جنوبی افریقا میں کرپشن کے خلاف ہنگامے
جنوبی افریقا میں عوام کے کرپشن کے خلاف اشتعال نے تشدد کی شکل اختیار کرلی ہے۔
جنوبی افریقا میں کرپشن کے خلاف انتہائی پر تشدد مظاہروں میں مظاہرین نے درجنوں گاڑیوں اورگھروں کو نذر آتش کر دیا ۔ جنوبی افریقا کے صدر دولت مشترکہ کانفرنس کو ادھوری چھوڑ کر وطن واپس آگئے ہیں ۔ پاناما لیکس میں کرپشن کے حوالے سے انکشافات کے بعد دنیا بھر کے عوام میں بے چینی اور اشتعال بڑھتا جا رہا ہے۔
جنوبی افریقا میں عوام کے کرپشن کے خلاف اشتعال نے تشدد کی شکل اختیار کرلی ہے، دنیا بھر میں جس میں پاکستان بھی شامل ہے کرپشن کے خلاف سخت بے چینی اور اشتعال پایاجاتا ہے۔ جنوبی افریقا میں یہ اشتعال بہت بڑا ہے اور بے چینی تشدد کے راستے پر نہ چل پڑے، اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمران طبقات کی پہلی ترجیح کرپشن یعنی عوامی دولت کی لوٹ مار بنی ہوئی ہے۔ پاکستان کا شمار ان ہی ملکوں میں ہوتا ہے جو کرپشن کی زد میں ہیں۔
کرپشن ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے لیکن دنیا میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے آغاز کے ساتھ حکمران طبقات کی اولین ترجیح عوامی دولت کی لوٹ مار بن گئی ہے ۔ پاکستان کا شمار بھی ان ہی ملکوں میں ہوتا ہے جو کرپشن زدہ ملکوں کی صف اول میں ہیں۔
پاناما لیکس کے انکشافات کی وجہ سے اگرچہ کرپٹ افراد لائم لائٹ میں آئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرپشن پاکستان میں کوئی نو دریافت چیز نہیں بلکہ جب بھی پاکستان میں جمہوری نظام کام کرتا رہا کرپشن اس کے ساتھ ساتھ چلتی رہی، بلکہ یہ بلا قیام پاکستان کے ساتھ ہی کسی نہ کسی شکل میں حکومتوں کا حصہ بنی رہی، یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ فوجی حکومتوں پر بہت سارے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں لیکن کسی بھی فوجی حکومت پر کرپشن کا الزام عاید نہیں ہوا۔ ایسا کیوں؟
جنوبی افریقا کا شمار دنیا کے پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے لیکن یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ اس پسماندہ ملک میں بھی کرپشن اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ عوام کا پیمانۂ صبر چھلک پڑا ہے۔ اس حوالے سے اس غلط روایت کی نشان دہی ضروری ہے کہ کرپشن ہو یا مہنگائی، بے روزگاری کا مسئلہ ، عوام ان مسائل سے پریشان ہوکر جب جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ شروع کرتے ہیں تو ان کی نظر اصل مجرموں پر نہیں پڑتی وہ اپنا غصہ عام شہریوں کی املاک اور عام شہریوں کی گاڑیوں پر اتارتے ہیں، جب کہ اصل مجرم ان کے غصے سے محفوظ رہتے ہیں ۔ اس انارکی کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں ان کی درست سمت میں رہنمائی کرنے کے بجائے خاموشی کا چولا اوڑھے رہتی ہیں۔
جنوبی افریقا میں عوام نے اپنا غصہ گاڑیوں اورگھروں پر اتارا، یہ گاڑیاں اورگھر یقینا عام شہریوں کے ہی ہوںگے ان لٹیروں کی طرف عوام کی نظر نہیں جاتی جو کرپشن کے اصل مجرم ہیں۔ یہ روایت عام ہے جہاں بھی عوام حکمرانوں اور کرپٹ مافیا کے خلاف مشتعل ہوتے ہیں تو ان کا رخ کرپٹ مافیا کے محلوں اور کروڑوں کی قیمتی گاڑیوں کی طرف نہیں ہوتا بلکہ وہ عام شہریوں پر اپنا غصہ اتارتے ہیں۔
اصل میں اس صورتحال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روس کی ٹوٹ پھوٹ اور سوشلسٹ بلاک کی پسپائی کے بعد دنیا میں نظریاتی پارٹیاں عملاً نا پید ہوکر رہ گئی ہیں یا تو اشرافیائی سیاسی پارٹیاں مستحکم ہیں یا ان کی دُم چھلہ بنی رہنے والی سیاسی جماعتیں رواں دواں ہیں، اگر نظریاتی سیاسی جماعتیں مضبوط اور مستحکم ہوں تو عوام کے غصے اور اشتعال کو صحیح سمت دیتی ہیں اور بے گناہ لوگوں کا نقصان نہیں ہوتا۔ پاکستان میں بھی یہی صورتحال 1977کی پر تشدد تحریک میں بھی عوام کا غصہ عام بے گناہ لوگوں کی املاک ہی پر اتارا گیا۔
جنوبی افریقا ہی کرپشن کی زد میں نہیں ہے بلکہ ہر وہ ملک جہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت قائم ہے کرپشن کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ کئی مغربی ملکوں کا حکمران طبقہ کرپشن کے الزامات کے تحت زیر عتاب رہا ہے۔ پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد ضرورت اس بات کی تھی کہ کرپشن کے خلاف عالمی سطح پر ایک مضبوط اتحاد بنتا لیکن اس قسم کا اتحاد نہ بننے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت کے نام پرکرپٹ سیاست دانوں نے اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہے اور عشروں سے اقتدار پر قابض ہیں۔
ایسی سیاسی جماعتیں بھلا کس طرح کرپشن کے خلاف تحریک چلاسکتی ہیں۔ اس کینسر جیسے مرض (کرپشن) میں صرف پاکستان یا جنوبی افریقا اکیلا مبتلا نہیں ہے بلکہ بغیر کسی ذہنی تحفظ کے یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جاسکتی ہے کہ جہاں جہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے وہاں کرپشن ملک و معاشرے کا ایک ناگزیر حصہ بنی ہوئی ہے۔
افریقا ایک بڑا براعظم ہے جس میں کئی ملک شامل ہیں اور بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ افریقا کے ہر جمہوری ملک کی جڑوں میں کرپشن کا بھوت بیٹھا ہوا ہے یہاں اس حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی سرپرست مشتعل عوام کی توجہ حکومتوں کی کرپشن، بدعنوانیوں اور نااہلیوں کی طرف سے ہٹانے کے لیے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ان ہتھکنڈوں میں آج کا سب سے بڑا ہتھکنڈا ''دہشت گردی'' ہے۔
جنوبی افریقا کے کئی ملک دہشت گردی کے شکار ہیں اور عوام اس بلا سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ اپنی جان کی سلامتی کے علاوہ انھیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ سامراجی ملکوں نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ دہشت گردی کا ہوا اس لیے کھڑا کر رکھا ہے کہ عوام کی توجہ ریاستی مظالم اور بدعنوانیوں کی طرف مبذول نہ ہو۔
اس حوالے سے یہاں ایک دلچسپ حقیقت کا ذکر ضروری ہے کہ دہشت گردی مسلمانوں کے نام سے منسوب کردی گئی ہے اور دہشت گردوں کا مرکزی نظریہ ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنا ہے۔ کیا دنیا بھرکے عوام یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان ہیں۔ افریقا کے ملکوں میں بھی دہشت گردی کا نشانہ عموماً مسلمان ہی ہورہے ہیں۔ سامراجی ملکوں نے دہشت گردی کے ذریعے دنیا کے عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم سے ہٹا دی ہے ۔ اب عوام کی اولین ترجیح دہشت گردی کا شکار ملکوں میں اپنی جان کا تحفظ ہے۔ شام، شمالی کوریا، ایران کی جنگ پسندی کے پروپیگنڈے کا مقصد بھی رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہی ہے۔
کرپشن کی گنگا ہر اس ملک میں بہہ رہی ہے جہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت کا راج ہے ۔اس حوالے سے پاکستان ہی کو لے لیں پاناما لیکس کے ملزمان کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سخت اور غیر روایتی اقدامات کررہی ہے چونکہ پاناما لیکس میں پاکستان کی حکمران اشرافیہ ملوث ہے۔ اس لیے عدلیہ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھادیا گیا ہے، اشرافیہ کی دیدہ دلیری کا عالم یہ ہے کہ قدم قدم پر توہین عدالت جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا جارہاہے، یہ سب ہوتا رہے گا۔
اس وقت تک جب تک کہ عالمی سطح پر کرپشن کے خلاف ایک منظم اور مربوط مہم نہ چلائی جائے جس میں عوام مزدور، کسان، ادیب، شاعر، دانشور، مفکر، وکلا، طلبا اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوں اس قسم کی تحریک سے اشرافیہ کی طرف سے اپنے مفادات کے لیے عوام کا استعمال آسان نہیں رہے گا ۔