’’روبوٹ اوتار‘‘ کا تصور حقیقت میں بدل جائے گا

 جمعرات 15 مارچ 2018
دبئی جیسی ریاستوں میں بھی روبوٹوں کا مختلف مقاصد کے لیے استعمال تیزی سے عام ہوتا جارہا ہے۔ فوٹو : فائل

دبئی جیسی ریاستوں میں بھی روبوٹوں کا مختلف مقاصد کے لیے استعمال تیزی سے عام ہوتا جارہا ہے۔ فوٹو : فائل

مشہور زمانہ فلم Avatar  سے تو آپ یقیناً لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ اس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک سیارے پر انسان سے مشابہ مخلوق موجود ہوتی ہے۔ یہ دراصل زمین پر موجود انسانوں کے ’ اوتار‘ ہوتے ہیں۔ ان کا اپنے اپنے انسانی جسم سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے۔ اگر اوتار کو کوئی جسمانی تکلیف پہنچتی ہے تو زمین پر موجود انسانی جسم اسے محسوس کرتا ہے۔ کچھ یہی تصور Matrix سیریز کی فلموں میں پیش کیا گیا تھا۔

سائنس دانوں اور سرمایہ داروں نے اس تصور کو حقیقت کا رُوپ دینے کی ٹھان لی ہے۔ ان فلموں میں انسانی کرداروں کے اوتار ورچوئل تھے، مگر حقیقی زندگی میں انسانوں کے اوتار بھی حقیقی یعنی مادّی ہوں گے۔ دراصل سائنس داں روبوٹوں کو انسانی اوتار میں بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ انسان اور اس مشین کے درمیان ایسا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں کہ روبوٹ انسان کی مرضی اور سوچ کے مطابق حرکت کریں، اور انسان ان کے ذریعے دیکھیں، بولیں، سُنیں اور محسوس کریں۔ یعنی انسان اپنے روبوٹ سے سیکڑوں میل دور بیٹھ کر اس کے ذریعے کسی جگہ موجود رہ سکے گا۔ بہ الفاظ دیگر اس کی ’روح ‘ روبوٹ میں ’ حلول‘ کرجائے گی۔

ایکس پرائز فاؤنڈیشن ایک تنظیم ہے جو جدید سائنسی منصوبوں کے لیے مقابلے کا انعقاد کرواتی ہے اور پھر جیتنے والی ٹیم کو وہ منصوبہ تفویض کردیا جاتا ہے اور اس منصوبے کے لیے مختص کردہ رقم بھی دے دی جاتی ہے۔ اس حیران کُن منصوبے کے لیے فاؤنڈیشن نے ایک کروڑ ڈالر کی خطیر رقم مختص کی ہے۔ یہ رقم اس ٹیم کو دی جائے گی جو محض چار برس کے عرصے میں روبوٹ اوتار تیار کرلائے گی۔ اس منصوبے کو گوگل، آئی بی ایم سمیت صف اول کی ٹیکنالوجی کمپنیاں اسپانسر کررہی ہیں۔ منصوبے کی کام یابی کے لیے شرط یہ رکھی گئی ہے کہ روبوٹ اوتار ایک سو کلومیٹر کی دوری سے دیے گئے اہداف پورے کرسکتا ہو۔ یعنی انسان اپنے روبوٹ اوتار سے سو کلومیٹر کی دوری پر بیٹھ کر اسے آپریٹ کرسکتا ہو، اور اس کے ذریعے دیکھ، سُن اور محسوس کرسکتا ہو۔

ایکس پرائز فاؤنڈیشن کے بانی پیٹرڈایامینڈس کہتے ہیں کہ اس مقابلے میں حصہ لینے کی خواہش مند ٹیموں کے لیے وہ تمام ٹیکنالوجیز پہلے ہی موجود ہیں جن سے کام لیتے ہوئے وہ روبوٹ اوتار تیار کرسکتی ہیں۔ ان ٹیکنالوجیز میں ورچوئل ریئلٹی، آرٹیفشل انٹیلی جنس، لمس کے ذریعے انتقال جذبات کی ٹیکنالوجی اور روبوٹ سازی کی ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ ٹیلی پریزینس روبوٹس جیسی مشیوں میں ان ٹیکنالوجیز کا ادغام بھی کیا جاچکا ہے۔

اب ذرا تصور کیجیے کہ روبوٹ اوتار کا استعمال کیا ہوسکتا ہے اور یہ کیسے انسان کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ دبئی جیسی ریاستوں میں بھی روبوٹوں کا مختلف مقاصد کے لیے استعمال تیزی سے عام ہوتا جارہا ہے۔ یہ خودکار مشینیں وہاں امور کی انجام دہی کے لیے استعمال کی جارہی ہیں۔

عام گھریلوں کاموں سے لے کر ڈاکٹروں کے معاونین، ریستورانو ں میں ویٹر اور ٹریفک کنٹرول کرنے تک ان سے مختلف خدمات لی جارہی ہیں۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ سڑک پر حادثہ ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ زخمی ہوجاتے ہیں۔ اطراف سے لوگ دوڑ کر وہاں پہنچتے ہیں اور زخمیوں کو گاڑی میں سے باہر نکالتے ہیں، لیکن ان لوگوں میں کوئی ڈاکٹر یا نرس نہیں ہے جو زخمیوں کو فوری طبی امداد پہنچا سکے۔ اب لب سڑک ایک عمارت کی دیوار کے ساتھ ایک روبوٹ اوتار موجود ہے۔

اس حادثے کی خبر فوری طور پر نشر کی جاتی ہے اور درخواست کی جاتی ہے اگر کوئی ڈاکٹر خبر سُن یا دیکھ رہا ہے تو فوراً اوتار کے ذریعے جائے حادثہ پر پہنچے اور زخمیوں کی مدد کرے۔ ایک ڈاکٹر مخصوص مرکزی نظام کے ذریعے اس روبوٹ اوتار میں ’ داخل ‘ ہوجاتا ہے یعنی اس پر قبضہ جمالیتا ہے۔ اوتار  کی گردن پر چہرے کے بجائے ایک اسکرین ہوگی جس پر اس ڈاکٹر کی صورت نظر آرہی ہوگی۔ وہ اپنے اوتار کو چلاتا ہوا فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچ جائے گا اور زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد دینے میں مصروف ہوجائے گا۔ اوتار کے ذریعے ڈاکٹر ہر وہ کام بہ آسانی سرانجام دے سکے گا جو خود وہاں موجود رہتے ہوئے انجام دیتا۔

اسی طرح کسی عمارت میں آگ لگ جانے کی صورت میں اندر پھنسے ہوئے افراد کو بہ حفاظت نکالا جاسکے گا۔ سیکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھ کر کسی تقریب میں شرکت بھی ممکن ہوجائے گی۔ انسان ان کے ذریعے سفر کرسکیں گے اور بھی بہت سے معاملات انجام دیے جاسکیں گے۔ ایکس پرائز نے ٹیموں کے لیے اپنے اپنے پروجیکٹس جمع کروانے کی آخری تاریخ اکیس اکتوبر 2021ء مقرر کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔