راہ زن چلتی بسوں میں بھی مسافروں کو لوٹ لیتے ہیں۔ مصروف شاہ راہوں سے پر رونق گلیوں تک آپ اس طرح یرغمال بنائے جا سکتے ہیں کہ آپ کے دو قدم پر موجود فرد بھی بے خبر ہوگا کہ پتا پوچھنے کے بہانے ملزم نے کس طرح آپ کو جیب خالی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

اسی طرح گھروں اور دکانوں میں چوری اور ڈکیتیوں کا سلسلہ بھی تھم کے نہیں دے رہا ہے۔ کیمروں کی موجودگی کے باوجود ملزمان لاکھوں کروڑوں روپے کی واردات کرجاتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں مکینوں نے اپنی حفاظت کے لیے پھاٹک اور مختلف رکاوٹیں نصب کی تھیں، جس سے کافی افاقہ تھا، لیکن کچھ عرصے قبل عدالتی حکم پر شہر بھر سے ایسی تمام رکاوٹیں ہٹا دی گئیں، جب کہ بہت سے ’پہنچے ہوئے‘ رہائشی منصوبوں میں آج بھی یہ ’رکاوٹیں‘ ڈنکے کی چوٹ پر قائم ہیں۔ ’بی بی سی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق شہر قائد کی نصف آبادی کسی نہ کسی موقع پر ایسی کسی واردات کا شکار ہوئی ہے۔ قیمتی موبائلوں سے موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں تک کا چھن جانا اس شہر کے معمولات سے حذف نہیں ہو پا رہا۔

٭ماورائے عدالت قتل اور لاپتا افراد
کسی بھی ملزم کو مجرم قرار دے کر بہ ذریعہ تشدد یا عمداً قتل کر دینا، یا گولی مار کر یہ ظاہر کرنا کہ اس نے مقابلہ کیا تھا۔ یہ امر ماورائے عدالت قتل کے زمرے میں آتا ہے۔ کراچی میں نصیر اللہ بابر کے آپریشن کے دوران ’’مقابلوں‘‘ میں ملزمان کی ہلاکت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ تھم کے نہ دیا۔ اُس زمانے میں کراچی سے لاپتا 30 سیاسی کارکنان کا کوئی سراغ نہ مل سکا، اس حوالے سے 10 مارچ 1998ء میں اُس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت نے سینیٹ میں انکشاف کیا کہ ان کارکنان کو قتل کر کے اسلام آباد کی پہاڑیوں میں دفن کر دیا گیا۔

اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً سیکیوریٹی فورسز کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کے واقعات پیش آتے رہے، جن میں رینجرز کے اہل کاروں نے 2011ء میں بے نظیر پارک میں سرفراز شاہ کو قتل کیا، جس پر ملنے والی سزا معاف کردی گئی ہے۔ اسی طرح مختلف پولیس افسران ایسے ’’مقابلوں‘‘ کے ماہر تصور کیے جانے لگے، جن میں ایس ایس پی راؤ انوار سرفہرست ہیں۔ بدقسمتی سے راؤ انوار کے اس عمل پر نقیب محسود کے قتل کے بعد شدید ردعمل کے بعد پکڑ کی گئی۔ جب کہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے جھوٹے مقابلے کراچی میں تین عشروں سے جاری ہے، لیکن صرف مخاصمت کے سبب اس عمل پر چپ سادھی گئی۔ راؤ انوار کی پکڑ کے بعد امید ہے کہ اس نگر کی چھاتی پر اب مزید ایسے کسی ’مقابلے‘ کا داغ نہیں لگے گا۔

ماورائے عدالت قتل کے ساتھ لاپتا ہونے والے افراد کا مسئلہ بھی ایسی ہی تقسیم کا شکار رہا۔ قومیت، سیاست اور مسلک کے نام پر سب صرف اپنے لوگوں کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔کراچی میں نوجوانوں کے لاپتا ہونے کا سلسلہ جاری ہے، لیکن اس غیر قانونی عمل کے خلاف کوئی مشترکہ آواز نہیں ہے۔

٭اور بھی دُکھ ہیں
جب کراچی جیسے وسیع وعریض شہر کے مصائب ومسائل پر قلم اٹھایا جائے، تو کتنا ہی چاہیں کہ تمام مسائل کو سمو لیں، کہیں نہ کہیں تشنگی کا امکان اور تنگی صفحات کی رکاوٹ آڑے آہی جاتی ہے۔ اس شہر کے بڑے مسائل میں اس شہر کا منقسم انتظام وانصرام بھی ہے، یوں تو شہر کی انتظامیہ اگرچہ ’بلدیہ‘ ہے، لیکن یہ دیگر متوازی اداروں کے زیرنگیں بھی ہے، جن میں چھے مختلف کینٹونمنٹس، ڈی ایچ اے، کے پی ٹی، ریلوے اور دیگر ادارے شامل ہیں، جن کے اپنے اپنے قواعد اور ضوابط ہیں۔ بہت سوں کی اپنی فورسز بھی ہیں، جیسا کہ ڈی ایچ اے کی ویجیلنس وغیرہ۔ ضروری ہے کہ پورا شہر مرکزی طور پرمنتخب خود مختار ’بلدیہ کراچی‘ کے تحت کرنے کے لیے اقدام کیا جائے، تاکہ اجتماعی طور پر شہر کے مسائل حل کرنے کی راہ پیدا کی جا سکے۔ اسی طرح قبضہ مافیا کے ساتھ یہ شہر بھتا مافیا، منشیات مافیا اور اسلحہ مافیا کے ناسوروں کا بھی ڈسا ہوا ہے۔

٭سیاسی خلا
عدالت عظمیٰ نے کراچی بے امنی کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ شہر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے مسلح جتھے موجود ہیں۔ 11 مارچ 2015ء کو شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے کے دوران بھاری اسلحہ اور مطلوب ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔۔۔اور اسی روز کے ای ایس سی کے ایم ڈی کے قتل کے مقدمے میں 1999ء میں سزائے موت پانے والے ایم کیو ایم کے سابق کارکن صولت مرزا کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کر دیے گئے۔

جس پر 19 مارچ کو عمل درآمد ہونا تھا، لیکن 18 مارچ کو صولت مرزا نے ایک ویڈیو میں الطاف حسین پر سنگین الزامات لگائے، جس کے بعد سزا کو موخر کیا، پھر 12مئی 2015ء کو صولت مرزا کو پھانسی دے دی گئی۔ 11 مئی 2015ء کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے چہرہ ڈھانپے متحدہ کے دو کارکنوں کو ’را‘ کا ایجنٹ قرار دے کر متحدہ پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ یوں 2013ء سے جاری ایم کیو ایم کے خلاف کارروائیوں کے سلسلے میں کافی تیزی آگئی۔ متحدہ کی جانب سے لاپتا اور گرفتار کارکنان کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور بھوک ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہا۔ تاہم 23 اپریل 2015 کو قومی اسمبلی کے حلقہ 246 کے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم کے کنورنوید نے 70 ہزار ووٹوں سے فتح حاصل کی۔

جولائی 2015ء میں رینجرز کے خلاف سخت تقریر کرنے پر الطاف حسین کے خلاف ملک کے مختلف تھانوں میں 100 سے زائد مقدمات درج ہوئے، 31 اگست 2015ء کو لاہور ہائی کورٹ نے الطاف حسین کا بیان اور تصویر نشر یا شایع کرنے پر پابندی عائد کر دی، جس کے بعد 7 ستمبر 2015ء کو پیمرا نے بھی ایسا حکم جاری کر دیا، اس کے بعد سے ذرایع اِبلاغ پر ان کے بیانات شایع اور نشر ہونے بند ہوگئے۔

تاہم پارٹی اجتماعات میں اُن کی مواصلاتی تقاریر جاری رہیں، اس دوران دسمبر 2015 ء کو بلدیہ کراچی کے چناؤ میں بھی میدان ایم کیو ایم کے نام رہا۔ مارچ 2016ء مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے دھماکا خیز انداز میں ایم کیو ایم سے انحراف کرکے الگ جماعت کا اعلان کیا، اور بہت سے مرکزی اراکین ان کے ساتھ شامل ہوئے۔ 22 اگست 2016ء کو کراچی پریس کلب میں بھوک ہڑتالی کیمپ کے دوران الطاف حسین کے ریاست مخالف نعروں کے بعد صورت حال اور خراب ہوئی، نائن زیرو سیل کر دیا گیا، شہر بھر میں متحدہ کے سیکڑوں دفاتر مسمار کر دیے گئے، ایم کیو ایم کی مقامی قیادت نے بھی لندن سے علیحدگی کرلی۔

اب حکمراں جماعت پیپلزپارٹی سے لے کر جماعت اسلامی تک نئی پرانی سیاسی جماعتیں فائدہ لینے کے لیے میدان میں ہیں، لیکن بدقسمتی سے اب بھی ان کا ہاتھ کراچی کی نبض پر محسوس نہیں ہوتا۔ کراچی کا سیاسی خلا پُر کرنے کے لیے کسی مصنوعی راہ کے بہ جائے شفاف انتخابات اور تمام سیاسی جماعتوں کو آزادانہ طور پر حصہ لینے کی آزادی دیا جانا ضروری ہے، تاکہ شہری بہتر طریقے سے اپنے نمائندے منتخب کر سکیں۔

٭ ’کے الیکٹرک‘ کی بربریت
کراچی کو بجلی فراہمی کے ذمے دار ادارے ’کے الیکٹرک‘ نج کاری کے بعد کارکردگی کے اعتبار سے بدترین زوال کا شکار ہے۔ یہ شہر ملک کی سب سے منہگی بجلی استعمال کرنے کے باوجود بجلی کو ترستا ہے۔ بد قسمتی سے اگر آپ کو کبھی بجلی منقطع ہونے کی شکایت کرنی پڑ جائے اور آپ کا نمبر بہ آسانی مل بھی جائے، تو گھپ اندھیرے میں آپ سے کہا جائے گا کہ پہلے اپنا بل ڈھونڈ کر نکالیں اور پھر اس میں لکھا ہوا اپنا صارف نمبر بتائیں، تاکہ پتا چلے کہ آپ نے بل بھرا ہے، تو آپ کی چیخ پکار پر کان دھریں ورنہ کوئی شنوائی نہیں۔۔۔ پھر جب شکایت دور کرنے کے لیے عملہ پہنچ جاتا ہے، تو پتا چلے گا کہ گلی بہت تنگ ہے، بجلی کی گاڑی اندر نہیں آسکتی۔

اس کے لیے کھمبے تک پہنچنے کے لیے سیڑھی بھی آپ ہی لا کر دیں۔ یعنی اس قدر ذمے داری بھی نہیں ہے کہ پتا ہو کہ آپ جس علاقے میں کام کرنے جا رہے ہیں، وہاں آپ کے پاس سیڑھی ہونا ضروری ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ’کے الیکٹرک‘ کو باقاعدہ اہل کراچی کو اذیت دینے کا ’اجازت نامہ‘ عطا ہے اور ریاست اس کا بال بیکا نہیں کر سکتی۔ اس ادارے نے دھڑلے سے شہر بھر میں تانبے کے تاروں کے بہ جائے سلور کے تار نصب کر دیے ہیں، جس کے بارے میں یہ بات شدومد سے کی جاتی ہے کہ یہ بجلی کی فراہمی کے حوالے سے مسائل کا باعث ہیں۔ شہر قائد میں گزشتہ چند برسوں میں دوسری بار بجلی کے میٹر تبدیل کیے گئے ہیں، صارفین کو ان نئے میٹروں کی کارکردگی پر شبہات ہیں۔۔۔ انہیں شکایات ہیں کہ اس کے اعدادوشمار درست نہیں، یا پھر یہ میٹر بہت تیز چلتے ہیں۔۔۔

50یونٹ کے بعد بڑھتے ہوئے نرخ:
’کے الیکٹرک‘ نے جس قدر عملہ بجلی ’چوری‘ کی پکڑ کے واسطے رکھا ہے، اگر وہ سارا سارا دن حساس آلات کی مدد سے بجلی کے میٹروں میں ’گھپلے‘ تلاشنے اور تاروں کو ٹٹولنے کے بہ جائے مسائل دور کرنے پر مامور ہو جائے، تو شاید آدھی شکایات تو ویسے ہی دور ہو جائیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مبینہ طور پر بہت سے علاقوں میں بجلی کے باقاعدہ ایک مخصوص رقم ادا کی جاتی ہے، وہ کسی میٹر اور بل کی ’جھنجھٹ‘ سے آزاد ہیں، جب کہ معزز شہری 50 یونٹ کے بعد ہوش رُبا اضافوں کے ساتھ اپنے بل ادا کرتے ہیں، جیسے پچاس یونٹ کے بعد اگر ایک یونٹ بھی بڑھا، تو پورے 51 یونٹ پر دُگنے نرخ لاگو کر دیے جائیں گے، جن کا اطلاق 100 یونٹ تک ہوگا، اور جوں ہی میٹر 101 یونٹ پر آئے گا، تمام کے تمام یونٹ کے بھاؤ پھر بڑھا دیے جائیں گے، اسی طرح 200 سے متجاوز ہونے پر پھر پورے بل پر نئے نرخ لاگو ہوں گے۔

50 یونٹ تک نرخ دو روپے، جب کہ 51 تا 100 یونٹ پر 5.79 روپے، 101 تا 200 یونٹ پر 8.11 روپے، 201 تا 300 یونٹ پر 10.20 روپے، 301 تا 700 یونٹ پر 15.45 روپے، جب کہ 700 یونٹ سے زائد پر 17.33 روپے ہے۔ آج کے دور میں ایسا کون سا گھر ہے، جو 50 یا 100 یونٹ کے حد میں رہ سکے، روزمرہ کے ضروری برقی آلات سے لے کر ایک پنکھے اور بتی میں بھی بل اس قدر محدود نہیں رہ سکتا۔ پھر اگر یہ اوچھا طریقہ اگر کم بجلی کی طرف مائل کرنے کے نام پر ہو، تب بھی یہ طریقہ نہایت شرم ناک ہے کہ ایک یونٹ بڑھنے پر آپ پورے بل کے یونٹ کا نرخ ہی دُگنا کر دیں۔ اگر اس کا مقصد معزز شہریوں کی لوٹ مار نہیں، تو پھر کم سے کم یہ طے ہو کہ پہلے 50 یونٹ کے یہ بھاؤ اور پھر اگلے پچاس یونٹ کے یہ نرخ۔۔۔ تب جا کر بچت کی ’’ترغیب‘‘ کا عذر کچھ ہضم ہو پاتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔

یہ وہی ادارہ ہے، جو کچھ عرصے قبل شہریوں کو صبح کی بجلی اور شام کی بجلی کے نام پر الگ الگ بھاؤ کی کند چُھری سے ذبح کرنے والا تھا، مگر شہریوں کو بے وقوف سمجھنے والے ادارے کے ناخدا خود بہت ناسمجھ تھے کہ یہ بنیادی سوال نہ جان سکے کہ حضور، صبح اور شام کی بجلی کا تعین کون مائی کا لال کرے گا، یہ کوئی فون کال ہے، جو دن کے بھاؤ الگ اور رات کے نرخ جدا، آپ کے میٹر کی چرخیاں تو شام وسحر کی تمیز سے عاری ہو کر گھومتی رہتی ہیں! یوں یہ مضحکہ خیز تجویز کراچی پر مسلط نہ کی جا سکی۔

جب انتباہی بل آتا تھا۔۔۔:
ایک زمانہ تھا کہ جب بجلی کے بل کی مسلسل عدم ادائیگی پر انتباہ کے طور پر سرخ رنگ کا بل دیا جاتا۔ اگر وہ بھی جمع نہ کیا جائے، تب بجلی منقطع کی جاتی تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ انتباہ تو درکنار اب ’کے الیکٹرک‘ ایک روز کی مہلت تک دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔۔۔ اب آپ کا ہاتھ کتنا ہی تنگ ہو، بل ہر صورت میں وقت پر جمع ہونا چاہیے، چاہے اس کے لیے قرض لیں یا فاقے کریں، ’کے الیکٹرک‘ کو کوئی سروکار نہیں۔ اگر آپ نے مقررہ تاریخ تک ایک بل بھی جمع کرنے میں دیر کی، تو بس سمجھیے کہ اگلے روز ہی بجلی کاٹ دی جائے گی، مقررہ تاریخ کے بعد جرمانے کے ساتھ یہ بل جمع کرانے کے بعد بھی یہ تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ اس کے لیے احتیاطی تدابیر کے طور پر صارفین جمع شدہ بل کی فوٹوکاپی میٹر پر چپکا دیتے ہیں۔ یہ امر اس صورت میں ہے، اگر آپ کو درست بل آرہا ہو، ورنہ کراچی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ میٹر ریڈر نہیں آیا اور اب آپ سے دو ماہ کا بل ساتھ وصول کیا جائے۔۔۔ اس طرح جب بہ یک وقت دو ماہ کی بجلی کے کئی گنا زیادہ بھاؤ لگیں گے، تو ’کے الیکٹرک‘ کے کھاتے میں بہت بڑا مال جمع ہوگا!

’’وہ کریں، ہم بھریں۔۔۔‘‘ مگر کیوں۔۔۔؟؟؟ :
’کے الیکٹرک‘ کے خود ساختہ اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس علاقے میں جتنی بجلی چوری ہوگی، اُس علاقے میں اُتنی ہی زیادہ دیر بجلی منقطع ہوگی۔۔۔ اور چوری شدہ بجلی کی لاگت اُس علاقے کے صارفین پر تقسیم ہوگی۔ اس کے لیے صارفین کو بجلی چوروں کو پکڑوانے کے لیے باقاعدہ یہ نعرہ بھی دیا گیا ’’وہ کریں، ہم بھریں!‘‘ گویا معزز صارفین پر یہ حکم مسلط کر دیا گیا کہ وہ نہ صرف بجلی کے بھاری واجبات وقت پر ادا کریں، بلکہ ساتھ اپنے گلی محلے کی چوکسی بھی کرتے پھریں کہ خبردار، کوئی بجلی چوری نہ کرے! بہ صورت دیگر جس قدر بجلی چوری ہوگی، وہ بل دینے والوں کی جیب سے نکالی جائے گی۔۔۔ شہر میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ مہم چلی اور کسی نے چوں تک نہ کی کہ ’عالم پناہ! ایک شریف شہری کے سر پر کاہے، یہ فوج داری ذمے لگائے جا رہے ہیں؟‘ اگر کوئی بجلی چوری کرتا ہے، تو اس کا خمیازہ ایک ایمان دار صارف کیوں بھگتے۔۔۔؟ یہ تو بدترین ظلم ہے کہ آپ چوری کرنے والوں کی چوری کا خرچہ ایمان داروں سے وصول کریں۔ پھر چوری پکڑنا، براہ راست قانون کی عمل داری قائم کرنے کا شعبہ ہے، اسے کون سے قانون کے تحت معزز شہریوں کے سر تھوپا جا رہا ہے!

کچھ ذکر اس شہر کی محرومی کا!
کراچی کی نسلی اور لسانی کش مکش کو اس شہر کے مسائل میں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے، جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہندوستان سے آنے والوں کی بڑی تعداد ایک مختلف ثقافت کی حامل تھی۔ پاکستان کے لیے ان کے دیے گئے 56 فی صد ووٹ تو بنیاد تھے، لیکن ان کے آبائی علاقے سرحد کی دوسری طرف رہ گئے تھے۔ دلی، یوپی، سی پی اور بہار وغیرہ کے مہاجروں کی بہت بڑی تعداد نے کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کا رخ کیا، جس کے سبب اُن کا رہن سہن ملک کے دیگر باسیوں سے مختلف رہا، انہوں نے خود کو کسی ذیلی ثقافت کے بہ جائے براہ راست ’پاکستانی‘ قرار دیا، لیکن دیگر لسانی اکائیوں کے باب میں یہ شناخت کچھ کھب نہ سکی، یوں پھر انہوں نے اپنی جداگانہ لسانی شناخت ’مہاجر‘ پر زور دیا۔ اگرچہ اب ہجرت کرنے والوں کی دوسری اور تیسری نسل ہمارے سامنے ہے، لیکن وہ اپنی شناخت کے لیے ’مہاجر‘ قومیت پر اصرار کرتے ہیں۔

بٹوارے کے بعد سے یہ اس شہر کا ایک جذباتی مسئلہ ہے، بالخصوص گزشتہ تین دہائیوں سے اس شہر کے منظرنامے میں مہاجر قومیت کا عنصر بہت واضح طور پر موجود ہے، اور اب بھی یہ اس شہر کی ایک لسانی اور نسلی کش مکش کی صورت میں موجود ہے۔ اردو گُو طبقہ کہتا ہے کہ آج بھی ان کے وجود کو دیگر لسانی اکائیوں کی طرح تسلیم نہیں کیا گیا، ملک کی دیگر ثقافتی اکائیوں کے اپنے اپنے علاقے موجود ہیں۔

لیکن شہری سندھ یا کراچی پر پہلا حق مہاجروں کا تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ملک کے دوسرے علاقوں کے باشندے روزگار کے لیے اس شہر کا رخ کرتے ہیں، تو جہاں ایک طرف اس شہر کے لسانی منظر نامے پر اثرانداز ہوتے ہیں، وہیں وسیع پیمانے پر اس شہر کے وسائل سے بھی مستفید ہوتے ہیں، جب کہ یہاں سے حاصل کی گئی آمدن وہ اپنے علاقوں میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ سبب ہے کہ مہاجروں میں ایک طرح کی لسانی وثقافی، سیاسی اور معاشی عدم تحفظ کا احساس پوری طرح برقرار ہے، کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ اس طرح انہیں اپنے ’گھر‘ میں بے گانہ بنایا جا رہا ہے۔ یوں بھی اگر کسی گھر کے محدود وسائل میں دوسرے افراد حصے دار ہوں اور اہل خانہ محروم ہوں، تو ساری محرومی اور شکایت کو بہت گہری بنیاد فراہم کرتی ہے۔

یوں تو 1951ء کی مردم شماری میں پہلی بار لفظ ’مہاجر‘ برتا گیا، 1960ء میں کراچی سے وفاقی دارالحکومت ختم کردیا گیا، اس امر نے شہر قائد کا احساس محرومی بہت زیادہ بڑھایا، بھٹو حکومت میں ادارے قومیائے جانے سے اس شہر کی کاروباری حلقوں کو شدید زک پہنچی۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد جب کراچی صوبۂ سندھ کا حصہ بنا، تو کوٹا سسٹم نافذ کیا گیا، جس سے شہری حلقوں میں شدید برہمی پیدا ہوئی۔ 1969ء میں پہلی بار اس شہر میں لسانی سیاست کا آغاز ہوا اور ’مہاجر پنجابی پختون محاذ‘ وجود میں آیا۔

لیک

یہ شہر ہمیشہ سیاسی حساب سے اپنے مخصوص مزاج کا حامل رہا، اس نے جسے مسیحا جانا، اُس کا ہو رہا۔ 1965ء میں آمر اول جنرل ایوب خان کے صدارتی چناؤ میں بنگال کے بعد کراچی ہی تھا، جس نے محترمہ فاطمہ جناح کو سرخرو کیا۔ 1977ء کی پی پی حکومت مخالف تحریک کے دوران اس پارٹی نے کراچی میں چُن کر مہاجر دانش وَروں کو میدان میں اتارا، مگر یہ شہر جمیل الدین عالی کو خاطر میں لایا اور نہ ہی اس نے حکیم محمد سعید کو سیاسی حیثیت میں مانا، جب کہ ’نو ستاروں‘ کے امیدوار شیر باز مزاری اور اصغر خان جیسے غیر مہاجروں کو دل دیا۔ اُن دنوں عوامی ردعمل اتنا شدید تھا کہ سرکاری جماعت کے ٹکٹ پر لیاقت علی خان کے بیٹے اشرف علی خان اپنے حلقے لالوکھیت میں انتخابی مہم تک نہ چلا سکے۔

کراچی کے مسائل کے تانے بانے صرف گزشتہ تین عشروں میں نہیں، بلکہ اس سے پیش تر کے بھی ہیں، ان ہی میں سے ایک قصہ میئر کراچی عبدالستار افغانی کا بھی ہے، جب حکومت سندھ نے بلدیہ سے وہیکل ٹیکس لینے کا اعلان کیا تو 3 فروری 1987ء کو بلدیہ کراچی نے اسے مسترد کر دیا اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، جس کے بعد میئر کراچی عبدالستار افغانی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

بعض حلقے مہاجروں کو سندھی بننے کی تلقین بھی کرتے ہیں، مگر یہاں دیگر قومیتیں اپنی جدا جدا ثقافتی رنگوں کے ساتھ رہ رہی ہیں، بالخصوص قدیم عرصے سے مقیم بلوچ آج بھی بلوچ ہیں، تو پھر یہ مطالبہ کسی مخصوص طبقے سے کیوں؟ پھر ماہرین عمرانیات یہ کہتے ہیں کہ انسان اپنا دھرم تو فوراً بدل سکتا ہے، لیکن اپنی ثقافت بدلنے پر قدرت نہیں رکھتا، یہ امر بتدریج ہوتا ہے، اور ہوا بھی ہے۔ اس لیے کسی رنگ میں رنگنے پر زور دینا بھی غیر منطقی اور غیر فطری ہے۔ بعض اوقات مہاجر کے لغوی معنی کے سوالات کیے جاتے ہیں، مگر انتخابی فیصلے ایسے سارے سوالات کے جواب ہیں، خود 2015ء کے ضمنی انتخاب میں عمران خان نے خود کو ’آدھا مہاجر‘ کہہ کر لوگوں کی ہم دردیاں حاصل کرنے کی کوشش کیں۔

کبھی منتخب وزیراعظم یہاں کے مختصر دورے پر آ کر لوگوں سے یہ شکایت کرتے ہیں کہ یہاں تو ’مکھی کے مرنے پر بھی احتجاج ہوتا ہے!‘ کبھی سیکوریٹی فورسز اس نگر کے شہریوں کو حکم جاری کرتی ہیں کہ وہ اپنا شناختی کارڈ جیب میں رکھ کر باہر نکلیں۔ کبھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کراچی والے ’پاکستانی‘ بننے پر تیار ہیں؟ گذشتہ دنوں وزارت اطلاعات نے سماجی ذرایع اِبلاغ پر ملک کی مختلف 14 ثقافتوں کو دکھایا، لیکن اس میں کراچی کا کوئی رنگ نہ تھا۔

اس شہر میں خیبرپختونخوا کو نام ملنے پر بڑا جشن ہوتا ہے، سندھ اور بلوچ ثقافتوں کے دن رچائے جاتے ہیں، یہاں تک کہ کشمیر اور شمالی علاقوں تک کی ثقافتی پروگرام ہوتے ہیں، لیکن 2016ء میں جامعہ کراچی میں ’یوم مہاجر ثقافت‘ کی اجازت نہیں دی جاتی۔ شہر کے نوجوان آج بھی سرکاری نوکری نہ ملنے کی شکایت کر رہے ہیں، کہ دیگر شہروں کے باسی کراچی کے ڈومیسائل اور ’پی آر سی‘ بنوا کر شہری کوٹے کی ملازمتیں لے رہے ہیں۔ اس شہر کی اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے اشتہارات میں باقاعدہ دیگر صوبوں اور شہروں کو حصہ دیا جاتا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ صوبے کے گورنر تک کا تعلق بیرون سندھ سے ہے، جب کہ 1970 ء کے عشرے سے وزیراعلیٰ یا گورنر کے اردو بولنے والا ہونا طے کیا گیا تھا۔ گزشتہ 70 برسوں میں اردو بولنے والا وزیر اعلیٰ تو نہ آسکا، الٹا گورنری کا منصب بھی نہ رہا۔ ماضی کی طرح ایک بار پھر جامعہ کراچی اور این ای ڈی یونیورسٹی میں بھی اسی شہر کے طالب علموں کو داخلوں سے محروم کرنے کی شکایات سامنے آنے لگی ہیں۔

غیر مقامی فورسز:
دنیا بھر میں مقامی پولیس کا قانون رائج ہے، لیکن کراچی کے معاملے میں افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے، جہاں غیر مقامی پولیس تعینات ہے، اس امر سے لوگوں میں محکومی اور غلامی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں سپاہیوں سے لے کر اعلیٰ افسران کی کم سے کم 80 سے 90 فی صد کا تعلق اس شہر سے نہیں۔ پھر پولیس کی جانب سے شہریوں سے ہتک آمیز رویے، چھوٹے پھل، سبزی والوں اور دکان داروں سے رعب جما کر اُن سے بلا قیمت چیزیں اٹھانا اور اصل قیمت سے کم پیسے لینے پر مجبور کرنا بالکل معمول کی بات ہے۔ اگر وردی اور بندوق کو دیکھ کر بھی دکان دار اصرار یا منت سماجت کرے، تو معنی خیز انداز میں بتایا جاتا ہے کہ ہم تمہارے علاقے کے تھانے میں ہوتے ہیں، کبھی دھمکی آمیز انداز اختیار کیا جاتا ہے، اور اس شہر کی تاریخ سے واقف شریف دکان دار ہونٹ سی لینے میں عافیت جانتا ہے۔

یہ وہ رویہ ہے، جس سے عام شہری باوردی اہل کاروں کو دیکھ کر تحفظ کے بہ جائے شدید خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ کہیں بھی راہ چلتے اور دوران سفر کوئی بھی وردی والا آپ کو روک کر کسی ملزم کی طرح ہتک آمیز انداز میں تلاشی لیتا ہے اور پوچھ گچھ کرتا ہے۔ سرعام مرغا بنادیا جاتا ہے، پستول تانی جاتی ہے، جس سے لوگوں میں ردعمل جنم لیتا ہے۔ فورسز کے علاوہ کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر نجی محافظوں کی خدمات بھی لی گئی ہیں، ان محافظوں کی اکثریت کا تعلق بھی اس شہر سے نہیں، یہ جہاں بہت سی وارداتوں کے دوران دفاع بھی کرتے ہیں، تو وہیں بہت سی ڈکیتیوں میں یہ نجی محافظ بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ دفاتر اور اداروں کے تحفظ پر مامور بہت سے محافظ ریٹائر اور معمر ہوتے ہیں۔

کراچی سب کا ہے مگر۔۔۔:
کراچی واسیوں کا دیرینہ شکوہ ہے کہ یہ تو کہا جاتا ہے کہ کراچی سب کا ہے، مگر کراچی کا کوئی نہیں ہے! بدقسمتی سے کراچی کے مسئلے پر ایسے ’’دانش وَر‘‘ بھی طویل طویل بھاشن دیتے دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے تصاویر میں بھی ٹھیک سے کراچی نہیں دیکھا ہوتا۔ یہی حالت سیاسی سطح پر بھی ہے۔ مختلف مذہبی وسیاسی جماعتیں اسے اپنی اپنی تحریکوں کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں، حکومتیں بنانے اور گرانے کے لیے سیاسی جماعتوں کی نگاہ اسی شہر پر مرکوز ہوتی رہی ہیں۔ پھر شاید یہ ’ضرورت‘ نہ رہی۔

اسی طرح مالی امداد کا سوال ہو یا 2005ء جیسے زلزلے کا سامنا ہو، اس شہر نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے مختلف رفاہی ادارے اپنی چندہ مہم میں خصوصی طور پر کراچی کا رخ کرتے ہیں، لیکن جب اس شہر کو کچھ لوٹانے کی باری آتی ہے، تو کافی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ عمران خان نے ملک کا پہلا کینسر اسپتال 1994ء میں لاہور میں بنایا، 2015ء میں دوسرا اسپتال پشاور میں بنا، اس کے بعد بالآخر شہر قائد کی باری آئی ہے۔ 2012ء میں بجلی کے بحران پر احتجاج کرتے ہوئے شہباز شریف ’پنجاب کی بجلی‘ کراچی کو دیے جانے کا دوش دیتے نظر آتے ہیں۔ تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف دو عشروں پہلے تک الطاف حسین سے تو خوب یاری نبھاتے رہے، لیکن اس کے بعد فاصلے کیا پیدا ہوئے کہ کراچی مختصر دوروں تک محدود ہوگیا۔ فروری 2016ء میں وفاقی حکومت کی جانب سے ایک گرین لائن بس کا منصوبہ جھولی میں اچھال دیا، جو تین برس سے زیر تعمیر ہے۔ اُن کی صوبائی حکومت میٹرو سے لے کر اورنج ٹرین تک کے منصوبے بنا رہی ہے، جب کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے مسلسل اقتدار کا ایک عشرہ مکمل ہو رہا ہے اور ساری صورت حال واضح ہے۔ کراچی کی شہری حکومت متحدہ قومی موومنٹ کی ہے، لیکن گزشتہ پانچ برسوں سے وہ اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے۔

12مئی سے پہلے کراچی میں ’لسانیت کی سازش‘
پرانے اخبارات کی ورق گردانی کرتے ہوئے 2006ء کے ’ایکسپریس‘ کے صفحۂ اول پر نگاہ جم گئی، یہ خبر شہر کی ایک بڑی سیاسی شخصیت کی جانب سے لسانی فسادات کے خدشات کے اظہار پر تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عدالت نے شہر کی کچی آبادیوں، پرانی بسوں اور ٹو اسٹروک رکشوں پر پابندی کا فیصلہ دیا تھا اور ایک لسانی ’ایکشن کمیٹی‘ زور وشور سے احتجاج کر رہی تھی۔ اُس روز کے اخبار میں اس خبر سے شاید سرسری گزر جاتے، کہ کراچی بہ ظاہر لسانی فسادات جیسے خدشات سے بہت پرے محسوس ہوتا تھا، لسانی جماعتیں اگرچہ موجود تھیں، لیکن اس بنیاد پر کسی خوں ریزی کا شائبہ تک نہ تھا، پھر ذرا غور کیجیے کہ کراچی کو پھر سے لسانی نفرتوں میں دھکیلنے کا باعث تو 12 مئی 2007ء کا تصادم بنا تھا،بلکہ بنایا گیا ، کیوں کہ یہ ایک سیاسی تصادم تھا اسے باقاعدہ لسانیت فروغ دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اور یہ صورت حال 2006ء کے آخر کی ہے، ابھی تو اُس وقت کے چیف جسٹس (ر) افتخار چوہدری کا بحران بھی پیدا نہ ہوا تھا۔ پھر آخر کون تھا، جس نے عروس البلاد کو پھر سے تاراج کرنے کی حکمت عملی ترتیب دے دی تھی۔

اُس زمانے میں کراچی میں کچھ فرقہ وارانہ مسائل تھے، سانحہ نشتر پارک، سیاسی اور مذہبی قتل کی وارداتیں تھیں، 12 مئی 2004ء کو ضمنی انتخاب کے موقع پر تصادم میں12 جانیں تلف ہونے کا افسوس ناک واقعہ بھی ہوا۔ بہت مثالی امن اگرچہ نہ تھا، لیکن اُس سے پہلے اور اُس کے بعد کے حالات دیکھیں، تو کراچی کے وہ چند برس بے حد شانت محسوس ہوتے ہیں، کہ بااختیار شہری حکومتوں کا نظام بھی شہر کے گیسو سنوار رہا تھا، مگر کسے خبر تھی کہ آنے والے دنوں کا امن کتنا خراب ہونے والا ہے۔

بابِ لہو رنگ بھی مختصر نہیں۔۔۔
شہر قائد اوائل سے ہی سیاسی طور پر نہایت متحرک رہا ہے۔ 8 جنوری 1953ء کو اس نگر میں پہلی بار ریاستی تشدد کا سہارا لیا گیا اور منظم طلبہ کی تحریک اس کا نشانہ بنی۔ 1958ء میں ناظم آباد میں آبادی پر حملہ ہوا، جس میں 15 افراد جاں بحق اور 300 زخمی ہوئے، جس کے بعد کرفیو لگا دیا گیا۔ 1965ء میں ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے اپنے والد کی صدارتی انتخابات میں ’’فتح‘‘ کی خوشی میں جلوس نکالا، اس موقع پر مہاجر بستیوں پر حملوں کے نتیجے میں متعدد افراد شہید ہو گئے۔ اس واقعے کا شہر بھر میں شدید ردعمل ہوا اور کئی دن خوف وہراس رہا، افواہوں نے بھی دہشت کا بازار گرم رکھا۔۔۔ اس سانحے کو شاعر عوام حبیب جالب نے کچھ اس طرح یاد کیا؎

نشیمنوں کو جلاکر کیا چراغاں خوب
سنوارتے ہیں یونہی چہرہ گلستان خوب
8 جولائی 1972ء کو لسانی بل منظور ہونے کے بعد ایک بار پھر فضا تلخ ہوگئی اور کئی جانیں لقمہ اَجل ہوئیں۔ ضیا الحق کی آمریت میں شہر کی فضا مکدر ہوتی جا رہی تھی، کون جانتا تھا کہ اب اس شہر کی فضا میں تشدد کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہونے والا تھا۔ طلبہ یونین پر پابندی نے تشدد کو مزید بڑھا دیا، مگر اس سے پہلے اسلحہ کی بازگشت سنی جانے لگی، 1976-77ء میں جب پستول نکالی گئی، تو جامعہ کراچی ایک دن کے لیے بند ہوگئی! پھر باقاعدہ تشدد معمول بنتا چلا گیا اور 1981ء میں مختلف طلبہ تنظیموں کے تصادم میں طلبہ کی جانیں تلف ہونے کا سلسلہ بھی بڑھتا چلا گیا۔3 فروری 1981 ء کو طلبہ یونین کا انتخاب جیتنے کے بعد ایک مذہبی طلبہ تنظیم نے تصادم کے بعد الطاف حسین کو جامعہ کراچی سے باہر پھینکوا دیا گیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ’تشدد‘ نے اپنی وحشیانہ آمد کا بگل بجا کر بتایا کہ اب وہی ہوگا اس شہر کا ’سکہ رائج الوقت۔۔۔!‘ اور پھر ہیروئن اور اسلحے کی نحوست نے پہلے فرقہ وارانہ آگ کو آنچ دی، پھر اس نے خوف ناک لسانی تعصب کی شکل اختیار کر لی۔۔۔ گویا اب شہر کی روشنیاں بجھنے لگی تھیں۔۔۔ 1986ء میں ایک مسافر بس سے طالبہ بشریٰ زیدی کی ہلاکت بدترین لسانی فسادات کی شکل اختیار کر گئی۔۔۔ اور 1986ء ایک خونیں برس ثابت ہوا۔ اسی برس 14 دسمبر کو قصبہ علی گڑھ میں وحشی درندوں نے قتل وغارت کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور آبادی پر حملہ کر کے 382 افراد کو موت کی نیند سلا دیا، جب کہ 1840 افراد زخمی ہوئے۔ اس کے بعد شہر قائد میں خوں آشامی کے کئی ادوار گزرے۔۔۔ باقاعدہ شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو قتل کرنے کی وہشت ناک روایت بھی اسی شہرناپرساں میں ڈلی۔۔۔ 14 جولائی 1987ء کو بوہری بازار کراچی میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں 78 جانیں تلف ہوئیں۔ 30 ستمبر 1988ء کو حیدرآباد میں مسلح دہشت گردوں کے حملوں میں 180 افراد جان سے گئے، اگلے دن کراچی میں 78 افراد لقمہ اَجل ہوئے۔

2 اپریل 1989ء کو پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور ’آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘ نے ایک دوسرے کے درجن بھر طلبا اغوا کرلیے، جو اگلے روز سمجھوتے کے بعد چھوڑے گئے۔ 11 فروری 1990ء کو دونوں تنظیموں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کے کارکن اغوا کیے، جنہیں باقاعدہ فوجی حکام کی موجودگی میں رہا کیا گیا! 1989ء میں جامعہ کراچی میں انہی تنظیموں کے درمیان خونیں تصادم کے بعد امن قائم کرنے کے لیے بارڈر سیکورٹی فورس ’رینجرز‘ کو کراچی طلب کیا گیا، جس کے بعد سے رینجرز کراچی میں موجود ہے۔ 26 مئی 1990ء کو پکا قلعہ حیدرآباد میں آپریشن کیا گیا اور سر پر قرآن اٹھائے خواتین کو بھی امان نہ ملی۔

50 افراد جاں بحق اور 200 زخمی ہوئے، اس کے بعد کراچی میں 66 افراد قتل ہوئے۔ اس کے بعد خوں ریزی، کرفیو، جلاؤ گھیراؤ، پرتشدد ہڑتالوں کی ایک طویل تاریخ رہی، جس میں ایک نئی لسانی تنظیم ’پنجابی پختون اتحاد‘ (پی پی آئی) کا بھی بڑا زور رہا۔ کراچی کی لسانی لڑائی کے فوراً بعد ایم کیو ایم اور ’حقیقی‘ کی وحشت ناک تقسیم کراچی کے ہزاروں نوجوانوں کو نگل گئی۔ 19جون 1992ء کو شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد ’’حقیقی‘‘ کا ظہور ہوا، جس کا ایم کیوایم سے طویل خونیں تصادم رہا۔19 جولائی 1992ء بریگیڈیئر آصف ہارون نے انکشاف کیا کہ کارروائی کے دوران ایم کیو ایم کے پاس سے ’جناح پور‘ کے نقشے برآمد ہوئے ہیں۔

جس کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی جاری رہی۔ (اگرچہ 2009ء میں آئی بی کے سابق سربراہ بریگیڈیر امتیاز نے کہا کہ حکومت نے یہ نقشے خود تیار کیے تھے) 1992ء کے بعد شہر میں باقاعدہ نوگوایریاز قائم ہوئے، مختلف علاقوں میں شام ڈھلتے ہی مسلح تصادم معمول ہو گیا۔ بعض علاقوں میں ایم کیو ایم اور ’حقیقی‘ کی تقسیم ایسی تھی کہ ایک گھر سے ایک بھائی اِدھر اور دوسرا بھائی اُدھر چلا گیا۔۔۔ اسی دوران 19 جنوری 1996ء کو کورنگی میں یہ الم ناک لمحہ بھی آیا، جب سیاسی کارکن محمد منیر کی نماز جنازہ تک کے لیے کوئی مرد نہ آسکا اور صرف خواتین نے نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین کی!

6نومبر 2000ء کو ’نوائے وقت‘ کے دفتر پر ایک خاتون نے خود کُش حملہ کیا، یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستانی خودکُش حملے میں ملوث ہوا۔ 18 مئی 2001ء میں سنی تحریک کے راہ نما سلیم قادری کے قتل کے خلاف کراچی میں پہلی بار ’احتجاجی کرفیو‘ کی کال دی گئی، جس میں کہا گیا کہ شہری اپنی ذمے داری پر گھر سے نکلیں۔ جس پر بی بی سی نے کہا پہلی بار سرکاری فورس کے بغیر اتنا بھرپور کرفیو دیکھا گیا۔ 2006ء میں نشترپارک میں 12ربیع الاول کے جلسے میں دھماکے کے بعد ہونے والے ہنگاموں کے بعد ہر بے امنی پر شہر کے پیٹرول پمپ بھی بند ہونے لگے۔

27 دسمبر 2007ء میں بے نظیر کے قتل کے بعد جہاں دیگر علاقوں میں شدید ردعمل ہوا، وہیں کراچی بھی اچانک خوف ناک دہشت اور تشدد کی لپیٹ میں آیا۔ اس کے بعد سے ہر دہشت گردی یا ناخوش گوار واقعے کے بعد اچانک افراتفری اور بھگدڑ مچنے کا نیا پرتشدد رنگ شروع ہوگیا۔ 2011-12ء میں اس تشدد میں متحدہ ، اے این پی کے بعد پی پی کی بغل بچہ پیپلز امن کمیٹی بھی شامل ہوگئی اور دوبارہ 1980ء کے عشرے جیسی لسانی آگ لگنے لگی اور دوتین برسوں میں ہزاروں جانیں تلف ہوئیں۔ 2013ء کے بعد کارروائیوں کے نتیجے میں امن کی یہ بدترین صورت حال بہتر ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔