لاڈلی کے الیکٹرک

صائمہ زیب  جمعرات 19 اپريل 2018
کراچی کو اندھیروں میں ڈبونے والی ’’لاڈلی کے الیکٹرک‘‘ سے سرکاری سطح پر کسی قسم کی کوئی بازپرس نہیں کی جارہی۔ (فوٹو: فائل)

کراچی کو اندھیروں میں ڈبونے والی ’’لاڈلی کے الیکٹرک‘‘ سے سرکاری سطح پر کسی قسم کی کوئی بازپرس نہیں کی جارہی۔ (فوٹو: فائل)

یہ سیدھی سیدھی بلیک میلنگ نہیں تو اور کیا ہے کہ گرمیوں نے پہلی جھلک دکھائی اور کراچی میں بدترین لوڈشیڈنگ شروع… مقصد یہی ہے کہ کسی طرح بل ادا کیے بغیر گیس حاصل کی جائے اور صارفین سے اربوں روپے کے بل بٹورے جائیں۔ کے الیکٹرک کی یہ چال نئی نہیں۔ ماضی میں وہ سستے فرنس آئل کےلیے اسی طرح کے حربے کامیابی سے استعمال کرچکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کے الیکٹرک پر سوئی سدرن گیس کمپنی کے 29 ارب روپے کے واجبات ہیں جنہیں ادا کیے بغیر مزید گیس لینے کےلیے کے الیکٹرک بلیک میلنگ پر اتر آئی ہے۔

صارفین اگر ایک ماہ بل ادا نہ کریں تو اگلے مہینے اضافی سرچارج کے ساتھ نوٹس بھیج دیا جاتا اور تیسرے مہینے بجلی کاٹ دی جاتی ہے۔ مگر خود کے الیکٹرک اپنا بل بھرنے کو تیار نہیں اور کوئی اسے کچھ کہنے والا بھی نہیں۔

ایک تو یہ بات ہی بڑی مضحکہ خیز ہے کہ ہم ایک توانائی کو جلا کر دوسری توانائی پیدا کرتے ہیں۔ فرنس آئل اور گیس کے بدلے بجلی حاصل کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ساری دنیا پانی، ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی پید اکرنے کے پلانٹ لگا رہی ہے مگر ہم نوابوں کی طرح قیمتی فرنس آئل اور گیس پھونک رہے ہیں۔

کے الیکٹرک کی نج کاری کے وقت معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ وہ اپنے سسٹم کو اپ گریڈ کرے گی، نئے پاورپلانٹ لگائے گی اور صارفین کو بہتر سروس فراہم کرے گی۔ لیکن کراچی کے عوام گواہ ہیں کہ کے الیکٹر ک نے ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا۔ سب سے پہلی واردات تو اس نے یہ کی کہ شہر بھر سے اربوں روپے مالیت کے تانبے کے تار اُتار کر بیچ دیئے، ان کی جگہ ایلمونیم کے تار لگادیئے جو لائن لاسز کا بڑا سبب ہیں۔ کے الیکٹرک نے کھلے عام یہ واردات کی اور کسی نے اسے روکا نہیں، نہ بعد میں کسی نے پوچھا۔

شہر کی تمام سیاسی جماعتیں بھی چپ چاپ تماشا دیکھتی رہیں۔ کے الیکٹرک کے بوسیدہ نظام کا تو یہ حال ہے کہ بارش کی پہلی بوند پڑتے ہی پورا سسٹم بیٹھ جاتا ہے، ذرا سی تیز ہوا چلے تو ساری بجلی اس کے ساتھ ہی اڑ جاتی ہے۔ مجال ہے جو کوئی اس سے جواب طلبی کرے… کیوں؟ شاید اس لیے یہ کے الیکٹرک کسی کی ’’لاڈلی‘‘ ہے۔

کے الیکٹرک اور کراچی کی ٹرانسپورٹ ایک ہی ڈگر کے مسافر ہیں۔ کراچی کی تمام بسیں، ویگنیں اور رکشے سی این جی پر چلتے ہیں مگر کرایہ پیٹرول اور ڈیزل کا چارج کیا جاتا ہے۔ کے الیکٹرک کا بھی یہی حال ہے کہ وہ بجلی تو گیس سے بناتی ہے مگر بل فرنس آئل کے وصول کرتی ہے۔ کوئی بولنے والا نہیں، کوئی روکنے والا نہیں۔ کیوں؟ شاید اسی لیے کہ کے الیکٹرک کسی کی لاڈلی ہے۔

کراچی میں حالیہ دنوں اتنا بڑا بجلی کا بحران چل رہا ہے۔ سب کو پتا ہے کہ کے الیکٹرک نے گیس کمپنی کو ادائیگی نہیں کی، مگر ہمارے وزیراعلیٰ دو بار وزیراعظم کو خط لکھ کر الٹا سوئی سدرن کی شکایت کرچکے ہیں مگر کے الیکٹرک کو کچھ نہیں کہا۔ چند روز قبل انہوں نے کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کے نمائندوں کو وزیراعلیٰ ہاؤس طلب کیا مگر اس دوران ان کی ساری ہمدردیاں کے الیکٹرک کے ساتھ ہی نظر آئیں۔ انہوں نے سوئی سدرن کو تو گیس فراہم کرنے کےلیے کہا مگر کے الیکٹرک سے یہ پوچھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی کہ اتنی مہنگی بجلی بیچتے ہو تو گیس نہ ملنے پر فرنس آئل سے بجلی کیوں پیدا نہیں کرتے؟ کمشنر کراچی بھی سوئی سدرن پر برس پڑے۔ ایم ڈی کو خط لکھ کر فوری گیس بحالی کی ہدایت جاری کردی۔ مگر کے الیکٹرک سے باز پرس نہیں کی۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ کے الیکٹرک…

کیا ہمارے ملک میں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو کے الیکٹرک اور گیس کمپنی کو آمنے سامنے بٹھا کر پتا لگائے کہ اصل قصور کس کا ہے؟ کون کراچی کے اندھیروں کا ذمہ دار ہے اور کون اپنے مفاد کےلیے سارا الزام دوسرے کے سر تھوپ رہا ہے۔ نیپرا کی ٹیم کراچی آئی اور جائزہ لے کر چلی گئی۔ یقین رکھیے کہ اس کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہوگا وہی جو کے الیکٹر ک چاہے گی۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ کے الیکٹرک کسی کی لاڈلی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔