مستحکم معیشت کا روڈ میپ دیں

اگر ناگزیر ہو تو بجٹ سازی میں نوجوانوں کے لیے با عزت روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔


Editorial April 05, 2018
اگر ناگزیر ہو تو بجٹ سازی میں نوجوانوں کے لیے با عزت روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ فوٹو: فائل

منگل کو اسلام آباد میں ایکسپریس پبلی کیشنز کے زیر اہتمام پری بجٹ سیمینار منعقد ہوا جس میں بادی النظرمیں وفاقی وزرا، اقتصادی ماہرین اور حکومتی ٹیم کے اراکین نے ملک کو درپیش معاشی مسائل کا ایک جائزہ پیش کیا اور مختلف اقتصادی ایشوز پر بحث کرتے ہوئے ایک جامع روڈ میپ دینے کی صائب کوشش کی ہے۔

ملکی معیشت کی ترقی کی راہ میں حائل بنیادی مشکلات، تضادات،پیش رفت اور اختراعات و جدیدیت پر مبنی عملی معاشی اقدامات کے حوالہ سے مختلف اشاریوں کی طرف توجہ دلائی گئی اور اس بات پر سبھی متفق نظر آئے کہ ملک معاشی بریک تھرو کی طرف جست اسی صورت لگا سکتا ہے جب قوم کو ایک منصفانہ اور عادلانہ معاشی نظام کے تحت ریلیف اور بنیادی سہولتوں کی علمبردار اقتصادی بنیاد مہیا ہو، ہمہ اقسام قرضوں کے دباؤ سے نجات ملے اور ''قرض کی پیتے تھے مئے''کی روایت کا خاتمہ ہو جب کہ حکمران کشکول بردار معاشی غلامی کی زنجیریں توڑ کر عوام کو جمہوری ثمرات سے مستفید کرنے کا مستحکم اقتصادی بندوبست قوم کے سامنے لائیں۔

ماہرین نے اپنی تجاویز میں زندگی کے تمام شعبوں میں بہتری ، تبدیلی اور پیش قدمی کی ضرورت کا حقیقی جذبہ پیدا کرنے پر زور دیا، نجی شعبے کی غیر معمولی شراکت ، قومی معاشی پروگراموں کی تکمیل میں شفافیت اور جوابدہی کو بھی ایک اہم عنصر قراردیا گیا، مشترکہ سرمایہ کاری سے لے کر انفرااسٹرکچر اور ٹیکس نظام میں بنیادی اصلاحات سمیت ٹیکسیشن پالیسی، گوشوارے سہل بنانے پانچ سالہ بجٹ سازی، برآمدات بڑھانے، پیداواری لاگت کم کرنے، اسمگلنگ کے خاتمہ اور قومی خوشحالی کے لیے متعدد اقدامات پر عملدرآمد کو ناگزیر قراردیا۔

وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر نے کہا کہ حکومت آیندہ سال کے بجٹ میں نئے ٹیکس نہیں لگائے گی مگر نان فائلرز کے لیے نان فائلرز رہنا مشکل ہوجائے گا، حکومت کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرے گی مگر ٹیکس چوری کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

وزیرمملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل نے کہا کہ معیشت پرذمہ دارانہ سوچ کے ساتھ سیاست ہونی چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ ترقی کے لیے قرضہ لینا پڑیگا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معاشی استحکام کے لیے ماضی و حال کے حکمرانوں نے خود انحصاری کے بلند بانگ دعوے کیے تھے مگر آج ملک اربوں کھربوں ڈالر کا مقروض ہے، یوں ہماری معاشی مضبوطی بھی مستعارہے، جب کہ ملک سے غربت اور بیروزگاری کے خاتمہ کے لیے وژنری قیادت کی ضرورت ہے جو سیاسی، سماجی اور ثقافتی جمود شکن ثابت ہو۔

بہرحال ماہرین نے جن خیالات کا اظہار کیا اس میں ملکی معیشت کو بحران،بے یقینی اور ایڈہاک ازم سے نکالنے کے لیے مفید تجاویز پیش کیں اور رضاکارانہ ٹیکس ادائیگی کے کم رجحان، مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی زیادہ آمدن مگر ظاہر کم کرنا، سرمایہ کار یا قابل ٹیکس آمدنی والے شخص کو ٹیکس نوٹس ملنے کا مطلب ہراسگی،ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ملک سے باہر پڑا ہوا پیسہ واپس لانے ،ٹیکس سے بچنے اور ایف بی آر، نیب اور ایف آئی اے کے ڈر سے لوگوں کا اپنا پیسہ باہر رکھنے، حکومتی کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارے اور تجارتی خسارے کی کمی میں ناکامی جس کے نتیجہ میں جی ڈی پی کا سات فیصد ہدف حاصل نہ ہونے کا خدشہ ، ہمسایہ ملک میں 70 سال سے ایک ہی نظام کا چلنا جب کہ پاکستان میں نظام کا جاری نہ رہنا،آزاد تجارتی معاہدوں پر مشاورت کے بعد انھیں برآمدات کے لیے سازگار بنانا ، روپے کی بے قدری، ملکی برآمدات کے رواں سال 24 ارب ڈالر تک پہنچنے کی خوشخبری، سرمایہ کاری کے حوالہ سے بہت سے چیلنجز کا سامنا، پاکستان میں انوسمنٹ لیول 18 جب کہ باقی ملکوں میں 25 فیصد کا فرق، انوسٹمنٹ پلاننگ کو بہتربنانے کی ضرورت، فوڈ سیکیورٹی کا نیشنل سیکیورٹی کے ساتھ لنک جیسے اہم مسائل کا احاطہ کیا گیا۔

بے شمار اعتراف بھی سامنے آئے مثلاً یہ کہ ہماری ٹیکسیشن پالیسی بزنس فرینڈلی نہیں، جب تک سالانہ بجٹ میں سسپنس رہے گا صورتحال بہتر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ٹیکس چوری کا سب سے بڑا روٹ ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں پاکستانی تاجروں کو یکساں مواقع ملنے چاہئیں، معاشی شعبے میں بہتری لانے کے لیے ہمیں اپنا بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا، بجٹ خسارے پر قابو پانا ہوگا، جو لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں، ان کے لیے مشکلات ہیں، اگر ایف بی آر کے افسران کو مراعات دی جائیں تو کرپشن پچاس فیصد تک کم ہوجائے گی۔

ایف بی آر کو صرف ٹیکس وصولی کرنی چاہیے مگر عملدرآمد کسی اور ادارے کو کرنا چاہیے، معاشی شعبے کی مشکلات انتہا کو پہنچ چکی ہیں، آئی ایم ایف پروگرام کے بعد معاشی صورتحال تشویشناک ہوگئی ہے، سی پیک کی وجہ سے صورتحال بہتر تو ہوئی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا تھا ، لوگ سرمایہ کاری پر مائل ہوئے تھے تاہم اب سب کو خطرہ لاحق ہے، تاہم یہ واضح ہونا چاہیے کہ خطرہ کس چیز سے ہے؟

یہ آپشن بھی پیش کیا گیا کہ موجودہ حکومت کے لیے آئینی طور پر یہ لازم نہیں کہ یہ بجٹ دے۔اگر ناگزیر ہو تو بجٹ سازی میں نوجوانوں کے لیے با عزت روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے کیونکہ اس وقت ملک میں 60سے 70 فیصد نوجوان بے رو زگار ہیں، برآمدات بڑھانی چاہئیں تاکہ معیشت میں سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ بارآور ہو اورمہنگائی و غربت کا سدباب ہوسکے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں