ہمارے لیڈر کسی سے نہ ڈرنے ورنے والے سمیت
انتخابی انتظامیہ بھی صدق دل سے یہی چاہتی ہے اور سیاسی جماعتوں میں اگر کوئی محب وطن اور ملک دوست لیڈر ہے۔
جب کسی دھماکے کی خبر آتی ہے تو اس کا پتہ پا کر لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا الیکشن ہوں گے لیکن الیکشن اگر دھماکے والوں کے بس میں ہیں تو نہیں ہوں گے اگر ہم پاکستانی عوام (لیڈر نہیں) اپنی اس آخری پناہ گاہ یعنی پاکستان کو باقی رکھنا چاہتے ہیں تو الیکشن ہوں گے اور ضرور ہوں گے ایک تو اس وجہ سے کہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین خلوص دل سے یہی چاہتے ہیں اور میں ان کی ایک بات پھر سے دہراتا ہوں کہ اگر الیکشن نہ ہوئے تو ملک باقی نہیں رہے گا۔
انتخابی انتظامیہ بھی صدق دل سے یہی چاہتی ہے اور سیاسی جماعتوں میں اگر کوئی محب وطن اور ملک دوست لیڈر ہے تو وہ بھی یہی چاہتا ہے اور جہاںتک عوام یعنی ووٹروں کا تعلق ہے وہ بھی الیکشن پر بالکل تیار ہیں لیکن میں سچ عرض کرتا ہوں کہ جہاں تک ہماری اعلیٰ ترین سیاسی قیادت کا تعلق ہے ان کے لیے الیکشن ہو جائیں تو اچھا ہے نہ ہوں تب بھی اچھا ہے ان لوگوں کا جو پاکستان ہے اسے الیکشن یا عدم الیکشن سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان لوگوں نے الیکشن سے پہلے ہی عوام کے خرچ پر اپنا اپنا پاکستان بنا رکھا ہے اور یہ نہ صر ف عرف عام والے پاکستان کی حدوں کے اندر ہے بلکہ ان کے باہر بھی ایک سے زیادہ ملکوں میں آباد ہے بلکہ زیادہ ہی آباد ہے، اس لیے ان کے لیے اگر ان کی حکومت والا پاکستان بن جائے تو بہت خوب اگر ایسا نہ ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
فارسی کے ایک شاعر نے اپنے مرّبی رئیس کے بارے میں کہا تھا کہ وہ گھر پر ہو یا شکار پر اور سفر میں وہ برابر کی عیش و عشرت میں زندگی بسر کرتا ہے اور مسافرت میں بھی دربار آراستہ کر لیتا ہے، اس کے لیے کوہ و بیاباں سب برابر ہیں۔ ہمارے رئوسا کا بھی یہی حال ہے، میں ایک ایک کا نام لے کر کسی کو بدمزہ کرنا نہیں چاہتا، ملک کے اندر ان کے قیام کی خوشی میں ان کی حفاظت پر اگر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہوں تو ان کے لیے پاکستان میں سیاسی جیت ہار کا کیا فرق پڑتا ہے۔ پاکستان کے عوام جب ان لوگوں کے تحفظ کی ایسی خبریں پڑھتے ہیں تو اپنی قسمت کو روتے ہیں کہ وہ جن کو سیکیورٹی کی نذر کرنا چاہتے ہیں وہ الٹا ان کے خرچ پر محفوظ ہیں۔
میں نے اپنے چند حکمران اور غیر حکمران سیاستدانوں اور لیڈروں کی غیر معمولی دولت مندی کا سن کر ایک بار اپنے ایک دوست سے درخواست کی کہ یار مجھے ان لوگوں کی دولت کی ایک جھلک ہی دکھا دو۔ اس پر اس نے کہا کہ میں تمہیں ایک رپورٹ کا ایک حصہ بھجوا دوں گا اس پر مزید قیاس آرائی کر لینا۔ میں نے ایک جھلک دیکھی اور جب حواس درست ہوئے تو یونہی احمقوں کی طرح سوچنے لگا تو اندازہ ہوا کہ میری عمر بھر کی کمائی ان میں سے کسی ایک کی ایک دن کی چوتھے حصے کے برابر ہے اور یہ بھی میں قدرے مبالغے سے کام لے رہا ہوں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ جب کسی کے سامنے دو آدمیوں کا کھانا رکھا ہوتا ہے تو اس کا صرف مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک کا حق مارا گیا ہے۔ ان لوگوں کے سامنے تو اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کا کھانا رکھا ہوتا ہے۔
اصل میں لکھنا تو اسی دوسرے موضوع پر چاہتا تھا لیکن ذہنی توازن کے برقرار نہ رہ سکنے کی وجہ سے بات کوئی اور شروع کر دی یا ہو گئی۔ ذکر تھا جنرل پرویز مشرف کا جن کا ایک قومی جرم ان کے تمام جرائم پر بھاری ہے اور وہ ہے ملک کے آئین کو بار بار توڑنا۔ ان کو خوب معلوم تھا کہ انھوں نے کیا کیا ہے اور اس کی سزا کیا ہے لیکن انسان کی بدقسمتی اسے نہ جانے کہاں کہاں لے جاتی ہے، وہ اپنی بے پناہ دولت کے مزے لے رہا تھا ،کبھی ایک ملک کے کبھی کسی دوسرے ملک کے عشرت کدے میں، یہاں پاکستان میں اس کی دولت کی چند جھلکیاں ہم بھی دیکھ رہے تھے اور میڈیا میں ان کا نام زندہ تھا مگر اس کی کم بختی یا ایک بار پھر ہوس اقتدار نے اسے واپس شکار گاہ میں بھجوا دیا۔
معلوم ہوا کہ اس کے بعض دوست حکمرانوں نے اسے کوئی گارنٹی وغیرہ دی ہے اور اس کے بقول یہ گارنٹی اس کی حفاظت کی گارنٹی تھی اور صحیح و سلامت رہنے کی چنانچہ وہ حالات کی پروا کیے بغیر خصوصی طیارے سے پاکستان لوٹا اور اسلام آباد میں اپنی شاہانہ قیام گاہ میں فروکش ہو گیا۔ اب خبریں ایسی ہیں کہ موصوف سخت خوفزدہ ہیں اگرچہ وہ ڈرتے ورتے نہیں ہیں لیکن پھر بھی ڈر رہے ہیں کیونکہ یہ نئے ڈر اس کے تصور سے ماورا ہیں۔ یہ کسی کمانڈر انچیف اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے ڈر نہیں ہیں، بے رحم حالات کے ڈر ہیں جن پر نہ کسی کا حکم چلتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کے قابو میں آتے ہیں، بس اپنی مرضی سے چلتے اور بدلتے ہیں ''اور ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں'' چنانچہ ایک لوگ کے گرد اب یہ دن پھر رہے ہیں۔
عدالتیں پوچھتی ہیں کہ کسی نے اس شخص سے آئین توڑنے کی غلطی یا گناہ عظیم کی باز پرس کیوں نہیں کی، اب وہ پاکستان میں ہے اور کچھ بعید نہیں امریکا کسی دن اس کو ہمارے درمیان سے اچک لے جس طرح وہ پہلے اپنے کارندوں کو لے جا چکا ہے لیکن جب تک وہ یہاں ہے پاکستان کی محتاط عدالتیں بھی اسے بے گناہی کی چٹ نہیں دی سکتیں۔ وہ قوم کا گنہ گار ہے کسی عدالت یا کسی اپنے جیسے لیڈر کا نہیں۔ اس کا معاملہ عدالت میں ہے، اب جو فیصلہ بھی ہو گا وہیں سے ہو گا لیکن قابل رحم ہے وہ شخص جو کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہے مگر اب وہ کسی بہت ہی ڈرائونی بلا کے چنگل میں پھنس گیا ہے جس سے کسی کو بھی ڈرنا ورنا پڑ جاتا ہے۔