مقبوضہ کشمیر میں پھر بھارتی دہشت گردی

کیا بھارت اسی طرح کشمیریوں کا خون بہاتا رہے گا اور وہاں یونہی جنازے اٹھتے رہیں گے۔


Editorial April 03, 2018
کیا بھارت اسی طرح کشمیریوں کا خون بہاتا رہے گا اور وہاں یونہی جنازے اٹھتے رہیں گے۔ فوٹو:فائل

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 20 کشمیری نوجوان شہید جب کہ 100 سے زائد زخمی کر دیے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی قابض فوج نے شوپیاں کے علاقوں دراگڈ، کچ ڈورہ جب کہ اسلام آباد کے علاقے دیال گام میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران ان نوجوانوں کو شہید کیا۔

حریت قیادت نے اس المناک واقعہ پر پورے مقبوضہ کشمیر میں دو روزہ ہڑتال کی کال دی جس پر اتوار کو مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال کی گئی۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی شہادت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کے ہاتھوں معصوم کشمیریوں کی شہادت سے انسانی حقوق چارٹر مذاق بن گیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے ایک بیان میں کہا کہ یہ مقبوضہ کشمیر میں سفاک اور المناک دن ہے، قابض فورسز کے مظالم اور معصوم کشمیریوں کا قتل عام جاری ہے، بھارت نے انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیردیں اور کشمیرلہولہو ہے، اس اقدام سے بھارتی چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوگیا۔

بھارتی ریاستی تشدد کا غیرانسانی اور بدنما چہرہ سامنے آیا ہے جو کئی دہائیوں سے کشمیریوں کے خلاف ایسی بربریت پر مبنی کارروائیوں میں ملوث ہے، تاہم ایسی بدنما کارروائیوں کے باوجود کشمیری عوام کے عزم کو شکست نہیں دی جا سکی، پاکستان جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کرتا ہے۔

ہم عالمی برادری پر زور دیتے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اور بھارت پر اپنا اثرورسوخ قائم کرے تاکہ وہ ان شرمناک کارروائیوں کے کلچر کو بند کرے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، عالمی برادری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق تنازعہ کشمیر کا پائیدار حل نکالنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔

بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے خلاف کارروائیاں اور ان کی شہادت کے واقعات کوئی نئی بات نہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے ظلم وستم کا یہ سلسلہ مسلسل چلا آ رہا ہے، پاکستان نے بھارت کی ہر ظالمانہ کارروائی پر احتجاج کیا اور عالمی دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس ظلم کو روکا جائے اور مسئلہ کشمیر کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے۔

شروع میں اقوام متحدہ نے کشمیریوں کے استصواب رائے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس مسئلے کے حل کی جانب توجہ دی جس سے یہ امید بندھی کہ یہ مسئلہ جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گا اور مقبوضہ کشمیر جو دونوں ممالک کے درمیان باعث تنازع بنا ہوا ہے، کے حل ہونے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جو دشمنی کی فضا قائم ہو چکی ہے وہ ختم ہو جائے گی اور ان کے درمیان دوستانہ تعلقات فروغ پائیں گے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ نے بھی اس مسئلے کی جانب توجہ دینی کم کر دی اور معاملہ برائے نام بیانات تک محدود ہو کر رہ گیا۔ آج صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت خواہ ہزاروں کشمیریوں کو شہید کر دے، عورتوں اور بچوں کو سولی پر چڑھا دے، اور پاکستان بھرپور احتجاج کا علم بلند کر دے تب بھی نہ تو اقوام متحدہ کے کان پر جوں رینگے گی اور نہ بھارت اپنے ظلم وستم سے باز آئے گا کیونکہ اسے بخوبی علم ہے کہ عالمی حالات میں تبدیلی آ چکی ہے اور بڑی طاقتیں پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے بھارت کی ہاں میں ہاں ملائیں گی کیونکہ ان کے تجارتی، عسکری اور جغرافیائی مفادات پاکستان سے زیادہ بھارت کے ساتھ منسلک ہو چکے ہیں۔

اب تو حالات اس قدر بدل چکے ہیں کہ عرب اور دیگر مسلم دنیا کے پاکستان سے زیادہ بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہو چکے ہیں لہٰذا وہ بھی کشمیریوں پر ہونے والے ستم پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر تو رہا ایک طرف، جس کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں ہے، وہ لاکھ احتجاج کے باوجود پاکستان کی سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری سے باز نہیں آ رہا۔

تجزیہ نگاروں کی جانب سے یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا آخر حل کیا ہے؟ کیا بھارت اسی طرح کشمیریوں کا خون بہاتا رہے گا اور وہاں یونہی جنازے اٹھتے رہیں گے۔ پاکستان نے تنازع کشمیر کے پائیدار حل کے لیے مذاکرات کا ڈول بھی ڈالا، بھارت نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مذاکرات کا ڈھونگ رچایا لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔

اب صورت حال یہ ہے کہ بھارت جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مذاکرات کی کتاب ہی بند کر چکا ہے اور طاقت کے زور پر نہ صرف کشمیریوں کا خون بہا رہا بلکہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ کر کے پاکستانی شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو روایتی بیان بازی اور تساہل کا رویہ ترک کر کے اقوام متحدہ میں بھرپور آواز اٹھانی ہو گی ورنہ مستقبل قریب میں یہ مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں