نواز شریف کی تا حیات نااہلی کا عدالتی فیصلہ

فیصلہ کو ن لیگ کے لیے ایک شدید سیاسی دھچکا قرار دیا گیا۔


Editorial April 14, 2018
فیصلہ کو ن لیگ کے لیے ایک شدید سیاسی دھچکا قرار دیا گیا۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے سابق رہنما جہانگیر ترین اور دیگر نااہل افراد کو تاحیات نااہل قرار دے دیا ہے ۔ کیس کا فیصلہ 14 فروری 2018 کو محفوظ کیا تھا۔

ملکی صورتحال کے تہلکہ خیز سیاسی سیاق و سباق میں فیصلہ پر ماہرین قانون ، سیاسی حلقوں اور سیاستدانوں کے رد عمل اور تبصروں کا سلسلہ جاری ہے ، فیصلہ کو ن لیگ کے لیے ایک شدید سیاسی دھچکا قرار دیا گیا ، مین اسٹریم سیاسی جماعتوں نے جنھیں عدالت عظمیٰ کے تفصیلی فیصلہ کا ابھی انتظار ہے اپنی آرا میں ن لیگ کے مستقبل اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے موجودہ بیانیہ کی بقا اور تسلسل کو درپیش ایک اعصاب شکن چیلنج سے تعبیر کیا ہے، ادھر پی پی ، پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے فیصلہ کو تاریخ ساز کہا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں قراردیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت یہ نااہلی تاحیات رہے گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے، جس میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے محفوظ کیا گیا فیصلہ پڑھ کر سنایا، فیصلے کے وقت لارجر بنچ میں شامل 4 ججز عدالت کے کمرہ نمبر 1 میں تھے جب کہ جسٹس سجاد علی شاہ اسلام آباد میں نہ ہونے کے باعث شرکت نہیں کرسکے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جو صادق اور امین نہ ہو اسے آئین تاحیات نااہل قرار دیتا ہے، جب تک عدالتی ڈیکلریشن موجود ہے نااہلی رہے گی ، جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ تحریر کیا جب کہ جسٹس عظمت سعید نے اضافی نوٹ تحریر کیا۔ یاد رہے پانچ رکنی لارجر بنچ نے رواں سال جنوری میں 15 مختلف درخواستیں یکجا کر کے کیس کی سماعت کی تھی۔

سپریم کورٹ نے اس حوالے سے سابق وزیراعظم نوازشریف کو نوٹس بھی جاری کیا تھا ، نواز شریف نے جواب میں کہا کہ نااہلی صرف اس مدت کے لیے ہوگی جس مدت کے لیے امیدوار منتخب ہو۔جہانگیر ترین کے وکیل اور نااہل ہونے والے دیگر اپیل کنندگان نے تاحیات نااہلی کے خلاف کافی دلائل دیے تھے۔ پاناما کیس میں نوازشریف کو 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دینے والے بنچ میں جسٹس اعجازالحسن شامل تھے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس عمر عطا بندیال نے جہانگیر ترین کی نااہلی کا فیصلہ دیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے نوازشریف اور جہانگیر ترین کے خلاف فیصلوں میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا تھا۔ سپریم کورٹ عبدالغفور لہڑی کیس میں 62 ون ایف کے تحت نااہلی کو تاحیات قرار دے چکی ہے۔ ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاناما لیکس کیس اور آرٹیکل62 ون ایف کے حوالے سے مقدمات کے فیصلے سنائے جانے میں ایک مشترک پہلو یہ تھا کہ دونوں فیصلے محفوظ ہونے کے 57 روز بعد سنائے گئے ۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل 4رکنی لارجر بنچ نے دن گیارہ بجے فیصلہ دے دیا۔ یاد رہے کہ مذکورہ آرٹیکل کے تحت مسلم لیگ ن کے قائد، سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو نااہل کیا گیا تھا جب کہ بہت سے ارکان اسمبلی جعلی ڈگری کیس میں بھی نااہل ہوچکے ہیں۔

بلاشبہ ملکی سیاست، طرز حکمرانی اور عدالتی فعالیت کے موجودہ تناظر میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد گیند سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر ن لیگ کے کورٹ میں ہے ، فیصلہ سے پہلے نواز شریف سروائیول اور جارحانہ بیانیہ پر مبنی سیاسی جدوجہد کررہے تھے تاہم ابھی تبدیل شدہ صورتحال نہ صرف ان کے لیے بلکہ ن لیگ کی ہائی کمان کے لیے ایک دریا کے عبور کرنے کے مترادف ہے جب کہ اہم سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن داخلی شیرازہ بندی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کریگی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے کہا کہ یہ ویسا ہی فیصلہ ہے جس سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پرچڑھایا گیا تھا۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے آرٹیکل 62 کی حمایت کی تھی اور اسی میں پھنس گئے، پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی نے اپنے رد عمل میں کہا کہ نواز شریف کو ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچے یا خود ان کے لیے مشکلات پیدا ہوں، ان کا استدلال یہ ہے کہ ن لیگ کی پارلیمنٹ میں اب بھی اکثریت ہے۔

خورشید شاہ کے مطابق ن لیگ کی قیادت کے رویے کے باعث ان کے اراکین دوسری کشتی میں سوار ہوئے، جب کہ تاحیات نااہلی پر جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ وہ آرٹیکل 62(1 )ایف پر مکمل یقین رکھتے ہیں تاہم اس کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا کیونکہ ان کا کیس مختلف ہے اور ان کی اس ضمن میں نظر ثانی درخواست التوا میں پڑی ہوئی ہے، مگر انھیں انصاف کی امید ہے۔ پی ٹی آئی نے فیصلہ کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو اس کی تقلید کرنی چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے۔

اب تاریخ اور ملکی سیاست کی بے تاب نظریں ن لیگ پر مرکوز ہیں۔ ملک چیلنجز سے دوچار ہے اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لازم ہے کہ وہ دور اندیشی اور ملکی استحکام کو ہر دم پیش نظر رکھیں اور پیدا شدہ صورتحال سے کسی کو فائدہ نہ اٹھانے دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں