رشتہ کیسے تلاش کریں

رسوم و رواج کی زنجیروں نے لڑکیوں کو تنہائی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے


روبینہ شاہین March 09, 2018
لڑکیوں کی شادیوں میں تاخیر کی بڑی وجہ ذات پات کا نظام اور دیگر سماجی ناہمواریوں کے ساتھ لڑکیوں کا لڑکوں کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ ہونا بھی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اللہ کے بنائے ہوئے رشتوں میں سب سے خوبصورت تعلق اور بندھن میاں بیوی کا ہے۔ حضرت آدم ؑ کی تخلیق کے ساتھ ہی ان کی بیگم حضرت حوا کی تخیلق یہ بتاتی ہے کہ میاں بیوی کا بندھن کتنا ضروری اور اہم ہے۔ ہر نسل ہر دور، ہر مذہب اور معاشرے نے اس کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا ہے۔ بیسویں صدی جہاں بہت آسانیاں لے کرآئی ہے وہاں کچھ ایسی ناگزیر ضرورتوں میں رکاوٹ بھی بنی ہے جن پر بنی نوع انسان کی بقا کا دارومدار ہے۔ ان ضرورتوں میں سے ایک ضرورت نکاح ہے جس پہ نسل انسانی کی بقا کا دارومدار ہے۔ جبکہ موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ نکاح مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور برائی کی طرف جانے والے راستے اتنے ہی آسان۔

یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کڑور سے زائد (20 سے 35 سال کی لڑکیاں) شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ جبکہ ان میں سے دس لاکھ سے زائد (30سے35سال کی لڑکیوں) کی شادی کی عمر گزر چکی ہے۔ ان 10لاکھ لڑکیوں میں 78 فیصد تعلیم یافتہ ہیں۔ اس وقت ہر گھر میں اوسطاً دو یا دو سے زائد لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں۔ یونیسیف نے بتایا ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کی شادیوں میں تاخیر کی بڑی وجہ ذات پات کا نظام اور دیگر معاشی اور سماجی ناہمواریاں تو ہیں ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کا لڑکوں کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ ہونا بھی ہے۔

رشتہ ڈھونڈنے کے طریقے

زمانہ گو ترقی کے منازل طے کر رہا ہے مگر اس ترقی سے خاندان کا ادارہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ نکاح اس خاندان کی اکائی کی طرف اٹھایا جانے والا ایک اہم قدم ہے۔ فی زمانہ کچھ حقائق ہیں جن کو نظرانداز کرکے ہمارہ معاشرہ تباہی کی طرف گامزن ہوا ہے۔ ذیل میں ان حقائق کی نشاندہی کی جائے گی۔ تاکہ اس مسئلے پہ قابو پایا جا سکے۔

رشتہ مل جانے پر پختہ یقین

رشتہ تلاش کرنا مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر آپ تھوڑا اپنے اندر یقین اور ایمان کو پختہ کر لیں تو یہ کام آسان ہو سکتا ہے۔ سورہ یٰسین میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ''وہ خدا پاک ہے جس نے زمین کی نباتات کے اور خود ان کے اور جن چیزوں کی ان کو خبر نہیں، سب کے جوڑے بنائے۔''

درج بالا آیت ثابت کر رہی ہے کہ ہر انسان کا جوڑا اللہ نے بنا رکھا ہے۔ بس آپ کا کام صرف اس کی کھوج لگانا ہے۔ اس کو تلاش کرنا ہے۔

آٹوسجیشن طریقہ علاج سے مدد

راقمہ کی ان لڑکیوں سے خصوصی درخواست ہے جن کی عمریں تجاوز کر چکی ہیں مگر شادی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے وہ مایوسی کی کیفات کا شکار ہیں۔ وہ تمام لڑکیاں آٹو سجیشن طریقے کی مدد سے خود کو اس کیفیت سے نکالیں۔ آٹوسجیشن طریقہ علاج اس وقت یورپ اور پوری دنیا میں بیماریوں کے علاج میں کامیاب اور مستند ترین درجہ اختیار کر چکا ہے۔ اس طریقہ علاج میں مرض کی تشخیص کے بعد مریض کو چند جملے بتادیئے جاتے ہیں کہ وہ بار بار ان جملوں کو دہرائے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ جب انسان اندر سے کمزور ہوتا ہے تو اس پر مختلف بیماریوں کا حملہ آور ہونا آسان ہوجاتا ہے۔ یقین ایک اندرونی کیفیت اورعقید ہ ہے، جس پر ہمارے دیگر اعمال کا دارومدار ہوتا ہے۔ جب یقین پختہ ہوتا ہے تو امید پیدا ہوتی ہے۔ اور حالات سے لڑنا آسان ہو جاتا ہے۔ جو لڑکیاں ناامید اور مایوسی کا شکار ہیں وہ درج بالا آیت کو بار بار دہرائیں۔ ہوسکے تو اپنے کمرے میں لکھ کر بھی کسی دیوار کے ساتھ چپکا لیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تصور کریں کہ آپ کو اچھا رشتہ مل چکا ہے، آپ بہترین شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں۔ ایسا بار بار تصور کرنے سے آپ کے دل میں یقین پیدا ہوگا کہ یہ کام یقیناً ہونے والا ہے اور یہ یقین آپ کو ہر طرح کے مسائل حل کرنے میں مدد دے گا۔

جب آپ کے دل میں یقین کی دولت ہوگی تو آپ کے چہرے پر خوبصورتی اور حسن و جمال ہوگا۔ اس لئے کم از کم روزانہ سونے سے پہلے اس تصور کی مشق کریں۔

سوشل بنیں

موجودہ دور میں کامیاب لوگوں پر ریسرچ کی گئی اور دیکھا گیا کہ ان میں ایسی کیا عادات اور رویّے ہیں جن کی وجہ سے یہ لوگ کامیاب ہوئے، تو پتا چلا کہ ایک بہت بڑی وجہ ان لوگوں کا سوشل ہونا بھی تھا۔ اصل میں جب انسان لوگوں سے ملتا جلتا ہے تو اس کےلیے کامیابی کے مواقع آتے اور راستے کھلتے ہیں۔ گھر میں پڑے رہنا، اپنی الگ دنیا بسا لینا، یہ مسائل کا حل نہیں۔ ایسی لڑکیوں کو چاہئے کہ اپنا فرینڈز سرکل بڑھائیں، قرآن سیکھیں، دین کا علم حاصل کریں۔ اس سے ایک تو آخرت کا سفر آسان ہو گا دوسرا لوگوں سے میل جول سے آپ کا رشتہ آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

دعا کو ہتھیار بنائیں

تقدیر سے بھی سبقت لے جانے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ ''دعا'' ہے۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ مشکلات میں اگر کوئی چیز زاد راہ ہے تو وہ دعا ہے۔ اس لیے دعا کو معمول بنائیں۔ جن اوقات میں دعا قبول ہوتی ہے ان میں ضرور دعا کریں، پورے یقین کے ساتھ مانگیں اور دعا مانگنے سے کبھی نہ اکتائیں۔

حسن و خوبصورتی میں اضافے کےلیے ریکی کریں

ڈاکٹر غزالہ موسیٰ جو پاکستان کی مشہور سائیکاٹرسٹ اور فیملی کنسلٹنٹ ہیں۔ انہوں نے مجھے ریکی کا بتایا اور ان کی معروف کتاب میں بھی یہ طریقہ درج ہے۔

ریکی کا طریقہ

چہرے کی ریکی کرنے کےلیے اپنے دونوں ہاتھوں پر سے انگوٹھیاں اتار دیں، دونوں ہاتھ جوڑ کر چہرے پر رکھ دیں۔ آنکھیں بند کرکے ساتھ ساتھ کوئی مراقبہ کریں مثلاً آپ تصور میں ایک کوئی ایک مربع شکل بنائیں۔ ہر مرتبہ آپ مربع کی ایک سائیڈ بنائیں۔ آپ ساتھ ساتھ زبان کی حرکت سے پڑھیں یا حیی یاقیوم؛ آپ کچھ منٹ یہ پڑھنے کے بعد اللہ کا دوسرا صفاتی نام پڑھ سکتی ہیں۔ مثلاً آپ یاشافی بھی پڑھ سکتی ہیں یا یہ بھی کہ اللہ خوبصورت ہے وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ یہ آیت اردو اور عربی، جیسے چاہیں پڑھ سکتی ہیں۔

انسانی جسم میں شفا حاصل کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔ ریکی میں اس صلاحیت سے کام لے کر شفا حاصل کی جاتی ہے۔ درج بالا طریقے سے ریکی کرنے سے نہ صرف رنگ صاف ہوتا ہے بلکہ چہرے میں دلکشی بھی پیدا پوتی ہے۔ روازانہ دس منٹ کی ریکی آپ کو جاذب نظر اور دلکش بنا دے گی۔

امور خانہ داری میں مہارت

موجودہ دور میں جب سے تعلیم کی طرف لڑکیوں کا رجحان بڑھا ہے تب سے امور خانہ داری بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح کے پیچھے بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ لڑکی کو گھر کے کام نہیں آتے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ضروری کاموں میں طاق ہوا جائے، پاکستان کے معروف سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر صداقت کہتے ہیں کہ شادی کی تیاری یہ نہیں ہوتی کہ آپ جہیز اکٹھا کریں بلکہ یہ ہوتی ہے کہ گھر کے ضروری کام سیکھیں اور اپنی طبیعت کے اندر برداشت اور ٹھہراؤ پیدا کریں، اس کے علاوہ غیر ذات میں شادیوں کو رواج دیں۔

ذات پات کی حد بندیاں جہاں انسان کو محدود کرتی ہیں وہاں اس سے معاشرتی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں جیسے خاندان میں شادیاں کرنا۔ ایک تو مرد ویسے ہی عورتوں کے مقابلے میں کم ہیں اوپر سے ذات برادری کے چکر میں اور بھی کم رہ جاتے ہیں۔ لہذا اس رسم کو توڑا جائے۔ نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ "خاندان سے باہر شادیاں کرو"، اس سے جہاں آنے والی نسلوں میں ذہانت بڑھتی ہے وہاں موروثی بیماریوں پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ بچوں کے اپاہج ہونے کی ایک وجہ کزن میرج بھی بتائی جاتی ہے۔ اگر ہم خاندان سے باہر شادیاں کرنا شروع کردیں گے تو رشتے نہ ملنے کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور ان امراض پر قابو پانا بھی نہایت آسان ہوجائے گا۔

تعدد ازواج

ڈاکٹر غزالہ موسیٰ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ اگر پاکستان میں 15 سے 20 فیصد مرد دوسری شادی کرنا شروع کردیں اور دونوں بیویوں کو عدل و محبت کے ساتھ رکھیں اور بیویاں بھی خوشی خوشی اس صورت حال کو قبول کرلیں تو رشتے نہ ملنے والا مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو سکتا ہے، کیونکہ پیدائشی اعتبار سے مردوں کی تعداد عورتوں سے کم ہے جب کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی عمر زیادہ ہوتی ہے۔ یہ تمام حقائق تقاضا کرتے ہیں کہ تعدد نکاح کو رواج دیا جائے اور عورتیں خود اس کی اجازت دیں۔

نکاح میں تاخیر نہ کریں

حدیث مبارکہ ہے کہ نکاح آدھا ایمان ہے۔ شریعت کا حکم ہے کہ اگر اچھا رشتہ مل رہا ہو تو نکاح میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲﷺ نے فرمایا ''تین آدمیوں کی مدد کرنا ﷲ تعالی کے ذمے ہے: مکاتب جو کتابت اداکرنے کا ارادہ رکھتا ہے، نکاح کا خواہش مند جو عفت کو بچانا چاہے، اور ﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والا"۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

ایک اور حدیث میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ''جب کسی بندے نے نکاح کرلیا تو نصف دین اس کےلیے مکمل ہوگیا اور باقی نصف دین کےلیے ﷲ کا تقوی اختیار کرے۔'' (بیہقی شعب الایمان)

حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''علی! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کرنا۔ ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہوجائے اور تیسری بے خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا ہم پلہ رشتہ مل جائے۔'' (جامع ترمذی)

بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواری نے عورت کو گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اچھی جاب اب ضروت بنتی جا رہی ہے، حالانکہ کمانا مرد کی ذمہ داری ہے عورت کی نہیں۔ کمانے کےلیے تعلیم حاصل کرنا اور نکاح میں تاخیر کرنا خلاف شریعت ہے۔ ایک کروڑ سے زائد لڑکیوں کی شادیاں نہ ہونا کسی بھی معاشرے کےلیے سوالیہ نشان ہے۔ یہ فطرت کے اصولوں سے روگردانی کی سزا ہے اور ہماری پریشانیوں کی اصل وجہ بھی۔ نبی کریمﷺ کی تعلیمات ہیں کہ نکاح میں تاخیر نہ کی جائے اور اس میں سب سے مقدم شرافت اور مذہب ہے، اسی کو فوقیت حاصل ہونی چاہیے نہ کہ معاشرے میں پھیلے رسوم و رواج کو۔ ان رسوم و رواج کی زنجیروں نے لڑکیوں کو تنہائی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرتی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے تھوڑے پر توکل کیا جائے تاکہ لڑکیوں کی زندگی محفوظ بنائی جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں