قبائلی علاقوں کو مین اسٹریم میں لانا ضروری ہے

فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے سے پاکستان کی وحدت اور سماجی و قانونی ہم آہنگی میں اضافہ ہو گا۔


Editorial April 13, 2018
فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے سے پاکستان کی وحدت اور سماجی و قانونی ہم آہنگی میں اضافہ ہو گا۔ فوٹو : فائل

MULTAN: پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز اسلام آباد میں کور کمانڈرز کانفرنس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں سے پاک اور محفوظ علاقوں کا انتظام سول انتظامیہ کے سُپرد کیا جا رہا ہے کیونکہ امن و خوشحالی اور ترقی کے ثمرات عام آدمی سمیت ہر سطح تک پہنچنے چاہئیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ امن کے ثمرات فاٹا کو عوامی امنگوں کے مطابق قومی دھارے میں شامل کرنے سے جڑے ہیں۔

کور کمانڈرز کانفرنس میں ملک کی سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق کورکمانڈر کانفرنس میں ملک کی جیواسٹرٹیجک، سیکیورٹی صورتحال اور آپریشن ردالفساد پر پیشرفت سمیت خوشحال بلوچستان پروگرام کا بھی جائزہ لیا گیا۔

واضح رہے کہ وفاقی انتظام میں قبائلی علاقوں (فاٹا) کو صوبہ خیبر پختون خوا میں شامل کرنے پر تقریباً تمام اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق ہے اور کے پی کے حکومت بھی اس کے حق میں ہے جس کا اظہار صوبے کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی کئی مواقع پر کر چکے ہیں البتہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پختونخوا میپ کے لیڈر محمود اچکزئی کی طرف سے اس کی مخالفانہ آواز آئی ہے ۔

پاکستان میں سرد جنگ کے زمانے میں افغانستان کی جنگ میں جو کردار ادا کیا 'دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ماضی سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ ماضی میں سوویت یونین اور کمیونزم ایک بڑا مسئلہ تھا 'افغانستان کی جنگ میں یہ مسئلہ ختم ہو گیا لیکن اس کے بطن سے ایک اور بحران نے جنم لیا جسے انتہا پسندی 'بنیاد پرستی کا نام دیا گیا جس سے دہشت گردی نے جنم لیا۔

پاکستان اس عفریت کا شکار بنا حالانکہ انتہا پسندی اور بنیاد پرستی نے اپنے پنجے افغانستان میں گاڑے تھے لیکن اس کی جڑیں پاکستان میں بھی موجود تھیں۔ امریکا میں نائن الیون کے واقعے کے بعد دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا۔

اس جنگ کی سربراہی امریکا اور نیٹو تنظیم نے کی 'افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی 'امریکا اور اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کیا طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا اتحادی تھا'پاکستان دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوا خاص طور پر پاکستان کے قبائلی علاقے اور خیبرپختونخوا زیادہ متاثر ہوئے۔

اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان آج جن حالات کا شکار ہے' اس کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں سمیت بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں جوہری آئینی تبدیلیاں لائی جائیں'ان علاقوں کا سماجی اور قانونی ڈھانچہ تبدیل کیے بغیر پاکستان میں دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی ملک میں یکساں رفتار سے معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

شمال مغربی قبائلی علاقے جنھیں فاٹا کہا جاتا ہے 'اس علاقے کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی تحریک زوروں پر ہے' اس وقت حالات بھی ساز گار ہیں کیونکہ پورے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں' اہل علم اور دانشور بھی اس کے حامی ہیں۔خیبرپختونخوا کی قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا جائے 'خیبرپختونخوا کے دانشور اور اہل علم بھی اس خیال کے حامی ہیں۔

یہی نہیں بلکہ فاٹا کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں 'موجودہ حکومت کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ پارلیمنٹ سے منظوری لے کر فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ کر لیتی لیکن اس نے اس کام کو انجام نہیں دیا۔شاید اس نے اپنے سیاسی اتحادیوں جن میں جے یو آئی اور پختونخوا میپ شامل ہیں ان کی خوشنودی کے لیے ایسا کیا۔بہر حال سیاسی معاملات میں چیزیں التوا کا شکار بھی ہوتی ہیں لیکن قومی مفاد کی خاطر اہم ایشوز کو مستقل بنیادوں پر طے کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔

فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے سے پاکستان کی وحدت اور سماجی و قانونی ہم آہنگی میں اضافہ ہو گا۔ فاٹا کے غریب عوام پرانے قبائلی نظام سے آزاد ہوں گے اور نئے دور کا آغاز ہو گا۔ پاک افغان سرحد کے معاملات بھی بہتر ہو جائیں گے اور پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانا آسان ہو جائے گا۔

افغانستان کی حکومت کو بھی اس معاملے میں تعاون کرنا چاہیے کیونکہ فاٹا میں جتنی زیادہ اصلاحات ہوں گی وہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ فاٹا کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے قبائلی سسٹم کو بھی تبدیل کرنے کے لیے آئینی تبدیلیاں لائی جائیں کیونکہ پاکستان کو متحد اور خوشحال ریاست بنانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں