کامسیٹس کی جانب سے 49 کروڑ اضافی فیس وصولی کا انکشاف

این ٹی ایس کے سابق سربراہ ڈاکٹر ہارون رشید کی اپنی ڈگری جعلی ہونے کا انکشاف


Numainda Express April 18, 2018
کراچی میں پانی کمی پرچیئرمین کااظہارتشویش،ملک میں31 فیصدپانی کی قلت،مئی جون میںیہ قلت کم ہو جائیگی،سیکریٹری آبی وسائل فوٹو : فائل

DERA GHAZI KHAN: پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی طرف سے 49کروڑ56لاکھ روپے اضافی فیس وصولی کاانکشاف ہواہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں خورشید شاہ کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ جس میں ایچ ای سی کی آڈٹ رپورٹ 17-2016 کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی طرف سے 49 کروڑ 56ل اکھ روپے اضافی فیس وصول کرنے کاانکشاف ہوا ہے۔ اس موقع پرآڈٹ حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کامسیٹس نے برطانوی یونیورسٹی لنکاسٹر کے ساتھ دہری ڈگری پروگرام کا معاہدہ کیا،2010 سے 2014 کے دوران 2532 طلبا سے 49 کروڑ 56ل اکھ روپے فیس وصول کی۔ طلبا نے برطانوی یونیورسٹی کو بھی 2 ہزار پاؤنڈ فی کس علیحدہ دیے۔آ

ڈٹ حکام کا کہنا تھا کہ طلبا سے دہری فیس کی وصولی خلاف قواعد ہے۔ کامسیٹس یونیورسٹی کی سفارش پر بیرون ممالک ایم ایس اور پی ایچ ڈی پروگرام میں 36 طلبہ کو اسکالرشپ دی، مذکورہ اسکالرشپس پروگرام مکمل کرکے وطن واپس ہی نہیں آئے۔ اس پر ہائر ایجوکیشن کمیشن حکام نے بتایا کہ یہ طلبا 2007 سے پہلے بیرون ممالک اسکالر شپ پرگئے تھے۔اس معاملے پر تین طلبا سے واجبات وصول کر لیے ہیں۔باقیوں کے خلاف کیسز چل رہے ہیں۔

کمیٹی کے استفسار پرکامسیٹس حکام نے بتایاکہ ایک اسکالر کو دوضامن کی ضمانت پر اسکالرشپ دی، ضامنوں کے خلاف عدالت میں کیسز چلارہے ہیں،چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ہم اپنے بچوں کا مستقبل ان ٹیسٹنگ سروسز کے ہاتھ میں نہیں دے سکتے۔ نیشنل ٹیسٹنگ سروس نہ ایچ ای سی کو مانتی ہے اور نہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو مانتی ہے، کامسیٹس حکام کا کہنا تھا کہ این ٹی ایس کے سابق سربراہ ڈاکٹر ہارون رشید کی اپنی ڈگری جعلی تھی، ڈاکٹر ہارون امریکا فرار ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر ہارون کامسیٹس کے سابق پروریکٹر بھی رہے ہیں، ڈاکٹر ہارون کا کیس ایف آئی اے کے پاس ہے۔

آڈٹ حکام نے بتایاکہ تمام ٹیسٹنگ سروسز کا کوئی ریگولیٹر ہی نہیں، خورشید شاہ نے کہا کہ ٹیسٹنگ سروس کا اختیار یونیورسٹیز کے پاس ہونا چاہیے، پی اے سی نے نیشنل ٹیسٹنگ سروس سمیت تمام ٹیسٹنگ سروسز پر پابندی کی سفارش کر دی۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ این ٹی ایس کاریگولیٹر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو ہوناچاہیے۔

اجلاس میں کراچی میں پانی کی کمی پر خورشید شاہ نے اظہار تشویش کرتے ہوئے کہاکہ وزارت آبی وسائل کے پاس پانی کے بڑھتے بحران کاکوئی حل ہے؟۔ حیران ہوں ابھی تک سندھ حکومت نے واٹر ایمرجنسی کیوں نافذ نہیں کی۔ کمیٹی کے استفسار پر سیکریٹری آبی وسائل نے بتایا کہ پورے ملک کے پانی کا 10 فیصد ذخیرہ کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ چشمہ، تربیلااور منگلا میں کل313.8 ملین ایکڑ فٹ تک پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں ،کراچی کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ نے1200کیوسک فٹ کااضافہ مانگا، معاملے پرمزیدمشاورت ہوگی فی الوقت اس کو مؤخر کیا گیاہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہمیں بتائیں کہ 2 کروڑ کی آبادی کو فی الوقت پینے کاپانی کیسے فراہم کیا جائے گا،کیا کراچی والے پانی لینے نوابشاہ اور حیدرآبادجائیں گے۔ پی اے سی اجلاس میں پانی کے ذخیرہ اور بہاؤ بارے کوئی باضابطہ سسٹم نہ ہونے کاانکشاف ہوا ہے۔ سیکریٹری آبی وسائل نے بتایا کہ 2005 میں لگایا گیا ٹیلی میٹری سسٹم قابل استعمال ہی نہیں تھا، ورلڈ بینک کے تعاون سے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ پروجیکٹ کو اگلے تین سال میں آپریشنل کر دیں گے۔ اس وقت ملک میں31 فیصد پانی کی قلت ہے تاہم مئی جون میںیہ قلت کم ہو جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں