قانون اور انصاف کے تقاضے

ہماری عدالت عظمیٰ نے برسراقتدار اعلیٰ سطح کی اشرافیہ کے خلاف بے جگری سے ڈنڈا اٹھایا ہے۔


Zaheer Akhter Bedari March 29, 2018
[email protected]

کسی بھی ملک، کسی بھی معاشرے میں امن وامان برقرار رکھنے اور نظم وضبط قائم کرنے کے لیے قانون اور انصاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماضی بعید میں شاہانہ نظام حکومت میں نہ آج کے جیسے ماڈرن قانون اور انصاف کے ادارے تھے نہ قانون دان تھے، یا تو بادشاہ کی ذات ہی قانون اور انصاف کا مخزن ہوتی تھی یا پھر قاضی قانون اور انصاف کی ذمے داریاں پوری کرتے تھے لیکن ماڈرن دور میں قانون اور انصاف کے ماڈرن ادارے ہیں اور قانون اور انصاف کی ذمے داریاں پوری کررہے ہیں۔

یہ ذمے داریاں ترقی یافتہ ملکوں میں تو بڑی حد تک بحسن و خوبی انجام دی جارہی ہیں لیکن پسماندہ ملکوں خصوصاً پاکستان جیسے ملکوں میں قانون اور انصاف کی جو صورتحال ہے وہ اس قدر شرمناک ہے کہ قانون اور انصاف کے ان ماڈرن اداروں کے مقابلے میں شاہی دور کا ادارہ انصاف زیادہ موثر اور بامعنی دکھائی دیتا ہے۔

اس کی بڑی اور بنیادی وجہ کرپشن کا طوفان ہے جو قانون اور انصاف کے سارے نظام کو ادھر ادھر اڑائے لے جارہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس نظام میں ہر چیز خریدی اور بیچی جاتی ہے خواہ وہ دین و ایمان ہوں یا خودداری اور ضمیر ہوں، ہر چیز خریدی اور بیچی جاتی ہے۔

اگر ان خریدی اور بیچی جانے والی چیزوں میں قانون اور انصاف بھی شامل ہوجائیں تو پورا معاشرہ بدنظمی اور انارکی کا شکار ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے آج پاکستان اسی بدترین صورتحال سے گزر رہا ہے، ہر طرف ایک افراتفری اور انارکی کی صورتحال ہے۔ عام آدمی اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہورہاہے اور ناامیدی کا شکار ہے۔

کرپشن دنیا کی وہ لعنت ہے جو انسانی قدروں کو پامال کردیتی ہے۔ عام آدمی تو معمولی رشوت تک محدود رہتا ہے لیکن ہر ملک کے اعلیٰ طبقات یعنی اشرافیہ اربوں کھربوں کی کرپشن میں ملوث رہتی ہے اور انتہائی ڈھٹائی سے کرپشن کے الزامات کو دشمنی کہہ کر ایک طرف کرپشن سے انکار کرتی ہے تو دوسری طرف ان الزامات کو رد کرنے کے لیے عوامی طاقت کا استعمال کرتی ہے اور بے چارے سادہ لوح عوام اشرافیہ کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ اشرافیہ میں اتنی جان اور صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ بھاری کرپشن کے الزامات کا مقابلہ کرے۔

اس لیے دو حوالوں سے وہ کرپشن کے الزامات کا بڑی حد تک کامیابی سے مقابلہ کرلیتی ہے، ایک حوالہ قانون دانوں یعنی بڑے وکلا کا ہوتا ہے جو اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے سیاہ کو سفید، دن کو رات ثابت کردیتے ہیں۔ دوسرا حوالہ حکمرانوں کے مصاحبین کی وہ ماہر فوج ہے جو ہر محاذ پر اپنے آقاؤں کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کا کام انتہائی کامیابی سے کرتی ہے۔

ہماری عدالت عظمیٰ نے برسراقتدار اعلیٰ سطح کی اشرافیہ کے خلاف بے جگری سے ڈنڈا اٹھایا ہے اس کی کاری ضرب سے بچنے کے لیے جو جو سہارے لیے جارہے ہیں ان میں جمہوریت دشمنی کا ایک بہت ہی دلچسپ سہارا لیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اشرافیہ پر کرپشن کے الزامات کے پیچھے نادیدہ قوتوں کا ہاتھ ہے اور عدلیہ ان کا سہارا بن رہی ہے، اس حوالے سے عدلیہ کو اس طرح بے توقیر کیا جارہا ہے کہ توہین عدالت کی ساری حدیں پار کی جارہی ہیں اور بے چارے عوام حیرت سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے جرم خواہ کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو جرم ثابت ہونے تک ملزم کو بے گناہ اور معصوم ہی سمجھاجاتا ہے۔ ہماری اشرافیہ جو کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے کھلے عام چیلنج کررہی ہے کہ وہ بے گناہ ہے اسے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ اگر اس پر لگائے گئے الزامات صحیح ہیں تو اس کے ثبوت پیش کیے جائیں۔ یہ چیلنج قانونی بھی ہیں اور وزن دار بھی، اب فریق اول کی ذمے داری ہے کہ لگائے گئے الزامات کو ثابت کیا جائے کیونکہ جب تک الزام ثابت نہیں ہوجاتا ملزم کو بے گناہ اور معصوم ہی ماناجاتا ہے۔

دنیا بھر میں کرپشن کے ہنگاموں کا آغاز پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد ہوا۔ پاکستان میں اشرافیہ پر کرپشن کے الزامات کا سلسلہ بھی پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد ہی شروع ہوا۔ پاناما لیکس کے انکشافات کے مطابق ساری دنیا کے کرپٹ حضرات نے منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے لیے آف شور کمپنیاں قائم کیں۔ پاکستان کے کچھ زعما کے علاوہ کوئی 435 افراد ایسے ہیں جن کی آف شور کمپنیاں ہیں۔

اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ پاناما لیکس کے حوالے سے چند افراد کو ہی ملزم ٹھہرایا گیا ہے جب کہ 435 مرتکب افراد کے خلاف اب تک نہ کوئی کارروائی شروع کی گئی ہے، نہ کیسز قائم کیے گئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ 435 افراد کے خلاف کارروائی کے لیے عملہ دستیاب ہے نہ وسائل موجود ہیں لیکن جن لوگوں کے خلاف حوالوں سے ریفرنسز زیر سماعت ہیں ان کا اعتراض ہے کہ 435 ملزمان میں ان کا انتخاب دشمنی ہے۔

کوئی بھی ایماندار، محب وطن شخص کرپشن کے خلاف عدالت عظمیٰ کی کارروائی کو صرف کسی فرد، افراد، جماعت یا جماعتوں کے خاندان یا خاندانوں کے خلاف کارروائی کے تناظر میں نہیں دیکھتا بلکہ اس کرپشن زدہ معاشرے سے کرپشن کے خاتمے کی کوششوں کے تناظر میں دیکھتا ہے، کیونکہ ہمارا معاشرہ نچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کرپشن میں اس بری طرح لتھڑا ہوا ہے کہ اس کا چہرہ پہچاننا مشکل ہے۔ ایسی بدترین صورتحال میں کرپشن کے خلاف کسی طرف سے بھی کوئی ایماندارانہ اور غیر جانبدارانہ اقدامات شروع ہوتے ہیں تو قوم اس کی حمایت ہی کرے گی۔

اس حوالے سے ایک افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ کرپشن کے حالیہ واقعات نئے نہیں ہیں بلکہ ماضی میں بھی بڑی بڑی کرپشن کے الزامات بڑے بڑے لوگوں پر لگتے رہے ہیں جن میں دو وزرائے اعظم بھی شامل ہیں لیکن برسوں گزرنے کے باوجود ان کیسز کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔ انصاف میں تاخیر کو بھی نا انصافی کہا جاتا ہے۔

یہ اعلیٰ پائے کے لوگ ہیں، نچلے طبقات کے لاکھوں لوگ عشروں سے پیشیاں بھگت رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ باپ کے خلاف چلنے والا کیس بیٹوں اور پوتوں تک طول کھنچتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ پندرہ پندرہ سال جیل میں بند رہنے کے بعد ملزم کو بے گناہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہماری عدلیہ کو کرپشن کے خلاف کارروائیوں کے ساتھ انصاف میں تاخیر کے خلاف بھی ایک موثر مہم چلانا چاہیے کہ ملزم اور مجرم کے درمیان فاصلہ ختم ہو۔

مقبول خبریں