جنگل میں گرگٹ نگاری کا مور نچانا

کسی گرگٹ کو گرگٹ کہا جائے لیڈر وزیر رہنما بلکہ ممتاز رہنما بھی کہہ سکتے ہیں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔


Saad Ulllah Jaan Baraq May 11, 2018
[email protected]

KARACHI: تکبر غرور فخر و ناز اور ''مونچھ مروڑی'' ہماری عادت نہیں ہے اور کسر نفسی اور خاکساری ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے ورنہ دانائی دانہ گیری اور دانش مندی میں ہمارا کوئی کلام نہیں اور یہ ہم نہیں وہ لوگ کہتے ہیں جو ہم سے کچھ مانگنے یا قرضہ لینے آتے ہیں اور اپنا مطلب ظاہر کرنے سے پہلے ہماری کچھ صفات کی نشان دہی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

ان میں اکثر جو ہماری دانائی دانہ گیری سے کچھ زیادہ واقف ہوتے ہیں آنے سے پہلے ہمارا کوئی شعر یا قول زرین بھی از بر کرکے آتے ہیں اور پھر ان کے ذریعے ہمیں علم ہو جاتا ہے کہ ہمارے اندر کتنی صفات بھری ہوئی ہیں لیکن ہم خود ان سے آگاہ نہیں۔ اس بارے میں ہم تھوڑے سے علامہ اقبال پر گئے ہیں کہ

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے

واللہ نہیں ہے واللہ نہیں ہے

لیکن علامہ سے تھوڑا خوش نصیب ہونے کی وجہ سے ایسے بہت سارے مہربان ہمارے موجود ہیں جو کبھی کبھی ہمیں اپنی صفات سے آگاہ کرنے کا نیک کام کرتے رہتے ہیں۔ ابھی کل پرسوں ہی کی بات ہے ایک صاحب ہماری صفات کا پورا ٹوکرا بھر کر لائے تھے جو ہم سے اپنی بچی کے لیے ایک تقریر لکھوانا چاہتے تھے جو اسے ایک تقریری مقابلے میں پڑھنے کے لیے درکار تھی۔ تقریر تو ہم نے لکھ کر دے دی بلکہ اگر وہ اپنی بچی پر کتاب لکھنے کو بھی کہتے جو چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی تو ہم وہ بھی لکھ ڈالتے کیونکہ دیگر صفات کے ساتھ ساتھ اس نے ہمارے اندر ایک زبردست ''تجزیہ کار'' کو بھی دریافت کر لیا تھا جو ابھی تک ہم سے چھپا ہوا تھا۔

ان کے خیال بلکہ یقین کے مطابق ہم ٹی وی تجزیہ کار بن گئے تو باقی سارے تجزیہ کاروں کو اپنے لیے کوئی اور روز گار ڈھونڈنے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں بچے گا۔ دریافت ان کی تھی اس لیے ان ہی سے پوچھا کہ ہمارے لیے کونسا موضوع مناسب رہے گا کیونکہ تجزیہ کاروں کی تو بہت ساری کیٹگریاں ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار، تعلیمی تجزیہ کار، دفاعی تجزیہ کار، تجارتی تجزیہ کار وغیرہ اور یہ ساری کی ساری ''پوسٹیں'' بھری ہوئی بلکہ بہت زیادہ بھری ہوئی بلکہ چھلکی ہوئی ہیں کیونکہ گزشتہ رات ہم نے ایک چینل پر اکھٹے آٹھ تجزیہ کاروں کو بیک وقت بولتے بلکہ ''تجزیہ'' کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ جس کا سب سے بڑا فائدہ ہمیں یہ نظر آیا کہ کسی کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا اور یہی ایک اچھے ''تجزئے'' کی پہچان ہے۔ ہمارے اندر صفات کا ایک پورا براعظم دریافت کرنے والا وہ کولمبن بول۔ آپ گرگٹ کے تجزیہ کار بن سکتے ہیں۔

غلط فہمی کی وجہ سے ہمارے کان میں ''کرکٹ'' آیا تو عرض کیا کہ کرکٹ کے تو اتنے تجزیہ کار ہیں کہ اتنے کرکٹ کے کھلاڑی بھی نہیں ہوں گے۔بولا۔ نہیں میں کرکٹ نہیں گرگٹ کی بات کر رہا ہوں جو پلک جھپکنے میں اپنا رنگ تبدیل کرلیتا ہے۔بات اب ہماری سمجھ میں آگئی تو مزید وضاحت چاہی کہ آج کل گرگٹ ملتے کہاں ہیں۔ ہم کتنی بار ان علاقوں میں گئے ہیں جہاں کبھی گرگٹوں سانپوں اور بچھوؤں کی کالونیاں آباد تھیں لیکن آج کل وہاں کھیت اور فصلیں لہلہاتی ہیں۔

وہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ گرگٹوں کے تجزیہ نگار بن جائیے کیونکہ آج کل وہ سارے کے سارے گرگٹ اور سانپ بچھو شہروں میں آگئے ہیں۔ اب اس بارے میں ہم بالکل بے خبر تھے لیکن خدا اس شخص کو جزائے خیر دے اور اس کی بچی کو تقریری مقابلے میں اول مقام ملے کہ ہمیں تو وہ شخص حیران کر گیا۔ اس نے گرگٹوں 'سانپوں اور بچھوؤں کے بارے میں پورا معلوماتی پیکیج ہمیں دیا کہ واقعی ہمارے ارد گرد تو ان مخلوقات کا پورا دبستاں کھلا ہوا ہے بلکہ اس کے چلے جانے پر جب ہم نے اپنی یاد داشت کو کھنگالا تو یہ راز بھی کھلا کہ بعض لیڈروں، افسروں، دکانداروں کو دیکھ کر ہم اکثر ٹھٹھک کیوں جاتے ہیں اور تم کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے کا احساس ہوجاتا تھا۔

ایک بہت ہی مشہور گرگٹ کا جب ہم نے تصور قائم کیا جو ملکی سطح سے نکل کر بیرون ملک بھی خاصے مصروف ہیں تو گرگٹ کی ساری نشانیاں اس کے اندر موجود تھیں۔ حیرت ہوئی بلکہ شرمندگی ہوئی کہ ہم بھی کتنے بے بصارت و بے بصیرت ہیں بلکہ ایک بڑا ہی خوبصورت ٹپہ بھی یاد آیا جس میں لڑکی ایک لڑکے سے کہتی ہے ۔

سترگے دے وے وتلی نہ وے

چہ پہ محلت دے لوئیدم نہ دے لیدمہ

یعنی تمہاری آنکھیں تو موجود تھیں کسی نے نکالی نہیں تھیں کہ میں تمہارے محلے میں ''جوان'' ہو رہی تھی اور تم نے مجھے نہیں دیکھا۔ اور اب اپنے اندر خود ہی یہ کمی ہم دیکھ رہے تھے کہ سب ہمارے سامنے تھے اور پھر بھی ہم گرگٹوں کو دیکھ نہیں پارہے تھے، حد ہو گئی اندھے پن کی۔ بات تو طے ہوگئی کہ ہم واقعی گرگٹ تجزیہ کار بن سکتے ہیں کیونکہ گرگٹوں کے بارے میں ہماری معلومات بہت زیادہ وسیع ہیں۔

نہ صرف یہ کہ ہم خود بچپن کے زمانے میں جانور چراتے ہوئے گرگٹوں کو بہت دیکھتے رہے ہیں بلکہ گزشتہ چالیس پچاس سال بھی گرگٹوں کے درمیان ہی رہے ہیں اس عرصے میں ہم نے طرح طرح کے گرگٹ دیکھے ہیں وہ بھی جو پلک جھپکنے میں رنگ بدل کر ماحول کے مطابق ہو جاتے ہیں اور وہ بھی جن کے اندر ہر وقت کئی کئی رنگ موجود ہوتے ہیں۔ سامنے سے دیکھو تو سبز، دائیں سے دیکھو تو زرد، پیچھے سے دیکھو تو سرخ بائیں سے دیکھو تو نیلے، دور سے دیکھو تو سفید اور قریب سے دیکھو تو کالے سیاہ۔ بڑا اچھا فیلڈ سمجھایا ہے ۔

اس شخص نے گرگٹ نگاری میں ہم ٹاپ کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے ہمیں حلوہ ملے اور اس میں کانٹا یا کنکر نہ ہو، کباب ملے اور اس میں ہڈی نہ ہو فوراً ہی یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ ہم یہ گرگٹ نگاری کریں گے کہاں کسی چینل پر تو ممکن ہی نہیں کہ گرگٹوں کے درمیان رہ کر گرگٹوں سے ''بیر'' کوئی گرگٹ ہی رکھ سکتا ہے گرگٹ نگار نہیں۔ اخبار میں بھی تھوڑی سی آزادی سہی لیکن اتنی بھی نہیں کہ کسی گرگٹ کو گرگٹ کہا جائے لیڈر وزیر رہنما بلکہ ممتاز رہنما بھی کہہ سکتے ہیں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ گویا ہمیں اپنی گرگٹ نگاری کا ''مور'' اگر نچانا ہے تو صرف کسی جنگل میں نچا سکتے ہیں اور وہ تو ہم پہلے ہی سے نچا رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں