پیر کی دعا جنت کی ہوا
جیسی ٹھیکیداری تھی ویسی ہی وزیری بھی تھی لیکن اب ٹھیکیداری بڑے بھائی کے نام پر ہوئی تھی۔
ہم اپنی شام کی نشست میں بیٹھے ہی تھے کہ قہر خداوندی گل چشم عرف جامہ تلاشی خود لیتے ہوئے کہنے لگا کہ پتہ نہیں سگریٹ کہاں گئی حالانکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سگریٹ کبھی ان جیبوں میں آئی ہی نہیں تو جائے گی کیسے ؟
ہم نے بھی حسب معمول پاس کھیلتے ہوئے ایک بچے کوبلایا دس روپے دیے اورسگریٹ لانے کو کہا۔ رشوت کے طور پر کہا کہ باقی کے پیسے تم رکھ لو تو وہ دوڑ کر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا لیکن ہماری طرف آنے کے بجائے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیل میں مصروف ہو گیا اور سلسلے کو وہیں سے شروع کیا جہاں سے ٹوٹا تھا ۔ ہم نے اسے پھر آواز دی اور سگریٹ کے بارے میں پوچھا ۔ بولا۔ سگریٹ دکاندار کے پاس نہیں تھی اور پیسے؟ بولا وہ تومیں نے رکھ لیے آپ نے خود کہا تھا کہ بچے ہوئے پیسے تم رکھ لو ۔لڑکے کے اس سکت اورلاجواب کردینے والے جواب پر عش عش کرتے ہوئے ہم نے اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا، بیٹا تم اسی طرح لگے رہو بہت اوپر جاؤ گے کم ازکم وزیر تو یقینًا بنو گے ۔
بولا وزیر کیا ہوتا ہے ۔ ہم نے سامنے سے گزرتے ہوئے ایک بہت ہی موٹے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، اس کے جتنا بڑا ۔ اس نے موٹے آدمی کو دیکھ کر ناک سکوڑی ۔ مجھے نہیں بننا ہے وزیر ۔ یہ تو میرا باپ ہے اور میں اپنے باپ جیسا نکما نہیں بننا چاہتا ۔ یہ میری ماں کا کہنا ہے کہ بیٹا اپنے باپ جیسے کبھی مت بننا ۔ہماری یہ نشست ہر شام کو جمتی تھی جس کا قانون صرف ایک دفعہ پر مشتمل تھا کہ کوئی اس میں '' باوضو '' یعنی کام کی بات نہیں کرے گا، ساری گفتگو فضول یعنی '' بے وضو'' ہوگی جس کسی کے منہ سے بھول چوک میں بھی کام کی بات نکلی اسے چائے اور پکوڑوں کا جرمانہ بھرنا پڑے گا ۔
اس نشست کے چار مستقل ارکان تھے، ایک تو حوالدار تھا جو صرف نام ہی کا حوالدار تھا معلوم نہیں ماں باپ نے اس کا نام حوالدار کیوں رکھا تھا کہ وہ ہر ایسی خوری کے لیے ان فٹ تھا جہاں جس میں حوالدار پائے جاتے ہوں ، یہ زیادہ بولتا نہیں تھا لیکن اگر کوئی ممبر اپنی '' بے وضو'' باتوں میں کسی کی ماں'' نہیں'' کے ساتھ کسی جانور کا رشتہ جوڑتا تو فوراً چھاتی نکال کر کہتا ۔ میں میں میں۔ یعنی جانور کی جگہ میرا نام لیا کرو ۔ ویسے پہلی بیوی کے مرنے پر اس نے بہت کوشش کی تھی کہ اپنا گھر دوبارہ کسی نوجوان لڑکی کے ساتھ بسائے لیکن اس کے بیٹے انتہائی حد تک اپنی دوسری ماں کے روادار نہیں تھے ۔ اور جب وہ ماں عمر میں بیٹوں سے بھی کم ہو۔ اس کے بعد حوالدار گالیوں میں کہانیوں میں اور ناگفتہ قسم کی کہانیوں میں اپنا غم غلط کرتا تھا ۔ استاد بخشی گل خواتین خصوصاً '' نیک چلن '' خواتین پر اتھارٹی تھا اس کے پاس گاؤں کی ساری نیک چلن خواتین کے ایسے ایسے قصے تھے کہ وہ کہے اور سنا کرے کوئی ۔
آج کا موضوع ہمارے گاؤں کا ایک ایسا لیڈر بلکہ وزیر ابن وزیر ابن وزیر تھا جوکل ہی ایک پارٹی میں تیسری بار اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت شامل ہوا تھا ۔ ویسے وہ یہ '' ہیٹ ٹرک '' ہر پارٹی میں کر چکا تھا ۔
لیکن آج تک یہ کسی کو معلوم نہیں ہو پایا ہے کہ وہ کسی پارٹی سے کبھی نکلا بھی ہے ۔ یا نہیں کیونکہ اس کے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ '' شمولیت '' کی خبریں تو آتی رہتی ہیں لیکن کسی بھی پارٹی سے نکلنے کی خبر آج تک کسی نے نہیں سنی۔موضوع بحث بظاہر ہماری نشست کے قانون سے متصادم لگتا ہے لیکن ایسا نہیں تھا ۔ کیونکہ گاؤں میں اس کی شہرت اس کی ماں کی وجہ سے تھی جو بقول بخشی گل اپنے وقت کی سب سے زیادہ نیک چال چلن کی سخی عورت تھی اس کے در سے کوئی بھی کبھی خالی نہیں گیا تھا ۔
بخشی گل کے پاس اس کے ایسے ایسے قصے تھے جو کسی ایک عورت کے تونہیں ہو سکتے لیکن بخشی گل کا کمال ہنری یہی تھا کہ وہ ناممکن کو بھی ممکن بلکہ سامنے کرنے کا ماہر تھا ۔ اس کے بیٹے نے جو اسی کے نام سے مشہور '' ممتاز رہنما '' بن چکا تھا اور اپنے سیاسی کیرئیر میں کئی بار اس ملک کو '' لاحق '' ہوا تھا اپنے کیرئیر کی ابتدا ٹھکیداری سے کی تھی، ٹھیکیداری سے پہلے جب وہ ایک اور ٹھیکیدار کا منشی ہوا کرتا تھا اس کا ریکارڈ پھر قہر خداوندی کے پاس تھا جو طفلان خوشنما پر اتھارٹی تھا ۔ ٹھیکیداری کے دوران اس نے جتنی بھی سڑکیں بنائی تھیں یا پل تعمیر کیے تھے وہ کم از کم ایک بار تو ضرور بارش اور سیلاب کے کاندھوں پر سوار ہو کر بحیرۂ عرب میں جا پہنچے تھے۔ پھر جب اس کے منہ کو سیاست اور وزارت کا خون لگ گیا تو پھر سب کچھ ہو گیا۔
جیسی ٹھیکیداری تھی ویسی ہی وزیری بھی تھی لیکن اب ٹھیکیداری بڑے بھائی کے نام پر ہوئی تھی کیونکہ بڑے بھائی چھوٹے میاں سے بھی بڑے میاں تھے اور سبحان اللہ بھی۔ کیونکہ دونوں بھائی ہمیشہ بڑے انتظام کے ساتھ پارٹیوں میں '' ان '' اورآؤٹ ہوتے رہتے تھے، اگر چھوٹے میاں وزارت کو لاحق ہوتے تو بڑے بھائی اپوزیشن کو لاحق ہو جاتے تھے اور اگر کبھی کبھی اتفاق سے چھوٹے بھائی '' سابق '' ہو جاتے تھے توبڑے بھائی مشیر وغیرہ لاحق ہوجاتے تھے ۔
ایک دن کسی نے پوچھا کہ یہ آپ لوگ کرتے کیا ہیں کہ کبھی اس ڈال کبھی اس ہاتھ، تو بڑے بھائی جو خیر سے الحاج بھی تھے، بولے ہم سیاست تو نہیں ٹھیکیداری کرتے ہیں اور ٹھیکیداری کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، سوائے کرنسی کے اور سیاست میں صرف (ن) کا فرق پڑجاتا ہے نظریہ کرنسی کے بجائے کرسی ہو جاتا ہے۔ویسے بڑے بھائی الحاج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پیر کے مرید خاص بھی ہیں۔ پیر صاحب لنگر کا سارا خرچہ برداشت کرتے ہیں اور پیر صاحب ان کے لیے '' دعا '' فرماتے ہیں جو '' ٹیلیفون '' پر اپنے مرید افسران سے ہوتی ہے اور فوراً قبول ہو جاتی ہے (بلکہ جنت کی ہوا بھی ہو جاتی ہے۔