قانونی اصلاحات وقت کا اہم تقاضا

بات قانونی اصلاحات کی ہے تو اہل دانش کو اس ذہنی غلامی سے آزادی کا بھی سوچنا چاہیے۔


Editorial April 12, 2018
بات قانونی اصلاحات کی ہے تو اہل دانش کو اس ذہنی غلامی سے آزادی کا بھی سوچنا چاہیے۔ فوٹو:فائل

PESHAWAR: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے قانونی اصلاحات کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنیادی حقوق کا حل اولین ترجیح ہے لیکن ہمارے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں، قانون سازوں کے پاس اختیار ہے مگر ان کے پاس وقت نہیں۔ یہ بات انھوں نے منگل کو کوئٹہ کچہری کے دورے کے موقع پر بار روم میں وکلا سے خطاب میں کہی۔

دریں اثنا چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منصور علی پر مشتمل3 رکنی بنچ نے صوبہ بلوچستان میں تعلیم، صحت اور پانی کی صورتحال سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بلوچستان کے مسائل کی سنگینی کا حوالہ دیتے ہوئے جن قانونی اصلاحات کا اعلان کیا ہے اس کی روشنی میں ملک کے فہمیدہ حلقوں اور ماہرین قانون کو ملک کے فرسودہ سیاسی ، سماجی، عدالتی نظام ، قانون کی حکمرانی کے جدید تصورات کے افق پر امید کے آثار کم نظر آئے ، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے رضاکاروں، اہل فکر افراد اور نیٹ ورک کی ضرورت محسوس کی اور در حقیقت بنیادی انسانی حقوق کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے اسی سمت سفر کا اعلان کردیا ہے۔

اگرچہ آزاد عدلیہ کو داخلی طور پر کئی چیلنجز بھی درکار ہیں اور قانونی نظام اقدار پر یقین رکھنے والے اہل نظر ملکی صورتحال کے تناظر میں اس بات کے بھی منتظر ہیں کہ عدالت عظمیٰ کی ٹیم اور قانونی و عدالتی اصلاحات کا جو بیڑا چیف جسٹس نے اٹھایا ہے وہ سفینہ کب ساحل مراد پر لنگر انداز ہوگا۔

غالباً میڈیا میں اسی نکتہ پر معروف ماہر قانون علی احمد کرد نے اندیشہ ہائے دور دراز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ججز انتظامیہ اور مقننہ کو قانون سازی کے لیے گائیڈ کرے تو زیادہ بہتر ہوگا تاہم انھوں نے جوڈیشل فعالیت کے سیاق وسباق میں تحفظات ظاہر کیے اور کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ صحیح نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ سیاسی نظام اچھا ہوگا تو عدالتیں چلیں گی اور سیاستدانوں کی عزت ہوگی تو وہ اچھا سیاسی نظام لاسکیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ عدالتی فعالیت پر بحث کے تمام دروازے کھلے ہیں، بعض مکاتب فکر اس جوڈیشل شیک اپ کو جمود شکن خیال کرتے ہیں جب کہ سیاسی مین اسٹریم جماعتوں کے بعض رہنماؤں کا رد عمل عدالتی فعالیت کے نکتہ عروج کے بارے میں ذرا مختلف ہے۔ اداروں کا جب ذکر آتا ہے تو لازماً انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ زیر بحث آتے ہیں جب کہ ریاست کے چوتھے ستون میڈیا کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

اگر میڈیا کو درمیان سے نکال دیا جائے تو ایسا محسوس ہوگا کہ صحرائے افریقہ کا ذکر بغیر ہاتھیوں کے ہو رہا ہے، بلاشبہ قانونی اصلاحات پر عمل درآمد ریاستی ڈھانچہ کی تعمیر نو، ملکی سماجی اور سیاسی نظام کے استحکام اور عام آدمی کو سستا انصاف مہیا کرنے کو یقینی بنانا ہے، یہ مشترکہ مقاصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتے جب تک تمام اداروں میں ہم آہنگی اور خیر سگالی کا ماحول پیدا نہیں ہوجاتا۔

محاذ آرائی اور کشمکش کسی بھی سماج کے لیے اکسیر و مجرب نہیں بلکہ زہر قاتل سے بدتر ثابت ہوسکتے ہیں، اس لیے مسئلہ بلوچستان میں کرپشن، صحت و تعلیم کی زبوں کا ہوا ہے مگر اس تصویر کے تناظر میں تمام صوبوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے بد حالی اور انحطاط کا تقابل سندھ و بلوچستان کے حوالہ سے مناسب انداز میں کیا ہے، کہیں بھی صورتحال خراب ہوگی اس کا اثرات ملکی معاشرتی ، سیاسی اور سماجی نظام میں زوال آمادگی سے مشروط دکھائی دیں گے۔

چیف جسٹس نے اعتراف کیا کہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمے بہت زیادہ ہیں، 30،30 برسوں سے پڑے ہیں، سائل ہر تاریخ پر جیتا مرتا ہے، انھوں نے کہا کہ وکلا ہڑتال نہ کریں، نظام عدل میں خامیاں ہیں، اسے دور کرنے کے لیے وہ میرا ساتھ دیں۔ اس حقیقت سے شاید کسی کو انکار ہو کہ ملکی قوانین بہت بوسیدہ ہوچکے ہیں، سول پروسیجر کوڈ 1908میں مرتب کیا گیا جو موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتا، اس نکتہ پر وکلا برادری اور ماہرین قانون سیر حاصل گفتگو کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے قومی دکھوں کا شدت کے ساتھ ذکر کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ بہت سی اصلاحات پر کام شروع کررکھا ہے، اللہ کرے کامیاب ہو جاؤں، مجھے رضاکار ، دماغ اور نیٹ ورک چاہیے جو لیگل ریفارمز کے مشن میں ساتھ دیں، ججز کے پاس بہت کام ہے اس وجہ سے مقدمات تیزی سے نمٹا نہیں پاتے، وکیل لاچار نہیں، آپ بہت مضبوط اور حوصلہ مند لوگ ہیں۔

وکیل جب خود کو لاچار اور بے بس کہتے ہیں مجھے شرم آتی ہے، ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے میرا سر شرم سے جھک گیا، حکومت کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے کہ بنیادی حقوق کے ساتھ سہولت دے، انتظامیہ کا کام ہے کہ عدلیہ کے لیے سہولتیں پیدا کرے، انتظامیہ ناکام ہوئی تو عدلیہ کے دروازے وکلا پر بند نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس نے صوبہ میں پانی ، ینگ ڈاکٹرز کو تنخواہ عدم ادائیگی، ہاؤس جاب کرنے والوں کو ہر 2 ماہ بعد وظیفہ دینے پر سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا ڈرائیور 35 ہزار تنخواہ لے رہا ہے اور آپ ڈاکٹرز کو24ہزار دیتے ہیں، صوبائی سیکریٹری تعلیم نذیرآغا نے بتایا کہ حکومت کے زیرانتظام 1135پرائمری اسکول ہیں، صوبے کے50 فیصد پرائمری اسکولوں میں پانی نہیں، یہی شرح مڈل اورہائی اسکولوں میں ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ کے سب سے زیادہ پیسے بلوچستان کو ملے، پسماندہ صوبے کے پیسے کون کھا گیا؟

بات قانونی اصلاحات کی ہے تو اہل دانش کو اس ذہنی غلامی سے آزادی کا بھی سوچنا چاہیے جو ملک خداداد کو سیاسی بحرانوں سے نکلنے کی بصیرت عطا کرسکتی ہے، طبقاتی نظام تعلیم پر بند باندھ سکتی ہے، میرٹ کو طرز حکومت کا کارنر اسٹون اور جب کہ کرپشن کے ناسور سے وطن عزیز کو پاک رکھ سکتی ہے، حکمرانوں کی سنگ دلی، بے حسی اور عوام سے دوری نے بڑے مسائل پیدا کیے ہیں مگر ان کا حل بھی منتخب نمایندوں کی اجتماعی ذمے داری ہے اور آئین و قانون پر چلنے کا سیاسی چلن ہی ملک کی سالمیت کا ضامن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں