اسٹیفن ہاکنگ کی تھیوریز

 جمعرات 15 مارچ 2018
2015میں اسٹیفن ہاکنگ نے بلیک ہولز کے بارے میں اپنا نیا نظریہ پیش کیا۔ فوٹو : فائل

2015میں اسٹیفن ہاکنگ نے بلیک ہولز کے بارے میں اپنا نیا نظریہ پیش کیا۔ فوٹو : فائل

اسٹیفن ہاکنگ نے کائنات کے حوالے سے بہت سی تھیوریز پیش کیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

٭وقت میں سفر کس طرح ممکن؟
اپنی موت سے کچھ سال قبل انہوں نے ڈسکوری چینل پر وقت کے سفر کے بارے میں اپنے نظریے کو کھُل کر بیان کیا تھا، جس میں انہوں نے ماضی یا مستقبل میں سفر کرنے کی انسانی صلاحیت کا اجمالی جائزہ پیش کیا تھا۔ مستقبل میں سفر کے طریقۂ کار کو اسٹیفن ہاکنگ نے کچھ اس طرح بیان کیا تھا،’’وقت میں سفر کے لیے ہمیں وقت کو ایک ماہرطبیعات کی نظر سے چوتھی سمت کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ ہم سب اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ تمام مادی اجسام سمت لمبائی، چوڑائی اور اونچائی پر مشتمل ہوتے ہیں، لیکن ان تین کے علاوہ ایک چوتھی سمت بھی ہے، جسے ’’وقت‘‘ کہتے ہیں۔

ایک انسان کی زندگی اسی نوے سال ہوسکتی ہے، Stonehenge (سیدھے کھڑے ہوئے تاریخی پتھر) ہزاروں سال سے موجود ہیں، نظام شمسی اور اس کے گرد گھومنے والے ستارے، سیارے اربوں سال پرانے ہیں۔ ہر مادی اجسام کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی کے علاوہ وقت یعنی چوتھی سمت میں بھی لمبائی ہوتی ہے۔ وقت میں سفر کا مطلب اُس چوتھی سمت میں سفر کرنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک کار ایک ہی سمت میں چل رہی ہو تو اس کا سفر یک سمتی ہے، یعنی لمبائی میں، اگر وہ دائیں یا بائیں طرف مڑ جاتی ہے تو اس کے سفر میں دوسری سمت بھی شامل ہو جاتی ہے، یعنی لمبائی کے ساتھ چوڑائی بھی۔ کسی پُرپیچ پہاڑی راستے یا ڈھلان پر سفر کرنے سے اس میں تیسری سمت یعنی اونچائی، اُترائی بھی شامل ہو جائے گی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چوتھی سمت (وقت) میں سفر کا راستہ کیسے تلاش کیا جائے۔

اکثر سائنس فکشن فلموں میں عموماً ایک بڑی مشین دکھائی جاتی ہے جو چوتھی سمت یعنی راستہ یا سرنگ بناتی ہے۔ فلم کا ہیرواس مشین کے ذریعے سرنگ میں داخل ہوتا ہے اور وقت میں سفر کر کے کہیں اور نکل جاتا ہے۔ ہم جیسے ماہرطبیعات بھی ایسی ہی کسی سرنگ کے بارے میں غوروخوض کرتے ہیں۔ ہم یہی سوچتے ہیں کہ کیا طبیعات کے قوانین کی مدد سے ماضی یا مستقبل میں لے جانے والی سرنگوں کا وجود ممکن ہے یا نہیں؟ ماہرین نے ان سرنگوں کووورم ہولز کا نام دیا ہے۔

یہ ورم ہولز ہمارے اردگرد ہر جگہ موجود ہیں، لیکن ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے یہ ایک مشکل تصور ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی بھی چیز کو غور سے دیکھیں تو اس میں سوراخ نظر آئیں گے اور سطح غیرہموار محسوس ہوگی۔

یہ طبیعات کا بنیادی قانون ہے کہ کوئی بھی چیز مکمل طور پر ہموار یا ٹھوس نہیں ہوتی۔ یہی قانون وقت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ سطح کی غیرہمواری اور خالی جگہوں کا پہلی تین سمتوں (لمبائی، چوڑائی اور اونچائی) میں اندازہ کرنا آسان ہے، لیکن یقین کریں کہ یہ قانون چوتھی سمت یعنی وقت کے لیے بھی درست ہے۔ وقت میں بھی چھوٹی چھوٹی غیرہمواریاں، جُھرّیاں، اور خالی جگہیں ہیں۔ یہ سوراخ ایٹم سے بھی بہت چھوٹے ہیں۔ ان کی تلاش میں ہم کوانٹم فوگ تک پہنچ جاتے ہیں۔ کوانٹم فوگ ہی درحقیقت وہ جگہ ہے جہاں ورم ہولز پائے جاتے ہیں۔ یہی ہمارے وقت میں سفر کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ کوانٹم فوگ کی دنیا میں ورم ہولز مسلسل بنتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں۔ اور یہی دو مختلف جگہوں اور دو مختلف وقت کو آپ سے ملا سکتے ہیں۔

٭ورم ہولز کی تصوراتی تصویر
اسٹیفن ہاکنگ کے بہ قول حقیقی زندگی کے یہ ورم ہول (سیاح سرنگ) بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں جنہیں انسانی آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم کچھ سائنس دانوں کو امید ہے کہ مستقبل میں توانائی اور جدید ٹیکنالوجی کی بدولت شاید کبھی کسی ورم ہول کو اتنا بڑا بنایا جاسکے کہ ان سے انسان یا کوئی خلائی جہاز گزر سکے۔

میں (اسٹیفن ہاکنگ) یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر ایسا کبھی ممکن ہوسکا تو یہ بہت شان دار ہوگا، کیوں کہ اس وورم ہول کا ایک کنارہ زمین کے نزدیک اور دوسرا بہت دور کسی اور سیارے پر ہوسکتا ہے اور جب ورم ہول کے دونوں سرے ایک ہی جگہ پر موجود ہوئے اور ان میں فرق صرف وقت کا ہوا تو پھر ہوسکتا ہے کہ اس ورم ہول کے ایک سرے سے داخل ہونے والا جہاز دوسری طرف نکلے تو وہ وقت ماضی کا ہو۔ ہوسکتا ہے وہ جہاز ہزاروں سال پرانے زمانے میں جا نکلے اور وہاں موجود ڈائینو سارز اس جہاز کو اترتے ہوئے دیکھیں۔

٭مصنوعی ذہانت انسانیت کو تباہی سے دوچار کرسکتی ہے
اسٹیفن ہاکنگ نے مصنوعی ذہانت کو انسانیت کا دشمن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نہ صرف انسانیت کی دشمن ثابت ہو گی بل کہ یہ بنی نوع انسان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ دسمبر 2014 کو اسٹیفن ہاکنگ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مصنوعی ذہانت کے انسانیت کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہونے کا امکان ظاہر کیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر کل کوئی کمپیوٹر خودمختار ہوکر مہلک وائرس بنالے اور دوسرے کمپیوٹرز کو بھی اپنے ماتحت کرلے تو پھر انسانوں کے لیے اس کا مقابلہ کرنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا، کیوں کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے والے کمپیوٹرز کے لیے ضابطۂ اخلاق اور کام کی حدود کا تعین کیسے کیا جائے گا۔ اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا تھا کہ اگر مصنوعی ذہانت نے انسانوں کا وجود ختم نہیں کیا تو پھر انسان خود ہی انسانیت کا خاتمہ کرسکتا ہے۔

اس بابت اُن کا کہنا تھا کہ انسان کے پُرتشدد رویے کا فائدہ اسے غاروں کے زمانے میں تھا جب اُسے خوراک کے حصول کے لیے پُرتشدد رویہ اپنانا پڑتا تھا، لیکن اب یہ رویہ ہمیں تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ایک اور انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ کرۂ ارض ایک ہزار سال میں ختم ہوجائے گی اور انسانوں کو اس عرصے میں کسی دوسرے سیارے پر سکونت اختیار کرنا ہوگی، ورنہ زمین سے نسل انسانی کا وجود ختم ہوجائے۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ ایک ہزار سال میں کسی دوسرے سیارے پر نئی دنیا آباد کرتا ہے یا خاموشی سے اپنی تباہی کا انتظار۔

٭ بلیک ہولز سے واپسی ممکن!
2015میں اسٹیفن ہاکنگ نے بلیک ہولز کے بارے میں اپنا نیا نظریہ پیش کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ بلیک ہول سے معلومات (انفارمیشن) باہر نکل سکتی ہیں، جب کہ اس سے قبل ان کا نظریہ تھا کہ بلیک ہول میں موجود بہت طاقت ور ثقلی قوت (گریویٹیشنل فورس) کی وجہ سے وہاں فزکس کے تمام قوانین بے اثر ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی شے بلیک ہول میں چلی جائے تو وہ وہاں سے واپس نہیں آسکتی اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی معلومات باہر نکل سکتی ہیں۔

سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں لیکچر دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر آپ خود کو بلیک ہول میں محسوس کریں تو حوصلہ نہ ہاریں، کیوںکہ میں نے اس کا ایک طریقہ تلاش کرلیا ہے، جس کے تحت بلیک ہول سے معلومات بھی باہر آسکتی ہیں اور آپ (انسان) بھی بلیک ہول سے باہر نکل سکتے ہیں۔ اس بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’بلیک ہول میں جانے والی شے پر دو طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں یا تو وہ شے کسی طرح ’’ہولوگرام‘‘ میں تبدیل ہوکر بلیک ہول کے کنارے پر رہ جائے گی یا پھر ٹوٹ کر کسی دوسری کائنات میں پہنچ جائے گی۔ اگر بلیک ہول بڑا اور گھومنے والا ہوا تو اس کے اندر موجود شے کے کسی دوسری کائنات میں پہنچ جانے کے امکانات موجود ہیں۔ لیکن اس صورت حال میں اُس شے کے کائنات میں واپس آنے کا راستہ رک جائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بلیک ہولزکو ’ابدی قید خانہ‘ سمجھنا درست نہیں۔

٭دنیا جہنم بن جائے گی
گذشتہ برس انھوں نے بیجنگ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایک کانفرنس ’’ٹینسنٹ ڈبلیو ای سمّٹ‘‘ سے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ دنیا آئندہ 600 سال میں اس قدر گرم ہوجائے گی کہ یہاں صرف انسان ہی نہیں بلکہ زندگی کی کسی بھی صورت کا زندہ رہنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ انھوں نے کہا انسانوں کو چاہیے کہ اس سے پہلے وہ سیارہ زمین کو چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہونے کی تیاری کرلیں۔ اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا تھا کہ دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور نتیجتاً توانائی کی طلب اور پیداوار میں مسلسل اضافے سے آلودگی بھی حد سے زیادہ بڑھ جائے گی جو بالآخر دنیا کی تباہی کی وجہ بنے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین سے دوسرے سب سے قریب ترین ستارے الفا سینٹوری کے کسی سیارے پر دنیا کے لوگوں کی رہائش کے لیے موزوں ماحول میسر آسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔