پوٹھوہار: جہاں زندگی نے اپنا اوّلیں گیت گایا

انوار فطرت  جمعـء 5 اپريل 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

کرے پر موسم غرّا رہے ہیں، کہیں لرزہ ہے۔

پہاڑوں کے قدم ڈولتے ہیں، زمیں کی چھاتی سلگ رہی ہے، سمندر کھولتے ہیں، کہیں برف زاروں کے چُپ گمبھیر ویرانے، گنگ زمانے ۔۔۔ وقت تاریکی اوڑھے ہے، تاریخ سو رہی ہے اور دیکھنے والا کوئی نہیں؟ ۔۔۔ آثار کا اسرار کھلتا ہے کہ نہیں ۔۔۔ کوئی ہے جو دیکھ رہا ہے۔

اِدھر ایک خطہ ہے کہ سہانی سویریں، تبسم کرتی شامیں، اور مدھ ماتی راتیں یہاں بسیرا کرتی ہیں۔ یہیں کہیں شاخِ فطرت کی کسی درز سے حیات کی ننھی کونپل چٹک کر جھانکتی ہے ۔۔۔ دیکھتی ہے کہ عجب عالم ہے ۔۔۔ زَمَرُّدیں سبزہ ہے، رنگا رنگ پھول ہیں، جھرنوں کی جل ترنگ ہے، نسیم و شمیم رقصاں ہیں ۔۔۔ پہاڑ ہیں کہ جن پر بادلوں کے گالے شکلیں بدل بدل کر کبھی ہنستے، کبھی روتے ہیں اور درخت ہیں کہ آسمان سے بھیدوں بھری سرگوشیاں کرتے ہیں ۔۔۔ مادرِمہربان فضاء اسے دیکھ لیتی ہے، ننھی منی سی، پیاری پیاری سی، ابھی سے لگتا ہے جوان ہوکر صفحۂ ہستی پر رنگ بکھیرے گی، ماحول نے دیکھا تو محسوس کیا کہ زمیں بھاگ وان ہو چکی، وہ اسے بڑھ کر گود میں اٹھالیتاہے، پیشانی چومتاہے اور وہ غوں غاں کرتی اس کے بازوؤں کے پَلنے میں جھولنے لگتی ہے؛ پھر وقت آتا ہے کہ پاؤں پاؤں چلنے لگتی ہے، پھر تُتلانا بھی آگیا اور اب وہ گھڑی ہے کہ وہ مدھم سروں میں اپنا اوّلیں گیت گنگنا رہی ہے ۔۔۔؛ پوٹھوہار تاریخ کے تاریک پردے سے نمودار ہوتا ہے۔

پوٹھوہار آگے چلا تو ساڑھے بارہ لاکھ سال پہلے سوآنی تہذیب وجود میں آئی، اور زمانے بیتے تو یہ ہی خطہ23 سو سال قبل مسیح میں وادیٔ سندھ کی تہذیب کا گہوارہ بھی بنا۔ یہاں سے دریافت ہوئے اوزار حجری دور کے اوائل (5 سے 10 لاکھ سال) سے تعلق رکھتے ہیں۔ وادیٔ سواں سے ملے ترشے پتھر درمیانے برفانی دور کی یادگار ہیں۔ 3 ہزار سال قبل مسیح میں یہاں چھوٹی چھوٹی دیہی آبادیوں کے آثار ملتے ہیں، جن کے آب و گِل پر تہذیبیں استوار ہوئیں۔

پوٹھوہار کا پھیلاؤ دریائے جہلم کے مشرقی کنارے سے دریائے سندھ تک، شمال میں کالا چٹا سلسلۂ کوہ سے کوہ مارگلہ تک اور جنوب میں کوہستان نمک تک پھیلا ہوا ہے۔ 45 میل رقبے پر پھیلا کالا چٹا سلسلۂ کوہ، پوٹھوہار اور پنجاب کے درمیان حد قائم کرتاہے۔ اس کے چار اضلاع جہلم، چکوال، راول پنڈی اور اٹک ہیں۔ دریائے سواں مری کے قریب سے طلوع ہوتا اور کالا باغ کے قریب دریائے سندھ میں غروب ہوتا ہے، علاقے کا بلند ترین پہاڑ سکیسر ہے۔

زراعت بارش کی محتاج ہے، جو سالانہ 15 سے 20 انچ کی اوسط میں ہے۔ شمال مشرق میں بادل زیادہ برستے ہیں، بڑی فصلوں میں گندم، مونگ پھلی، چنے، جو، جوار، مٹر، دالیں، لوبیا، پیاز، تربوز، تمباکو اور دیگر شامل ہیں۔ جنگلی حیات میں اُڑیال، چنکارا (ہرن)، چکور، خرگوش، نیولے، جنگلی سؤر اور زردگلے والا بلے نما ایک خوب صورت جانور اور سیکڑوں انواع کے خوش نما پرندے شامل ہیں۔ مارگلہ کے پہاڑوں میں ایک دیدہ زیب چیتا بھی ہوتا تھا جو اب خال خال ہے۔ جنگل مسلسل کاٹے جا رہے ہیں اور جنگلی حیات نابود ہونے کا اندیشہ ہے۔ تیل کی تلاش، کوئلے کی کان کنی اور آبادی کے بے طرح پھیلاؤ سے زرعی کے علاوہ اچھالی، کھبے کی اور جھلار جیسی جھیلوں کا رقبہ سکڑتا جا رہا ہے۔

ٹیکسلا، یونیسکو کے عالمی ورثے کا حصہ ہے۔ ایک زمانے میں بودھوں اور ہندوؤں کا علمی مرکز تھا، تاکشیلا یونی ورسٹی کے نام سے معروف ہے۔

اس خطے پر پہلے فارس کے ہجامنشی شہنشاہوں نے قبضہ کیا پھر سکندر آیا پھر ساسانیوں نے فرماں روائی کی، پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کے دوران سفیدہنوں نے اسے تاراج کیا۔ گندھارا ثقافت کے اس شہر کی باقیات راول پنڈی سے بھی برآمد ہوئی ہیں۔ گکھڑ سردار جھنڈے خان نے 1493 میں یہ شہر ازسرنو آباد کیا اور اس کے ایک گاؤں ’’راول‘‘ کے نام پر اسے راول پنڈی پکارا۔ یہاں گکھڑوں کا قلعہ روہتاس بھی عالمی ورثے کا حصہ ہے، اس میں گکھڑ سردار سلطان سارنگ خان کی قبر بھی ہے، جو 1546 میں شیر شاہ سوری کا مقابلہ کرتے ہوئے کام آیا۔

ضروری معلوم ہوتا ہے کہ خطے کو خال و خط دینے والے مختلف قبائل کا ذکر پہلے کیا جائے۔ حملہ آوروں کی گزرگاہ پر واقع ہونے کے باعث یہاں کے باسیوں کا ماضی اکثر حالتِ جنگ میں گزرا ہے، سو خود کو مارشل ریس کہلانے پر خوش ہوتے ہیں۔

ذاتیں، قبیلے، قومیں
جہلم ڈسٹرکٹ گزیٹیئر کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز میں یہاں متعدد قومیں اور قبائل آباد تھے جو شاخوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ برٹش انڈیا آرمی میں فوجی بھرتی خاص طور پر اسی خطے سے کی جاتی تھی یہ روایت آج بھی قائم ہے۔ یہاں چند قبائل کا ذکر کیا جاتا ہے۔
جنجوعے: راج پوت ہیں۔ پوٹھوہار میں شاید ہی کوئی علاقہ ان سے خالی ہو۔ یہ اپنا نسب مہاراجا جنمے جایا سے ملاتے ہیں جو مہابھارت والے پانڈَوَ بھائیوں کی لڑی سے تھا۔ اس کا باپ راجا پرکشت اور دادا ابھیمانوَ تھا۔ ہندو عقیدے کے مطابق یہ زمانہ ’’کل یُگ‘‘ ہے یعنی بربادی کا دور، راجا جنمے جایا اس دور کا پہلا راجا ہے۔ جنمے جایا کا مفہوم ہے ’’پیدائشی ناقابلِ تسخیر‘‘۔ اپنے شجرے کے لحاظ سے یہ ’’مہابھارت‘‘ کے ہیرو ارجن کا پڑپوتا تھا اور سلطنت ہستناپور کا مہاراجا، اس کا پایۂ تخت اندرا پرَستَ (دلی کا قدیم نام) تھا۔ پانڈوؤں نے پنجاب پر تادیر حکومت کی۔

ایک دعوے کے مطابق سکندر اعظم سے نبرد آزما ہونے والا راجا پورس (اصل نام رائے پور) جنجوعہ تھا۔ ان راجاؤں میں رائے دھروپت دیو کے بیٹے رائے اجمل جنجوعہ نے بارہویں صدی میں اسلام قبول کیا، رائے مل یا راجا مل بھی اسی شاخ سے بتایا جاتا ہے۔ مسلمان ہونے کے بعد اس کا نام راجا مل خان پڑا۔ اسلام اس نے شہاب الدین غوری کی آمد پر کم سنی میں قبول کیا تھا، صوفیاء سے بہت متاثر تھا، بعد میں اس نے کوہ جُودہ پر راج قائم کیا جس کی راج دہانی راج گڑھ یا شاہ گڑھ تھی، اس کا نام بعد میں ملوٹ پڑا۔

راجا اجمل دیو کے تعلقات سلطنت دہلی کے ساتھ کبھی اچھے نہیں رہے، اسے باغی راجا بھی قرار دیا جاتاہے۔ کوہستانِ نمک سے نمک نکالنے کا تجارتی آغاز راجا مل ہی نے کیا۔ اس کے پانچ لڑکے تھے ان میں سے راجا تنولی نے ہزارے (ریاست امب) پر، راجا جودھ نے جہلم، راجا کھکھا نے کشمیر، راجا بھیر نے راج گڑھ (چکوال) اور راجا کالا خان نے کہوٹہ پر راج کیا، یہ پورا رجواڑا ’’ملوکی کی دہانی‘‘ بھی کہلاتا ہے۔

راجا مل کا کنٹھا
جنجوعہ کہلانے کی روایت یوں ہے کہ ’’جنجو‘‘ مقامی زبان میں کنٹھے کو کہتے ہیں۔ روایت ہے کہ راجا مل نے مسلمان ہو کر گلے سے جنجو اتار دیا تھا سو یہ لفظ دراصل ’’جنجوآ‘‘ رہا ہوگا، یعنی جنجو اتار دینے والا، بعد میں اس کو اسلامی تاثر دینے کے لیے ’’عین‘‘ اور ’’ہائے ہوّز‘‘ لگا کر ’’جنجوعہ‘‘ بنایا گیا۔

گکھڑ: ایک قدیم قبیلہ ہے، اس کا ظہور کیان (ایران) سے ہوا۔ زیادہ تر اٹک، راول پنڈی، جہلم، گلگت، بلتستان، چترال،خان پور اور میر پور میں بود و باش کرتے رہے۔ اب یہ لوگ رفتہ رفتہ جنگ جوئی چھوڑ کر جاگیردار بن چکے ہیں۔ ’’تلیال‘‘ اور ’’سرنگال‘‘ ان ہی سے ہیں۔ گکھڑوں اور جنجوعوں میں کبھی نہیں بن پائی، تیرہویں صدی عیسوی سے کوہستانِ نمک پر عمل داری کے لیے یہ ایک دوسرے کا خون بہاتے آئے ہیں۔

گنگال: چندر بنسی راج پوت ہیں۔ اٹک میں گنگال نامی گاؤں ان ہی کا ہے، پنڈی میں گنگال اور سودگنگال، کہوٹہ میں لمہ گنگال ان کے علاقے ہیں۔ جہلم کے گنگال خود کو جاٹ قرار دیتے ہیں، وہاں بھی گنگال نام کا ایک گاؤں ہے، کلرسیداں میں مہرہ گنگال اور مک ان کے علاقے ہیں۔ یہ اپنا رشتہ بھٹی قبیلے سے ملاتے ہیں جب کہ بھٹی یدوونشی ہیں۔

اعوان: کا دعویٰ ہے کہ یہ قطب شاہ کی آل ہیں جو ہرات کے حاکم اور محمود غزنوی کی فوج میں سالار اور نسباً ہاشمی تھے۔ آغاز میں یہ کوہستان نمک کے علاقے میں آباد ہوئے۔ اعوان کا مطلب ہے مددگار۔ 1930 کی شماریات کے مطابق پوٹھوہار میں راج پوتوں کے بعد اکثریت ان کی ہے، گولڑہ کے تمام گاؤں ان ہی کے تھے، تحصیل تلہ گنگ اور پنڈی گھیب بھی ان کا مرکز ہے، چھچھ میں بھی بڑی تعداد میں ہیں۔

بھٹی: راج پوتوں کا بہت بڑا قبیلہ ہے، یدوونشی (Yaduvanshi) یعنی کرشن کی اولاد سمجھے جاتے ہیں۔ یہ افغانستان سے دلی جانے والی شاہ راہ پر واقع جیسلمیر کے مقام پر گزرنے والے کارروانوں سے ’’ٹیکس‘‘ وصول کیا کرتے تھے، جیسل میر سے پنجاب، سندھ، افغانستان اور اس سے آگے تک پھیلے۔ افغانستان میں غزنی، اسی قبیلے کے ایک سردار کے نام پر ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ لوگ پوٹھوہار میں کب وارد ہوئے۔ ان کے چھوٹے گروہوں میں مہرے، کنجال، جانگلے(جنگلے)، بدھوٹر اور شیخ وغیرہ ہیں۔

چوہان: گجر راج پوت ہیں، خود کو اگنی ونشی (آگ سے پیدا) بتاتے ہیں، ہند کا آخری راجا پرتھوی راج اسی قبیلے سے تھا، اسے غوری نے شکست دی۔چوہانوں کے علاوہ دیگر اگنی ونشیوں میں گجرارا پرتی ہار، پرمار اورسولنکی شامل ہیں۔ ان کے بارے میں بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کب پوٹھوہار میں داخل ہوئے۔ چوہان لوگ پنڈی گھیب، راول پنڈی، جہلم کی ڈھوکوں اور چکوال میں موجود ہیں۔
آہیر : ان کی اصلیت کے حوالے سے مختلف قیاسات ہیں، نسب ان کا قطب شاہ سے ملتا ہے جن سے اعوان اور کھوکھر قبائل بھی ہیں۔ بعض محققین نے انہیں یدُو ونشی بھی قرار دیا ہے۔ گوجر خان میں ان کے دو گاؤں بھیر آہیر اور آہیر ان کے گاؤں ہیں۔

بگھیال: راج پوت ہیں۔ یہ خود کو ایک پرمار راج پوت بنگش خان کی آل بتلاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بنگیال، بھکرال اور ہون راج پوت بھی پوٹھوہار اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ لوگ جہلم، گجرات اور گوجرانوالہ میں زیادہ ہیں۔ ایک ذات بگیال ہے تاہم ان کا تعلق گکھڑوں سے بتایا جاتا ہے، ناموں کی صوتی مماثلت سے بعض اوقات غلط فہمی ہوتی ہے۔
بینس: جاٹ ہیں اور جنجوعہ راج پوتوں سے تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ یہ زیادہ تر گوجر خان میں ہیں، کہوٹہ میں بھی ان کے کئی گاؤں ہیں، فتح جنگ میں بینس نامی گاؤں بھی ان ہی کا ہے۔
بنگیال: بھی راج پوت ہیں اور بگھیالوں کے قرابت دار ہیں۔
بکھرال: زیادہ تر گوجر خان، کہوٹہ، جہلم اور چکوال میں ہیں، پنوار راج پوت ہونے کے دعوے دار ہیں، پرانا تعلق جموں سے بتاتے ہیں۔ انہیں منہاس راج پوت بھی قرار دیا جاتاہے۔ ضلع راول پنڈی، مری اور کوٹلی ستیاں میں ان کے کئی گاؤں ہیں۔ تحصیل کلرسیداں میں ان کے نام کا ایک گاؤں بھی ہے۔

بدھال: بدھالوں کا تعلق اعوان قبیلے سے بتایا جاتاہے۔ گوجر خان میں بہت ہیں۔
چٹھہ: جاٹوں کی ایک بڑی شاخ ہے، گوجرانوالہ، سیال کوٹ اور گجرات کے علاوہ ضلع جہلم میں بھی موجود ہیں۔ قائم چٹھہ اور اسلام آباد میں چٹھہ بختاور ان کے علاقے ہیں۔
چیمہ: بھی جاٹوں کی معروف شاخ ہے۔ گوجر خان میں سوئی چیمیاں ان کا گاؤں ہے۔

چھینے: وٹوؤں کے چچیرے ہیں۔ ان کے بزرگ ’’اچھیر‘‘ کے دو بیٹے تھے، جن میں جے پال چھینوں اور راج پال وٹوؤں کا جد امجد ہے۔ جے پال کی اٹھارہویں پشت سے ’’پھیرو‘‘ نے بابا فرید گنجِ شکر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ گوجر خان میں چھینہ ان ہی کا گاؤں ہے، اس کے علاوہ بھی یہ وہاں مختلف جھوکوں میں بستے ہیں۔ تحصیل کہوٹہ میں دبیرہ کلاں، سکوٹ اور گھل سینتھا ان کے علاقے ہیں۔

چب: راج پوت زیادہ تر جہلم میں دریا کنارے آباد ہیں۔
دھمیال: جاٹ بھی ہیں اور راج پوت بھی، دونوں جنجوعہ ہونے کے دعوے دار ہیں۔ راول پنڈی میں ان کا علاقہ دھمیال ہی کہلاتا ہے، تخت پری، ترایا، خیل دھمیال اور شیر دھمیال اورکلرسیداں میں صاحب دھمیال ان ہی کے علاقے ہیں۔ جہلم میں ماموری دھمیال، ڈھیری دھمیال، رکھا دھمیال، گوجر خان میں ڈولمی دھمیال، دھمیال اور متعدد جھوکیں ان ہی کی ہیں۔ یاد رہے کہ دھنیال قبیلے کا دھمیال قبیلے سے کوئی تعلق نہیں۔

دھنیال: خود کو حضرت علیؓ کی آل قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ خود کو ایک بزرگ معظم شاہ کی لڑی سے منسوب کرتے ہیں جو عراق سے ملتان اور وہاں سے چکوال آئے، چکوال کا پرانا نام دَھن تھا، اسی نسبت سے یہ لوگ دھن یال کہلائے۔ حضرت معظم شاہ کو بابا دھنی پیر کہا جاتاہے۔ انہوں نے راج پوتوں کے خلاف شہاب الدین غوری کی مدد کی تھی۔
ڈھنڈ یا ڈھوند: قبیلہ خود کو عباسی قرار دیتا ہے، کوہ مری کا سارا علاقہ (کم از کم 60 گاؤں) ان ہی سے آباد ہے۔ خود کو نبی مکرمﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کی آل بتلاتے ہیں۔ آزاد کشمیر، ہزارہ اور پنڈی میں ان کی تعداد خاصی ہے۔

دُلال: خود کو قریشی کہاتے ہیں، زیادہ تر گوجر خان میں آباد ہیں۔ مندرہ، ہچاری دلال، نتھو دلال، نور دلال، پھروالا دلال، نڑالی، بھٹیاں اور کری دلال ان کے علاقے ہیں۔ یاد رہے کہ جنجوعہ قبیلے کی ایک شاخ بھی دلال کہلاتی ہے تاہم وہ راج پوت ہیں۔

گھیبے: اصلاً مغل ہیں۔ یہ فتح جنگ کے مغربی حصے سے شمال میں کالا چٹا پہاڑ، فتح جنگ اور مشرق میں ساگر تک اور جنوب میں سِل تک پھیلے ہوئے ہیں۔
گجر: کے بارے میں ابہام بہت ہے تاہم بعض محققین کے مطابق یہ لوگ سفید ہُنوں کے ہم راہ ہندوستان پر وارد ہوئے۔ وسطی ایشیا سے برِصغیر تک بے شمار ریاستیں، شہر اور گاؤں ان کے ہیں۔ جنگ جو قوم ہے، کئی شاخوں میں بٹی ہے، کالاس، گورسی، کسانے، برگٹ، کھٹانے، چے چی، چوہان، پسوال، سدھ، بَرّے، گج گاہے، امرانے، بھلوٹ معروف ہیں۔ ہندوپاکستان کے ہر علاقے میں موجود ہیں، صرف جہلم ہی میں کم و بیش 80 گاؤں ان کے ہیں، گوجر خان، چکوال، مندرہ، پنڈی میں دریائے سواں کے کنارے بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ 1930 کی شماریات کے مطابق ضلع میں 124 گاؤں ان کے تھے۔

دشمن کو برباد کردینے والے
بعض گجر محققین کے مطابق ان کا تعلق چیچنیا اور جارجیا سے ہے۔ وسطی ایشیا میں گرجستان اور جارجیا کو وہ اپنا وطن قرار دیتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ جارجیا دراصل گجرستان تھا۔ سنس کرت والے گجر کی دل چسپ تفہیم کرتے ہیں۔ وہ اسے دو الفاظ ’’گُر‘‘ اور ’’اُجاڑ‘‘ کا آمیزہ کہتے ہیں ’’گر‘‘ بہ معنی دشمن اور ’’اجاڑ‘‘ بہ معنی برباد کرنے والا یعنی دشمن کو برباد کر دینے والا، اصل لفظ بگڑ کر گرجاڑ اور پھر ہوتے ہوتے گجر بنا۔
ہتار (حطار): چندربنسی ہیں، خود کو بھٹیوں کی شاخ اور غزنی کے رانا راج ودھان کی اولاد گردانتے ہیں۔ ضلع چکوال، ضلع اٹک اور ضلع گجرات میں ہتاروں کے نام پر متعدد گاؤں ہیں۔

بُھٹا کا بَٹھا بیٹھ گیا
راج ودھان تیرہویں صدی میں غزنی سے دلی، دلی سے بھٹ نر اور وہاں سے لودھراں آیا۔ یہاں راجا بھٹہ اس کی بیٹی سے شادی کا خواہاں ہوا لیکن ودھان نے انکار کر دیا بس پھر تلواریں نکل آئیں اور بُھٹہ کا بَھٹا بیٹھ گیا، رجواڑا ودھان کے ہاتھ آیا، اس کے پانچ بیٹے تھے، جن میں سے ’’ہتار‘‘ نے شمال میں راج قائم کیا۔

ہُن، ہُون اور ہَون: بھی پنوار راج پوت ہیں، خود کو راجا جدجیو کی آل بتاتے ہیں، مختصرسی شاخ ہے۔
جلپ: خود کو کھوکھر راج پوت کہتے ہیں۔ پنڈ دادنخان وغیرہ میں بود و باش رکھتے ہیں۔ یہ علاقہ انہوں نے جنجوعوں سے چھینا تھا۔
جسگام یا جسکھم: عباسی قبیلے کی ایک چھوٹی سی شاخ، کہوٹہ، سرائے خربوزہ، پھگواڑی اور مندرہ میں زیادہ ہیں۔

اودے، بھگیال، بنگیال، بوریے، لنگڑیال، دھمیال، دھمتال، گوندل، کلیال، کھنیال، کھتری، للے، نگیال، میال، سیال، سدھن اور تھتھال بھی آباد ہیں۔ جاٹوں کے قبائل میں، پھکرال، بھانس، بھٹا، بھٹی، چدھڑ، دھمیال، ڈھوڈی، ملیار، گنگال، گھوگھے، گجرال، ہریار، جندرال، جنگال، جھمٹ، جٹال، کہوٹ، کھانڈے، کھنگر، کھوکھر، منہاس، مٹھیال، میکن، پھپھرے، مگیکال، نگیالی، سروال، تامے، تارڑ، تھتھال وغیرہ پوٹھوہار کے مختلف علاقوں میں بستے ہیں۔ مغلوں کی ایک شاخ کسر بھی ہے۔ ضلع اٹک کی تحصیلوں میں علیزئی، بیر، بابی، بارکزئی، دلازاک، جمال خیل، لودھی، سدوخیل، ساگری خٹک، ترین اور تنولی وغیرہ پٹھان بھی موجود ہیں۔ ستی بھی راج پوت ہیں اور راول پنڈی، گوجر خان کے شہروں اور نواحات میں بڑی تعداد میں ہیں، ان کے نام سے ایک پوری تحصیل کوٹلی ستیاں موجود ہے۔

دیدنی پوٹھوہار
پوٹھوہار جہاں قدرتی مناظر سے مالا مال ہے وہاں تاریخی مقامات سے خوب مرصع و مزین ہے، ناظر کا جس طرف جی چاہے، نکل جائے، کہیں نہ کہیں اسے کچھ نہ کچھ دیدنی ضرور مل جاتا ہے۔ یہاں محض چند ایک مقامات کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔

مارگلہ : کوہستانِ مارگلہ پنڈی کے شمال میں ہے، قدیم سے خوب صورت جھیلوں، چشموں اور مرغ زاروں کا مسکن رہا ہے۔ اسلام آباد اِدھر ہی ہے اور راول ڈیم بھی۔ پہاڑیوں کے اس سلسلے نے علاقے کا 12 ہزار 605 ہیکٹر رقبہ گھیر رکھا ہے۔ مغرب کی طرف ان پہاڑیوں کی بلند ترین چوٹی 685 میٹر اور مشرق کی سمت ایک ہزار 604 میٹر ہے، سب سے اونچی چوٹی ٹلہ چرونی ہے، یہاں برف بھی پڑتی ہے۔

دیمک مافیا
جنگل کو ’’دیمک مافیا‘‘ چاٹ رہی ہے، ذمہ دار ادارے نہ صرف اغماض برتتے ہیں بل کہ اس دیمک کی افزائش بھی کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سی ڈی اے اسلام آباد میں ہر سال 3 لاکھ 85 ہزار پودے لگاتا ہے (واللّٰٰہ اعلم)۔

سانپوں کا گڑھ
مارگلہ نام کے بارے میں مختلف روایتیں اور حکایتیں ہیں۔ ایک معنیٰ اس کے سانپوں کا گڑھ ہے، مار بہ معنی سانپ اور گلہ بہ معنی اکٹھ۔ ایک معنی اس کے گلا کاٹنا بھی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس علاقے میں راہ زنوں کے گروہ تھے جو راہ گزروں یا قافلوں کو لوٹ کر گلے کاٹ دیاکرت تھے۔ ایک اور تفہیم یہ بھی ہے کہ تاکشاشیلا (ٹیکسلا) کا فارسی تلفظ ماریکالا تھا جو بگڑتے بگڑتے مارگلہ بن گیا۔
ٹلہ جوگیاں: یہ مشرقی سالٹ رینج کی سب سے بلند چوٹی ہے۔ بلندی اس کی 32 سو فٹ یا 975 میٹر ہے۔ جہلم شہر سے کوئی 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ قلعہ روہتاس اس کے مشرق میں دینہ سے سات کلومیٹر دور ہے۔ پنجابی زبان میں ٹلہ کا مطلب چھوٹی پہاڑی یا ٹیلا ہے، ہزاروں برس سے ہندوؤں کا مقدس مقام ہے۔ وہ یہاں سورج کی پوجا کیا کرتے تھے۔ تقسیم سے پہلے یہ مقام جوگیوں کا مسکن تھا۔

رانجھے نے کانوں میں بالے ڈلوائے

وارث شاہ کی شہرہ آفاق تخلیق ’’ہیر وارث‘‘ میں ٹلہ جوگیاں کا خصوصی ذکر ہے، رانجھا، ہیر کے عشق میں یہاں آ کر گورو گورکھ ناتھ سے ملتا ہے اور اس کا چیلہ بال ناتھ رانجھے کے کان پھاڑ ان میں بالے ڈالتا ہے۔ ہندو جوگیوں میں ’’کن پَھٹے‘‘ جوگیوں کا سلسلہ اسی ٹلے سے ملتا ہے۔ یہ ٹلہ ایک سو سال قبل مسیح میں بسایا گیا تھا۔ سکھوں کے لیے بھی مقدس ہے، روایت کے مطابق بابا گورونانک جی نے یہاں چلہ کاٹا تھا، پنجاب کے مہاراجا رنجیت سنگھ نے ان کی یاد میں یہاں ایک سنگی حوض بنوایا تھا۔ شہنشاہ جہاں گیر یہاں اکثر آیا کرتاتھا، انگریزوں نے بھی یہاں ایک تالاب بنوایا تھا۔

مانکیالہ کاسٹوپا
قلعۂ روہتاس میں گکھڑ سردار سارنگ خان کے مقبرے پر کھڑے ہو کر جنوب مشرق کی طرف دیکھیں تو کوئی 32 کلومیٹر دور ایک عمارت دکھائی دیتی ہے۔ یہ آج بھی پرشکوہ دکھائی دیتی ہے، اِسے مانکیالہ کاسٹوپا کہا جاتا ہے۔

بدھا اور بھوکے شیر
روایت ہے کہ ایک بار اس مقام سے مہاتما بدھ کا گزر ہوا تو انہوں نے دیکھا کہ شیر کے سات بچے ہیں جو بھوک سے اس قدر نڈھال ہوچکے ہیں کہ بس دم دیا چاہتے ہیں سو مہا آتما سے یہ نہ دیکھا گیا، آس پاس کچھ کھانے کو دکھائی نہیں دے رہا تھا اور دور دراز جانے کی گنجایش نہیں تھی سو انہوں نے اپنے جسم کے ٹکڑے کاٹ کر انہیں کھلا دیے، بعد میں راجا کِنشک (128-151ع) نے اس واقعہ کی یاد میں اسی مقام پر یہ سٹوپا تعمیر کرایا۔ 1930 میں یہاں سے سونے، چاندی اور تانبے کے متعدد سکے دریافت ہوئے تھے۔ یہاں سے خروشتی طرز خط میں ایک لوح بھی ملی ہے۔

قلعہ روہتاس: فرید خان (شیر شاہ سوری) نے اپنے دور میں تعمیر کرانا شروع کیا تھا۔ جہلم شہر کے قریب واقع ہے اور پشتون، ایرانی، ترک اور ہندو طرز تعمیر کا بہترین امتزاج ہے۔ یہ کوئی تین سو فٹ بلند ایک ٹیلے پر بنا ہے، رقبہ اس کا 12.63 ایکڑ یا 51 ہزار ایک سومیٹر ہے۔ ٹوڈرمل کھتری نے اس کی تعمیر 1541 میں شروع کرائی تھی، اس زمانے میں اس پر 34 لاکھ 25 ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔ قلعے کی دیواریں 10 سے 18 میٹر بلند اور 10 سے 13 میٹر چوڑی ہیں، ان میں ایسے مقامات رکھے گئے ہیں جن سے دشمن کی فوج پر پگھلا ہوا سکہ انڈیلا جا سکتا اور گولے بھی برسائے جا سکتے تھے۔

اس کے بارہ دروازے ہیں جن کے نام سہیل دروازہ، شاہ چند والی دروازہ، کابلی دروازہ، شیشی دروازہ، لنگر خانی دروازہ، طلاقی دروازہ، موری یا کشمیری دروازہ، خواص خانی دروازہ، گتالی دروازہ، تلا موری دروازہ، پیپل والا دروازہ اور سار دروازہ ہیں۔ کابلی دروازے کے قریب شاہی مسجد ہے۔ تین باؤلیاں (کنوئیں) بھی ہیں، بڑی باؤلی قلعے کے درمیان فوجیوں، ہاتھیوں اور گھوڑوں کے لیے ہے، اس کے 148 قدمچے ہیں۔ کابلی دروازے کے قریب شاہی باؤلی ہے اس کے 60 قدمچے ہیں۔

سپاہ کے لیے ایک اور چھوٹی باؤلی سار دروازے کے قریب ہے۔ قلعے میں حویلی مان سنگھ کے قریب یک منزلہ رانی محل ہے، جس کے چار کمرے تھے، اب ایک رہ گیا ہے۔ یہ ہندو طرز تعمیر کا خالص نمونہ تھا، بیس فٹ بلند یہ کمرہ خوب صورتی سے سجایا گیا ہے، چھت پھول کی صورت پر بنی ہے، اندرونی پیمایش چونسٹھ مربع فٹ ہے۔ قلعے کے لنگر خانی دروازے کے باہر کی طرف خیر النساء کا خالی مزار ہے جو شیر شاہ سوری کے وزیر خوراک قادر بخش کی بیٹی تھی اور امانتاً یہاں دفن کی گئی۔

وجۂ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ شیر شاہ نے 1539 میں بہار کے علاقے شاہ آباد کے راجا ہری کرشن کو شکست دے کر اس کے قلعہ روہتاس گڑھ پر قبضہ کرلیا تھا، راجا ہری نے اپنے چہیتے بیٹے روہی تانتو کے نام پر اس علاقے اور قلعے کا نام روہتاس گڑھ رکھا تھا، اس فتح کی یاد میں شیر شاہ نے اپنے قلعے کو وہی نام دیا۔ اِس کی تعمیر کی ایک وجہ یہ تھی کہ شیرشاہ، ہمایوں کی ہندوستان واپسی کو روکنا چاہتا تھا جسے اس نے قنوج کی جنگ میں شکست دے کر بھگایاتھا، دوسری یہ کہ گکھڑ قبیلہ مغلوں کی وفاداری کا دم بھرتا تھا، شیرشاہ اس قلعے کے ذریعے انہیں بھی سرکوب رکھناچاہتا تھا۔

گکھڑوں کے مخالف جنجوعوں نے قلعے کی تعمیر میں شیرشاہ کی بھرپور مدد کی۔ گکھڑوں سے قلعہ کی تعمیر تو نہ روکی جا سکی البتہ انہوں نے قلعہ کی تعمیر پر مامور جنجوعہ مزدور بے دریغ تہِ تیغ کیے۔ قلعہ کی تعمیر میں ایرانی طرز بھی شامل ہے تاہم پختون سادگی غالب ہے۔ اسے 1997 میں عالمی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ ورلڈ ہیری ٹیج لسٹ کے مطابق قلعہ روہتاس مسلم عسکری طرز تعمیر کا بے مثال نمونہ ہے۔ یہ عمارت بعد میں مغلیہ ذوقِ تعمیر کے لیے نمونہ بنی جو عروج پر پہنچ کر ’’تاج‘‘ کی تخلیق تک پہنچا۔

گرونانک جی کا چشمہ
قلعے کے قریب گرونانک جی کا دریافت کردہ ایک چشمہ ’’چوآصاحب‘‘ نام کا ہے۔ اس چشمے سے ایک دل چسپ روایت یہ وابستہ ہے کہ شیر شاہ سوری اسے قلعے کے اندر سمیٹنا چاہتا تھا لیکن وہ جب جب اس کے گرد دیوار تعمیر کرواتا یہ ہر بار دیوار سے باہر جا پھوٹتا، اس نے سات کوششیں کیں، کام یابی نہ ہوئی تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔

کوہستان نمک: یہ ایک سلسلۂ کوہ ہے جو دریائے جہلم سے دریائے سندھ تک پھیلا ہوا ہے۔ ان میں مایو، کھیوڑہ، ورچہ اور کالا باغ کی عظیم کانیں شامل ہیں۔ یہاں درمیانے درجے کا کوئلہ بھی موجود ہے۔ سکیسر اور ٹلہ جوگیاں اس سلسلۂ کوہ کی بلند ترین چوٹیاں ہیں۔ یہاں دو جھیلیں ’’کھبی کی‘‘ اور ’’اچھالی‘‘ نام کی موجود ہیں۔ سکیسر سے ملنے والے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کبھی بودھوں کا شہر رہا ہو گا۔

قلعۂ تلاجہ: خوشاب میں ایک بڑی چٹان پر واقع ہے۔ اس وقت اس قلعے کی تمام دفاعی دیواریں تباہ شدہ حالت میں ادھر ادھر بکھری ہوئی ہیں۔ مکانات اور دیگر ڈھانچے بھی کھنڈر ہیں البتہ ایک عمارت کے ڈھانچے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کبھی مسجد رہی ہو گی۔ عمارتوں کی تعمیر میں بڑے بڑے پتھر تراش کر استعمال کیے گئے ہیں۔ یہاں کی سب سے دل چسپ چیز پانی کا ایک ٹینک ہے جو پنج گوشہ پتھروں سے بنا ہے۔ تاحال یہ معلوم نہیں کیا جا سکا کہ یہ قلعہ ترک سلاطین، لودھیوں یا مغلوں کے عہد میں آباد تھا۔

کتے کی قبر
کوہستانِ نمک کے قریب ہی کتھوائی کا علاقہ ہے جہاں دو قابل دید مقامات ہیں، ان میں سے ایک ’’کتے مار‘‘ اور دوسرا قلعہ ’’تُلاجہ‘‘ کہلاتا ہے۔ کتے مار کے علاقے میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی قبریں ہیں۔ اس میں ایک قبر ایک کتے کی بھی بتائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کتے کے مالک کی شادی کا قافلہ یہاں سے گزر رہا تھا کہ ڈاکوؤں نے نوشے میاں پر حملہ کر دیا تو اس کتے نے اپنے مالک کا دفاع کرتے ہوئے ڈاکوؤں کو بھگا دیا لیکن خود بھی جان سے گیا۔

کان نمک کھیوڑہ: کا ایک نام مایو بھی ہے۔ یہ پاکستان میں نمک کی سب سے بڑی اور دنیا میں دوسری بڑی کان ہے۔ کھیوڑہ، پنڈ دادنخان سے شمال کی طرف کچھ ہی فاصلے پر ہے، سالانہ اڑھائی لاکھ کے لگ بھگ سیاح اس کے دیکھنے کو آتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اسے 320 قبل مسیح میں سکندر یونانی کے گھوڑوں نے دریافت کیا تھا جب کہ اس کا تجارتی استعمال مغلوں کے عہد میں ہوا۔

اس کی سب سے بڑی سرنگ 1872 میں معدنی کانوں کے انگریز انجینئر ڈاکٹر ایچ وارتھ نے بنوائی تھی۔ اس سے سالانہ ساڑھے تین لاکھ ٹن نمک نکالا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس میں 600 ملین ٹن کے ذخائر ہیں۔ اس کا دوسرا نام مایو کان نمک ہے جو انگریز وائس رائے لارڈ مایو کے یہاں کے دورے کے بعد رکھنے کی کوشش کی گئی تاہم یہ نام مقبول نہ ہو سکا۔ اس کی قدامت کا اندزہ 8 کروڑ سال ہے اور یہ ایک قدیم سمندر کی باقیات بتائی جاتی ہے۔

عہد مغلیہ میں اس کا نمک وسطی ایشیا کی منڈیوں میں فروخت کیا جانے لگا۔ سکھوں کے عہد حکومت میں ورچہ والی کان کا انصرام سکھ سپہ سالار ہری سنگھ نلوہ نے سنبھالا جب کہ کھیوڑے کی کان جموں کے راجا گلاب سنگھ نے سنبھال لی۔ 1872 میں یہ کانیں انگریزوں کے ہاتھ لگیں تو انہوں نے ان کانوں کو ترقی دی ان کی سرنگوں اور راستوں کو کشادہ کیا جس سے مزدوروں کو درپیش خطرات کا کسی حد تک ازالہ ہوا۔ ان کے آنے سے قبل کانوں میں پانی کی ترسیل اور نمک ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ داخلے کے اوبڑ کھابڑ راستوں کو ہم وار کیا گیا اور ویئر ہاؤسز بنائے گئے، اسمگلنگ بھی ختم کرائی۔

سکندر کے محقق گھوڑے
نمک کی کانوں کی دریافت کا قصہ بھی دل چسپ ہے۔ تاریخ میں آتا ہے کہ جہلم اور میانوالی کے علاقوں سے گزرتے ہوئے سکندرِ مقدونوی کی سپاہ کے گھوڑے ماندہ و بیمار ہو گئے تاہم جب اس مقام پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا تو کچھ دن بعد یہ گھوڑے ادھر ادھر بکھرے پتھر چاٹننے لگے اور اس کے ساتھ ہی رفتہ رفتہ ان کی صحت بہتر ہونے لگی۔ سکندر کے سپاہیوں نے محسوس کیا کہ ان پتھروں کو یوں چاٹنا گھوڑوں کا خلافِ معمول عمل ہے، تجسس ہوا تو ڈرتے ڈرتے خود بھی چکھا، انہیں بھی اس کا ذائقہ مرغوب آیا اور گھوڑے بھی چاق و چوبند ہوگئے۔

اٹک کا پل: اٹک کا پرانا پل بھی دیدنی ہے۔ یہ اٹک خورد اور خیر آباد کنڈ کے درمیان دریائے سندھ پر واقع ہے۔ اس کا بنیادی ڈیزائن سرگِلڈفورڈ ہولزورتھ نے تیار کیا تھا اور اسے ٹریفک کے لیے 24 مئی 1883 کو کھولا گیا تھا۔ اس کی دو سطحیں اور پانچ سپین ہیں۔ تین سپین میں سے ہر ایک 257 فٹ اور ہر دو 312 فٹ طویل ہیں۔ بالائی سطح پر ریلوے لائین ہے اور زیریں پر سڑک ہے۔ 1979 میں ٹریفک کے لیے نیا پل تعمیر کیا گیا تاہم ٹرین اب بھی پرانے پل پر ہی سے گزرتی ہے۔

اٹک پل پر لاگت
1883 میں اٹک پل کی تعمیر پر 32 لاکھ روپے کا خرچہ اٹھا تھا، دوسری بار اسے سرفرانسس کیلاہان نے 1929 میں ڈیزائن کیا اور مزید 25 لاکھ روپے صرف ہوئے۔
قلعہ نندنہ: کوہستان نمک کے مشرقی جانب نندنہ کا قلعہ ہے۔ اس کے کھنڈرات میں ایک شہر اور مندر کے آثار ہیں۔ اس پر ہندو شاہی سلسلے کے راجا گیارہویں صدی تک حکم ران رہے جنہیں محمود نے یہاںسے مار بھگایا۔ اس کے اندر ہندو شاہی راجا انند پال کے بیٹے جے پال نے شیو کا مندر تعمیر کرایا تھا۔ سنس کرت میں نندنہ کا مطلب ’’بیٹا‘‘ ہے اس قلعے کا نام اِندرَ دیوتا کے دیو مالائی باغ کے نام پر رکھا گیا ہے۔

البیرونی کی چھڑی
البیرونی نے اسی مقام پر کھڑے ہو کر ہاتھ کی ایک چھڑی کے ذریعے پورے کرۂ ارض کا قطر ماپا تھا۔

کٹاس راج مندر: چکوال میں چوآسیدن شاہ کے قریب کٹاس نامی گاؤں میں ہے۔ مندر دیوتا شیو جی سے منسوب ہے۔ اس کی قدامت کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ یہ کوروؤں اور پانڈوؤں یعنی مہا بھارت کے عہد میں بھی موجود تھا۔ بعد کے زمانوں میں بڑے مندر کے اردگرد چھوٹے مندر بھی بنائے گئے ہیں تاہم ان کی قدامتیں بھی نو سو سال اور اس سے بھی زیادہ ہیں۔

یہاں سے ہندو شاہیہ عہد (650-950 عیسوی) کے دو مندروں کے آثار بھی ملے ہیں۔ ہندو اور دیگر غیر مسلم عقائد کے لوگوں کے لیے یہ ایک مقدس مقام ہے، ہندو عقیدے کے مطابق بعض مخصوص تہواروں پر اس کے تالاب میں غسل کرنے سے گناہ دھل جاتے ہیں، یہاں کے ہندوؤں نے تقسیم کے موقع پر نقل مکانی نہیں کی۔ تاحال یہ ہی سمجھا جاتا رہا کہ اس تالاب کی گہرائی پاتال تک ہے۔ اس مندر کے نواح میں ایک نا معقول اور بے

سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنائی گئی سیمنٹ فیکٹریوں کے باعث اس تالاب کا پانی کم ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان اس مقام کو عالمی ورثے کے لیے نام زد کرانے پر غور کر رہی ہے، اللّٰہ جانے کب تک غور و خوض سے برآمد ہوگی۔

اشک بنے تالاب
اس مندر سے بہت سی دیو مالائیں وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر پانڈَوَ بھائیوں نے اپنی جلا وطنی کے 14 برسوں میں سے چار برس یہاں گزارے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ یہاں یڈھشٹر کے بھائیوں کو ایک یَکشَ (عِفریت) نے مار ڈالا تھا لیکن اس نے اپنی دانش کے بل پر اس نے یکش کو شکست دے کر اپنے بھائی زندہ کر لیے تھے۔ ایک اور کہانی یہ ہے کہ جب شیوجی مہاراج کی پتنی ستی (پاروتی دیوی) کو موت نے آ لیا تو وہ اتنا روئے کہ اس سے دو تالاب بن گئے، ایک اجمیر میں اور دوسرا کٹاکشا میں، جو اب کٹاس کہلاتا ہے۔ کٹاکشا کے معنی ہیں برستی آنکھیں۔ ایک اور روایت کے مطابق دوسرا تالاب اجمیر نہیں، نینی تال میں بنا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شیوجی کی پتنی نہیں بل کہ ان کا گھوڑا مرا تھا جس پر وہ بے طرح روئے۔

قلعہ پھر والا: بھی ایک تاریخی قلعہ ہے۔ اسے گکھڑوں نے پندرہویں صدی میں کہوٹہ میں تعمیر کرایا تھا۔ مغل شہنشاہ بابر نے اسے 1519 میں فتح کرکے گکھڑوں سے چھینا لیکن بعد میں تعلقات بہتر ہونے پر اس نے اِسے گکھڑوں کو لوٹا دیا گیا۔ 1825 میں سکھوں نے یہاں کے اصل باشندوں سے قلعہ خالی کروایا۔ آج کل اس قلعے میں کیانی گکھڑوں کی ایک چھوٹی سی آبادی ہے۔ یہ قلعہ، رسائی کے لیے سڑک اور روشنی کے لیے بجلی سے محروم ہے۔ اس کے اندر ایک خاصا قدیم بنیان (پھگواڑی) کا درخت اپنے اندر زمانوں کے اسرار لیے ہوئے ہے۔

راول پنڈی
کراچی، لاہور اور فیصل آباد کے بعد آج سب سے بڑا شہر راول پنڈی قرار پاتا ہے۔ 1960 سے پہلے یہ شہر ایک لاکھ 80 ہزار کی آبادی رکھتا تھا اور ملتان و حیدر آباد سے کہیں چھوٹا تھا۔ 1959 میں جب ملک کا دارالحکومت کراچی سے منتقل کرکے یہاں لایا گیا تو اس نے ہاتھ پاؤں پھیلانے شروع کیے، اب نامِ خدا یہ 45 لاکھ آبادی سے کچھ اوپر کا شہر ہے۔ پھیلاؤ اس کا 108.8 مربع کلومیٹر پر ہے۔ شہر سے محبت کرنے والے دانش وروں کا کہنا ہے کہ اس کا پھیلاؤ غیر فطری ہے اسے شمال کی طرف پھیلنا چاہیے تھا لیکن شمال اسلام آباد نے ہتھیا لیاہے، ایسا نہ ہوتا تو یہ شہر ’’شہرِ بے مثال‘‘ ہوتا۔

راول پنڈی، لاہور سے شمال مغرب کی سمت کوئی 170 میل (275 کلومیٹر) کے فاصلے پر حسین مارگلہ کے دامن میں واقع ہے۔ شمال کو جانے والے تمام سیاحوں کو یہاں آنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ مال و اسباب سے لدے پھندے یہاں کے بازار بھی خریداروں کے لیے پرکشش ہیں۔ یہاں کے نواح میں پھیلے آثارِ قدیمہ اور پارک بھی دل کشی کا سامان رکھتے ہیں۔ یہاں متعدد صنعتیں ہیں، اسلام آباد کا بین الاقوامی ہوائی اڈا دراصل راول پنڈی ہی میں ہے، اس کے علاوہ عساکر پاکستان کا ہیڈ کوارٹر بھی اسی شہر میں واقع ہے۔

تاریخ: یہ شہر اور اس کی آبادی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لاکھوں سال پہلے بھی یہاں انسان آباد تھے۔ یہاں کے نواح سے ملنے والا پہلا مکمل انسانی ڈھانچہ کوئی 5 لاکھ سال پرانا ہے اور دریائے سواں کی گزرگاہوں کے اطراف سے ملنے والے حیوانوں کے محجر اعضاء تو اس سے بھی قدیم تر ہیں۔ ان عظیم الجثہ اعضاء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ڈائینو سارز کی اقلیم بھی رہی ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ ؑ سے کوئی ایک ہزار برس قبل یہاں ایک بہت ہی خوب صورت اور باوقار ثقافت موجود تھی۔ موجودہ شہر کے ہم سائے میں بسے ٹیکسلا کی بُودھ ثقافت اور ویدی تمدن سے کون آگاہ نہیں، یہ حقیقت تو اب گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی زینت بن چکی ہے کہ دنیا کی سب سے قدیم یونی ورسٹی ٹاکشاشیلا اسی شہر کے نواح میں تھی۔

سرالیگزینڈر کننگہم نے یہاں چھاؤنی علاقے میں بھٹی راج کے قدیم دارالحکومت گنجی پور یا گجنی پور کے آثار کی تصدیق کی ہے، اُس عہد کے سکے بھی یہاں سے ملے ہیں۔ اُس عہد کے پنڈی کو چودھویں صدی عیسوی میں منگولوں نے اپنی بربریت سے ویرانہ کر دیا تھا، ’’سفید ہن‘‘ قوم نے بھی اسے تاراج کیا۔ ایک زمانے تک یہ علاقہ آسیب زدہ کھنڈروں کی طرح پڑا رہا حتیٰ کہ محمود غزنوی (979-1030) نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو اسے ایک گکھڑ سردار کائی گوہر کے حوالے کردیا۔

اس نے اسے بسایا تو، لیکن حملہ آوروں کی گزرگاہ پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ بھرپور انداز میں کبھی آباد نہ ہو پایا البتہ ایک اور گکھڑ سردار جھنڈا خان نے 1493 میں اسے آباد کرنے کی کوشش کی اور راول نامی ایک گاؤں کے نام پر اس کا نام راول پنڈی رکھ دیا۔ پنڈی کا مطلب مقامی زبان میں چھوٹا گاؤں ہے۔ گکھڑوں نے یہاں سکھوں کے آنے تک حکومت کی۔ آخری گکھڑ سردار اس کا مقرب خان تھا، جس نے 1765 میں سکھ جرنیل سردار مِلکا سنگھ کے خلاف سخت مزاحمت کی لیکن ہار گیا۔ سردار ملکا نے اس میں جہلم اور شاہ پور وغیرہ سے تاجروں اور سوداگروں کو لا کر آباد کیا، 1818 میں اسے مہاراجا رنجیت سنگھ نے اپنے راج کا حصہ بنالیا۔

1849 میں راول پنڈی پر انگریز قابض ہو گئے۔ انہوں نے اس کا محلِ وقوع انتہائی اہم پایا تو لارڈ ڈِل ہوزی نے یہاں برطانوی فوج کا ایک مستقل گیریژن 1851 میں قائم کر دیا۔ اس کے بعد اپنی فوجی ترسیلات اور ضروریات کے لیے انیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں یہاں ریلوے لائن بچھوانا شروع کی جس کا افتتاح یکم اکتوبر 1880 کو ہوا۔ اس سے شمالی کمان کے ہیڈ کوارٹر کو تقویت ملی اور دوسرے یہ شہر برصغیربھر کا سب سے بڑا انگریزی عسکری گیریژن بن گیا۔ انگریزی تسلط کے زیادہ استحکام کے لیے جب یہاں سیکنڈ راول پنڈی ڈویژن فروکش ہوا تو یہ کنٹونمنٹ بن گیا اور ریلوے لائن کو پشاور تک بڑھا دیا گیا۔

اس سے ’’شہر‘‘ کی وسعت میں اضافہ ہونے لگا اور اس کی تجارتی اہمیت بھی بڑھنے لگی۔ میونسپلٹی 1867 میں قائم کی گئی۔ ریکارڈ پر اس کی آبادی 1981 میں 40 ہزار 611 افراد تھی جس کے باعث یہ ملک کا سب سے بڑا کنٹونمنٹ قرار پایا۔ 1902-3 میں ’’دس سالے‘‘ کی تکمیل پر اس کی آمدنی اور اخرجات کا تخمینہ بالترتیب ایک لاکھ 80 ہزار اور دو لاکھ 10 ہزار روپے تھا۔ آمدنی زیادہ تر میونسپل درآمدات (Octroi) پر مشتمل تھی جو لگ بھگ ایک لاکھ 60 ہزار روپے تھی۔ یہ آمدنی انتظامیہ کی تنخواہوں (35 ہزار روپے) صفائی ستھرائی (27 ہزار روپے)، اسپتال، ڈسپنسریوں (25000 روپے)، عوامی کاموں (9 ہزار روپے) اور عوامی حفاظت پر (17 ہزار روپے) پر صرف کی جاتی تھی۔

1883 میں یہاں اسلحہ خانہ قائم کر دیا گیا جس سے یہ انگریزی طاقت کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔ 1901 میں یہ شمالی کمان اور راول پنڈی ملٹری ڈویژن کا سرمائی ہیڈ کوارٹر تھا۔ یہاں چھے رجمنٹیں رکھی گئی تھیں، جن میں گورے اور مقامی (ہندوستانی) دونوں شامل تھے۔

مہذّب گورے
حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ گوری چمڑی والی مہذب قوم ہندوستانی فوجیوں پر زہریلی گیس کے تجربات بھی یہیں کیا کرتے تھے۔

تحریک پاکستان کے دوران یہاں کی مسلم اکثریت نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ ’’آزادی‘‘ کے بعد یہاں سے سکھ اور ہندو بھارت منتقل ہو گئے اور ان کی جگہ سرحد پار سے آنے والے مہاجرین نے لے لی۔ ان کے بعد پختون اور کشمیری بھی ادھر ہی کا رخ کرنے لگے۔ پھر یوں ہوا کہ 1959 میں اس شہر کو آمر جنرل ایوب خان نے ملک کا عبوری صدر مقام قرار دے دیا اور اس کے سب سے خوب صورت مناظر، جھیلوں، چشموں اور حسین پہاڑوں سے مزین خطے پر اسلام آباد کھڑا کرنے کا آغاز ہو گیا۔ اس سے ملک اور دنیا بھر میں راول پنڈی کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ سابق دارالحکومت کراچی سے دفاتر یہاں منتقل ہونا شروع ہوئے اور آبادی میں اضافہ بھی تیزی سے بڑھا۔

جہاں یہ شہر مذکورہ حوالوں سے اہم قرار پاتا ہے وہاں قیام پاکستان کے آغاز ہی سے یہاں کچھ سیاسی المیے بھی رونما ہونا شروع ہوئے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو یہاں کے معروف کمپنی باغ میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ اس سانحے کی یاد میں کمپنی باغ کا نام لیاقت باغ پڑ گیا۔ اس کے بعد 27 دسمبر 2007 کے دن اسی باغ کے ایک دروازے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو گولی مار کر شہید کیا گیا، ان سے پہلے ان کے والد سابق وزیراعظم اور پاکستان کے مقبول ترین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اسی شہر میں ایک آمر نے شہید کیا۔


موسم: یہاں کا سچ مچ نامعتبر ہوتا ہے۔ گرمیوں میں خاصی گرمی پڑتی ہے، درجۂ حرارت کا بلند ترین ریکارڈ 47 سینٹی گریڈ تک بھی ہے۔ سردیوں میں اکثر 4 سینٹی گریڈ رہتا ہے تاہم منفی سے نیچے جانے سے کبھی گریز نہیں کرتا۔ گرمی کے موسم میں برسات کا موسم زیادہ طویل نہیں ہوتا تاہم بادلوں کی گرج اور چمک بہت ہوتی ہے اور بعض اوقات ہیبت ناک حد تک گرجیلی، کہیں کہیں بجلی بھی گرتی ہے۔

صنعت: انڈسٹریز اینڈ منرل ڈیویلپمنٹ پنجاب کے ڈائریکٹوریٹ کی شماریات کے مطابق ضلع میں 939 صنعتی یونٹ سرگرم ہیں۔ نجی شعبے نے اس حوالے سے خاصا کام کیا ہے البتہ صنعتوں کی یہ تعداد اتنے بڑے ضلع کے لیے ناکافی ہے۔ ان صنعتوں میں محض 35 ہزار افراد کام کرتے ہیں جب کہ مہارت یافتہ افرادی قوت کی یہاں فراوانی ہے، یہاں کے ادارے ہر سال 1974 ماہرین اور ہنر مند فراہم کر رہے ہیں۔

یہاں کا سٹی صدر روڈ (جناح روڈ) شہر کی معروف ترین مارکیٹ ہے بل کہ اسے شمالی پاکستان کا تجارتی ہیڈ کوارٹر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں روزانہ ایک ارب روپے کا لین دین ہوتا ہے، چند فرلانگ کی اس سڑک پر 9 بنک ہیں اور مزید بھی دکان سجانے کی فکر میں ہیں۔

ضلع کی تقسیم: 8 تحصیلوں پرہے جن میں گوجر خان، پوٹھوہار (جنوبی راول پنڈی)، راول (شمالی راول پنڈی)، ٹیکسلا، کلرسیداں، کہوٹہ، کوٹلی ستیاں اور مری شامل ہیں۔
یہاں کا مری روڈ خاصی شہرت کا حامل ہے۔ اکثر جلسے، جلوس، مظاہرے اور ہلے گلے اسی سڑک پر ہوتے ہیں۔ سیاست باز اکثر اسی سڑک کو زد پر لے کر شہربھر کو پریشان کیے رکھتے ہیں۔
نالہ لئی: ایک زمانے میں اس شہر کا حسن تھا، اس کا پانی منرل واٹر کی خصوصیات رکھتا تھا، پیا جاتا تھا لیکن اللہ ہدایت فرمائے مالکان سیاہ و سفید کو، کہ اب یہ گندے نالے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ یہ نالہ آگے چل کر دریائے سواں میں گرتا ہے اور ’’جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد‘‘ کے مصداق سواں بھی اس کا ہم شکل ہوتا جاتا ہے۔

آزادی کے بعد ترقی کی رفتار کچھ یوں بڑھائی گئی کہ سڑکوں کے تاریخی نام تبدیل کر دیے گئے، ڈل ہوزی روڈ، کشمیر روڈ کردیاگیا، لارنس روڈ، حیدر روڈ بنادیا گیا، ایڈورڈ روڈ، بنک روڈ میں بدلا گیا، مشن روڈ، اسپتال روڈ اور نہرو روڈ کا نام جناح روڈ رکھ دیا گیا، ناموں کی تقدیس کے باعث انہیں کم کم ہی چھوأ جاتا ہے۔

شہر کے ایک طرف تو اسلام آباد وجود میں آیا، باقی تینوں سمتوں میں بھی آبادیاں بن رہی ہیں جن میں پاک پی ڈبلیو ڈی، کورنگ ٹاؤن، غوری ٹاؤن، جوڈیشل ٹاؤن، بحریہ ٹاؤن، کشمیر ہاؤسنگ سوسائٹی، دانیال ٹاؤن، الحرم سٹی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ بحریہ ٹاؤن ایشیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ کالونی سمجھی جاتی ہے۔
عسکری صدر مقام: راول پنڈی نو آبادیاتی دور ہی سے آرمی ہیڈ کوارٹر رہا ہے اور اس کی یہ حیثیت اب بھی قائم بل کہ پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ یہاں پاکستان آرمی میوزیم ہے جس میں انگریزی عہد سے لے کرتاحال کی تسلیحاتی تاریخ کا پتا چلتاہے۔
بازار: راجا بازار یہاں کا قدیم بازار ہے، قریب ہی موتی بازار ہے، جہاں خواتین خریداری کے لیے اکثر جاتی ہیں۔ تھوڑے سے فاصلے پر چائنا مارکیٹ ہے جسے اللّٰہ جانے ’’چائنہ مارکیٹ‘‘ کیوں لکھا جاتا ہے۔ راجہ بازار سے صرافہ بازار، اردو بازار اور دوسری طرف جامع مسجد روڈ کی طرف راستہ نکلتا ہے۔ یہاں سے گنج منڈی، غلہ منڈی وغیرہ کو بھی راہ ہے، ڈنگی کھوئی بھی اسی نواح میں ہے۔

صدر چوں کہ گوروں نے اپنے لیے تعمیر کرایا تھا لہٰذا وہ شہر کے مقابل خاصا کشادہ اور نسبتاً صاف ستھرا ہے، یہاں اب بہت سے پلازے اور شاپنگ سنٹر بن چکے ہیں۔ شہر کے محلوں کے نام دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شہر میں تقسیم سے قبل سکھوں کی آبادی زیادہ تھی اور وہ دوسروں کی نسبت زیادہ خوش حال تھے، مثلاً کرتار پورہ، اکال گڑھ، باغ سرداراں، موہن پورہ، مکھا سنگھ اسٹیٹ، یہ علاقے شہرکے باقی حصوں کی نسبت زیادہ صاف ستھرے تھے اور اب بھی بہتر حالت میں ہیں۔

صرافہ بازار سے گزریں تو آپ بھابڑا بازار میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ علاقہ جین مت کے پیروکاروں کا تھا۔ جین مت، بودھوں کی طرح جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر زور دیتا ہے بل کہ جینی اُس مخلوق کو بھی تکلیف دینے سے گریز کرتے ہیں جو انسانی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتی، اسی لیے وہ اپنے مکان اور گلیاں تنگ و تاریک رکھا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ لوگ شہر میں ننگے پاؤں پھرا کرتے تھے تاکہ کیڑے مکوڑے محفوظ رہیں۔ بھابڑا بازار کی گلیاں ایسی ہیں کہ دو آدمی کندھے سے کندھا بھڑا کر نہیں چل سکتے، شائستہ لوگ گلی کے سرے پر رک کر اُدھر سے آنے والے کے گزرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ان ہی گلیوں میں سجان سنگھ کی پراسرار حویلی بھی ہے۔ یہ عمارت اس وقت بہت برے حالات میں ہے اور اپنے پرانے مکینوں کے سوگ میں گھل گھل کر ڈھیتی جارہی ہے، اسی طرح باغ سرداراں کا گوردوارہ بھی اجڑ چکا ہے، صرافہ بازار کا پرانا قلعہ تو پہچانا ہی نہیں جاتا کہ کسی زمانے میں یہ کوئی پروقار عمارت تھی، اب اس کے صدر دروازے کے سامنے کپڑے سینے والوں اور زردوزوں کا بازار ہے، یہاں دن بھر خواتین کی گہماگہمی رہتی ہے۔ صدر میں واقع سجان سنگھ بلڈنگ اب فاطمہ جناح یونی ورسٹی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فاطمہ جناح یونی ورسٹی بھابڑا بازار کی حویلی سجان سنگھ اور باغ سرداراں کے درمیان زیر زمین سرنگی رابطے تھے، واللّٰہ اعلم۔

راول پنڈی میں نیشنل پارک (ٹوپی رک) اور جناح پارک اچھی سیرگاہیں ہیں۔ نیشنل پارک البتہ مسلسل سکڑ رہا ہے۔ ان کے علاوہ بھی اس شہر میں طرز تعمیر کے خوب صورت نمونے موجود ہیں۔ ان میں جین مندر، گورڈن کالج، حضرت سخی شاہ چن چراغ، شاہ میراں مصطفیٰ، حضرتِ پیر مہر علی شاہ اور شاہ شریف بادشاہ کے مزارات، رومی باغ، آرمی ریس کورس گراؤنڈ، چلڈرن پارک، 502 ورکشاپ پارک، روز اینڈ جسمین گارڈن اور تکونا باغ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اس شہر میں بہت کچھ دیدنی تھا جو اب نہیں رہا۔ شہر میں قصائی گلی کے قریب سرخ اینٹوں کاایک مندر ہے جس میں قدیم مصوری کے نمونے تھے تاہم بے قدروں نے اس پر رنگ پھیر کر ناپید کر دیا ہے، جین مندر ، ڈنگی کھوئی، بنی کا بن وغیرہ سب آہستہ آہستہ تجاہل عارفانہ کی زد پر ہیں۔ بے حسی کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ مہاراجا پونچھ کی عمارت اپنے طرز تعمیر کے حوالے سے دیکھنے کی چیز تھی لیکن اسے گرا کر اس پر کمرشل پلازہ بنا دیا گیا ہے۔

اسلام آباد کو پنڈی وال اب بھی اپنے شہر کی ذیل سمجھتے ہیں، یہ شہر بلاشبہ دیدنی ہے۔ ہائی وے سے شہر میں داخل ہوں تو شکر پڑیاں کی پہاڑی آتی ہے جس پر ایک خوب صورت ’مونیومنٹ‘ ہے، سڑک کی سیدھ میں دیکھیے تو سامنے پہاڑوں کے دامن میں ترک فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ’فیصل مسجد‘ ہے، اوپر پہاڑوں پر دامنِ کوہ ہے، مارگلہ کے دامن میں سیدپور ماڈل ویلیج ہے، مختلف پارک ہیں، راول ڈیم بھی قابلِ دید ہے۔ بری امام سرکار کے مزار کا شان دار کمپلکس زیرِتعمیر ہے تاہم کام کی رفتارسست ہے، اس کے عقب میں پہاڑ پر ’’لوئے دندی‘‘ ہے جہاں کچھ پراسرار مناظر ہیں۔ اسی طرح حسن ابدال کے قریب ’’پنجہ صاحب‘‘ کا گوردوارہ، بابا ولی قندھاری یا بابا حسن ابدال کی بیٹھک اور مغلیہ دور کا ایک بہت ہی خوب صورت باغ جس میں ایک نامعلوم شہزادی لالہ رخ کا مزار بھی ہے۔ ٹیکسلا کا میوزیم دنیابھر میں شہرت رکھتا ہے، المیہ یہ ہے کہ یہاں سے قیام پاکستان کے بعد بہت کچھ غایب ہو چکا ہے اور ذرائع کے مطابق یہ سلسلہ جاری ہے۔

یہاں کی موسیقی کا بھی ایک منفرد انگ ہے، اکثر کھلی جگہ پر محفل برپا کی جاتی ہے جس میں مٹی کے گھڑے پر تال دے کر صوفیانہ بیت ایک ایسی لے میں گائے جاتے ہیں جس کی کسی دوسرے علاقے میں کوئی مثال نہیں، ان بیتوں میں دنیا کی بے ثباتی ، عبرت کا درس دیا جاتا ہے اور محبوب کا استعارہ نفاست کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے اس کے علاوہ یہاں کا رقص ’’سمی‘‘ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں مرد ہی رنگا رنگ لباس پہن ، سروں پر کلف دار شملے (خاس قسم کی پگڑی) باندھ کر ’’سَمی میری وار، میں واری، میں واریاں نی سَمیے!‘‘ گاتے ہوئے ایک خاص ادا سے ناچتے ہیں۔ بیت بازی کے فی البدیہ مشاعرے بھی یہان کی ثقافت کا حصہ رہے ہیں، سائیں پشوری یہاں کے عظیم بیت باز تھے جو قیامِ پاکستان کے قریب قریب ہی فوت ہوئے، ان کے بیت پوٹھوہاری اور پنجابی ادب کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ پوٹھوہار پر افضل پرویز، عزیز ملک اور رشید نثار (مرحومین) نے بہت اچھا کام کیا ہے، خاص طور پر جنابِ عزیز ملک کی ’’راول دیس‘‘ انشاء پردازی کی بہترین مثال ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔