مذہبی لوگوں کو روکا جا رہا ہے
وہ شخص بول نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے آلات نطق بھی سارے مجروح اور سوجھے ہوئے تھے۔
KARACHI:
ہمارے پاس بہت '' خراج عقیدت '' جمع ہو گئی تھی جسے ہم حضرت مدظلۂ العالی مولانا کو پیش کرنا چاہتے تھے، اس لیے جب جمعیت کے مرکز میں کالم نگاروں کے ایک جمگھٹے کا بلاوا آیا تو ہم نے ملنے سے پہلے ہی قبول کر لیا ۔ کہ چلو حضرت کو جمع شدہ خراج عقیدت بھی نذر کر دیں گے اور ساتھ ہی '' پینڈہ''کی سعادت بھی حاصل کرلیں گے۔
''پینڈہ '' کے بارے میں آپ نہیں جانتے اور اچھا ہے کہ نہیں جانتے ورنہ ہماری طرح آپ بھی اس کے فراق میں تڑپتے رہتے ۔'' پینڈہ '' کو ضلع بنوں میں صحبت کہتے ہیں اورڈیرہ اسماعیل میں اس کا نام '' پینڈہ '' ہے جس کا پشتو مفہوم اکٹھ اور جمع ہونا ہے۔ بنوں میں '' صحبت '' کا بھی یہی مطلب ہوتا ہے لیکن یہ وہ صحبت نہیں ہوتی کہ
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طامع ترا طامع کند
بلکہ اس میں مرکزی مقام ایک فراخ برتن کو حاصل ہوتا ہے جس میں گھریلو یعنی دیسی مرغ کا زبردست اور خوشبو دار شوربا ہوتا ہے اور اس میں نرم نرم پھولے ہوئے نان کے ٹکڑے بھی بھگوئے ہوئے ہوتے ہیں اور مرغ یا مرغوں بلکہ مرغیاں بھی ہو سکتی ہیں، ان کے پارٹس اس کے اوپر سجے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی عام شوربا نہیں ہوتا، اکثر خالص دیسی گھی سے تیار کردہ ، خوشبودار اشتہا انگیز اور ''پرہیز شکن '' قسم کا شوربا ہوتا ہے جس کا آج کے برائلر مرغوں کے مارے ہوئے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے جو شاید مرغ اور شلغم کے ملاپ سے پیدا کی ہوئی ایک رسوائے عالم اور بدنام زمانہ چیز بن گئی ہے ۔مرغ بھی دیسی،گھی بھی دیسی ، شوربا بھی دیسی اور انداز نشست بھی دیسی مزہ آ جاتا ہے۔ اپنی رال پونچھ لیجیے ۔
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں۔ افسوس تم کو مرغ سے صحبت نہیں رہی۔صوابی مردان کے لوگوں نے بھی اس کے مقابل ایک ڈش ایجاد کر رکھی ہے جس کا نام '' کٹاواہ '' ہے تلفظ (KATAWA) ۔ کٹاواہ اس مخصوص ہانڈی کو کہا جاتا ہے جو صرف صوابی میں مروج ہے اور اس میں گوشت (کسی بھی قسم کا ) مخصوص طریقے سے پکایا جاتا ہے، اسی میں بھی اصل مقام شوربے کو حاصل ہوتا ہے۔جو مٹی کے بڑے بڑے برتنوں میں پیش کیا جاتا ہے اور اس میں خمیری نان کو بھگویا جاتا ہے ۔ یہ بھی ایک خاصے کی چیز ہے لیکن اس کے لیے گوشت کی کوئی قید نہیں کیونکہ شادی بیاہ میں ''کٹاواہ کا گوشت خمیری نان کے ساتھ پیش کرنے کا رواج ہے۔ شاید اب اس کم بخت برائلر یا چاول کی وجہ سے کم ہوگیا ۔ لیکن پینڈے اور صحبت کی تو بات ہی اور ہے کیونکہ یہ عمومی نہیں بلکہ خصوصی ڈش ہے۔
تھوڑا سا پہلے کے زمانے میں تو یہ رواج بھی تھا کہ شوربے میں نرم کی ہوئی روٹی کا پہلا نوالہ شرکاء ایک دوسرے کے منہ میں دیتے تھے جس سے محبت کا اظہار ہوتا تھا ۔ حضرت مولانا کے جس '' پینڈے '' کی سعادت ہمیں حاصل ہوئی ہے اس کے لیے ایک بار کھایا ہے اوربار بار کھانے کی ہوس ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ دوبارہ کوشش کے باوجود یہ سعادت حاصل نہیں کر سکے، اگر منہ میں پانی بھر آیا ہو تو اسے نگل لیجیے اور سنئیے کہ مرکز تووہی جمعیت کا تھا لیکن یہ کچھ اور ہی بات تھی کہ نہ پینڈا تھا نہ حضرت مولانا کی صحبت نصیب ہوئی، دل کی دل ہی میں رہی ۔ خیر پینڈے کا کیا ہے وہ توہم بھی دیہاتی ہیں اور دیسی مرغا مرغی بھی دستیاب ہے لیکن تمام تر خراج عقیدت کو بصد حسرت و یاس واپس لانے کی کوفت مٹائے نہیں مٹتی۔
حضرت قدس سرہ ٔ ایک مرتبہ پھر ایم ایم اے کو واپس لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں بلکہ اب تو اس کے گارڈین یعنی صدر بھی بن گئے ہیں ۔یہاں پر اچانک ہمیں افسردگی بلکہ انگزائیٹی کا دورہ پڑنے لگا ہے کیونکہ حضرت کے ساتھ جنرل سیکریٹری کے طور پر جناب لیاقت بلوچ کا نام آیا جسے پڑھ یا سن کر اکثر اداس ہو جاتے ہیں کہ بیچارے کتنے مستقل مزاج اور حد درجہ استوار واقع ہوئے ہیں کہ سیاست میں بیانات کے سوا ان کے کریڈٹ پر کچھ بھی نہیں ہے۔
اب بھی سیکریٹری جنرل بنا دیے گئے ہیں، وہ بھی حضرت مد ظلہ العالی جیسے چھنتا اور گنجان پیڑ کے نیچے ، کہ شجر کے نیچے شجر تو نہیں پنپ سکتا صرف گھاس پھوس ہی اگ سکتی ہے ۔خیر یہ تو بیچ میں ویسے ہی ایک بات آگئی ہے، وہ بھی شاید اس خیال سے کہ اس مرتبہ بھی حضرت کے حصے میں سینے کی بوٹی ہی آئی ہے جو پینڈے میں کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ سچ کہا ہے بزرگوں نے کہ خدا شکر خورے کو شکر دے ہی دیتا ہے ۔ اپنے پہلے ہی بیان میں انھوں نے تیر بہدف '' ضرب لگائی ہے، فرمایا کہ مذہبی لوگوں کو سیاسی قوت بننے اور اقتدار میں آنے سے روکا جا رہا ہے۔ نہ جانے کیوں ان کی گذشتہ پندرہ بیس سالہ ''جدوجہد '' اور سلسلہ تحفظات سوچ کر ہمیں ایک قصہ یاد آرہا ہے ۔
جس کا پتہ نہیں اس بحث سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں لیکن اب آیا ہے تو چلیے یہ بھی سہی ۔کہتے ہیں ایک خاتون مرتبہ تھانے میں روتے ہوئے آئی کہ میرے ''ظالم'' شوہر نے مجھے تھپڑ مارا ہے اور کچھ اس طرح سیاپا کیا کہ تھانیدار کو اسی وقت اس ''ظالم'' شوہر کو پکڑ کر لانے کے لیے ٹیم بھیجنا پڑی۔ ٹیم تھوڑی دیر بعد واپس آئی تو سپاہی ایک ایسے شخص کو ڈنڈا ڈولی کرکے لائے جو جگہ جگہ سے ٹوٹا ٹھوٹا ہوا تھا۔ تھانیدار کے پوچھنے پر سپاہیوں نے بھی بتایا اور عورت نے بھی تصدیق کی کہ یہی اس کا ''ظالم'' شوہر ہے جس نے ظلم کی انتہا کرتے ہوئے اسے تھپڑ مارا۔لیکن اس کی یہ حالت کس نے بنائی ہے ؟
وہ شخص بول نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے آلات نطق بھی سارے مجروح اور سوجھے ہوئے تھے۔ لیکن محترمہ نے بتایا کہ اس کی یہ حالت تو میرے بھائیوں نے بعد میں کی ہے، تھپڑ تو اس نے مجھے پہلے مارا تھا۔اب ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیسے حضرت کے اس بیان سے اس کہانی کا ناطہ جوڑیں کہ مذہبی لوگوں کو سیاسی قوت بننے اور اقتدار میں آنے سے '' روکا '' جا رہا ہے ۔