امریکی سفارتکار کی امریکا جانے کی کوشش ناکام

امریکا کو کرنل جوزف کا مسئلہ سفارتی سطح پر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔


Editorial May 14, 2018
امریکا کو کرنل جوزف کا مسئلہ سفارتی سطح پر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فوٹو:فائل

امریکا اور پاکستان کے درمیان سفارتی سطح پر جنم لینے والی کشیدگی اور تلخی کا کوئی مناسب حل نکلنے کے بجائے اس میں مزید بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ ان تمام معاملات کے تناظر کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو کشیدگی کا اصل ذمے دار امریکا ہے جو سفارتی سطح پر ذمے داری کا ثبوت نہیں دے رہا ہے۔

امریکی فضائیہ کا خصوصی طیارہ سی ون تھرٹی اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں تعینات ملٹری اتاشی کرنل جوزف، جن کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہے، کو لینے کے لیے نور خان ایئربیس راولپنڈی آ پہنچا مگر ایف آئی اے حکام نے امریکی سفارت کار کو پاکستان چھوڑنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، گھنٹوں انتظار کے بعد امریکی فضائیہ کا طیارہ سفارت خانے کا دوسرا عملہ اور سامان لے کر روانہ ہو گیا اور کرنل جوزف کو واپس اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے بھجوا دیا گیا۔

7 اپریل کو اسلام آباد میں تھانہ کوہسار کے علاقے میں امریکی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی کرنل جوزف کی گاڑی کی ٹکر سے ایک موٹرسائیکل سوار عتیق جاں بحق جب کہ دوسرا شدید زخمی ہو گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اسلام آباد پولیس نے امریکی سفارت خانے کی گاڑی کو تھانہ کوہسار منتقل کیا تاہم سفارتی استثنیٰ کے باعث ملٹری اتاشی کرنل جوزف کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

مقتول عتیق بیگ کے والد نے اس سلسلے میں عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ امریکی ملٹری اتاشی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جائے جس پر عدالت کی جانب سے وزارت داخلہ کو معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی گئی تھی اور وزارت داخلہ نے ایک رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں بتایا گیا کہ کرنل جوزف کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا اور اب وہ بیرون ملک نہیں جا سکتے ہیں۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے بعد کرنل جوزف کو مکمل سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں، ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہے لہٰذا وہ بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ کرنل جوزف کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہونے کے بعد امریکی حکام کو یہ مسئلہ سفارتی سطح پر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی تاکہ قواعد وقوانین کے مطابق اس کا کوئی مناسب حل تلاش کیا جاتا مگر امریکی حکومت نے طاقت کے زعم میں اپنے ملک میں پاکستانی سفارت کاروں کی نقل وحمل پر پابندیاں عائد کر دیں۔

11 مئی کو عائد کی گئی ان پابندیوں کے تحت امریکا میں تعینات پاکستانی سفارتی اہلکار سفارت خانے سے 25 میل کے فاصلے کے اندر رہیں گے اور اگر انھیں اس حدود سے باہر جانا ہو تو امریکی محکمہ خارجہ سے خصوصی اجازت حاصل کرنا لازم ہو گا۔

ان سفارتی پابندیوں کے جواب میں پاکستان نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی سفارت کاروں پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کر دیں، وزارت خارجہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پاکستانی ایئرپورٹس پر امریکی سفارتخانے کے سامان کی ترسیل کو ویانا کنونشن کے مطابق دیکھا جائے گا، امریکی سفارت کاروں کو پاکستان میں نقل وحمل سے پہلے متعلقہ پاکستانی حکام سے اجازت لینا ہوگی۔

نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی سفارت خانے کی اپنی یا کرائے پر لی گئی گاڑیوں پر کالا شیشہ لگانے کی اجازت نہیں ہو گی جب کہ زیر استعمال گاڑیوں پر اصلی نمبر پلیٹ لگانا لازمی ہوگا۔ امریکی سفارت خانے کی آفیشل گاڑیوں پر نان ڈپلومیٹک نمبر پلیٹ کی اجازت نہیں ہو گی جب کہ کرائے کی عمارتوں کے حصول اور تبدیلی کے لیے این او سی لینا ہوگا، امریکی سفارت کاروں کے لیے بائیومیٹرک تصدیق کے بغیرفون سمزجاری نہیں کی جائیں گی۔

امریکا کو کرنل جوزف کا مسئلہ سفارتی سطح پر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ناکہ وہ ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے براہِ راست اپنا طیارہ پاکستان بھیج دے اور پاکستانی حکومت کی اجازت کے بغیر بلیک لسٹ میں شامل ملٹری اتاشی کو واپس لے جانے کی کوشش کرے۔ جب پاکستانی حکومت ملٹری اتاشی کو بلیک لسٹ کر چکی ہے تو امریکا نے کیوں اپنا طیارہ اسے لے جانے کے لیے پاکستان میں اتارا۔ زیادہ بہتر تھا کہ دونوں ملک اس پر پہلے بات چیت کرکے معاملات طے کرلیتے تاکہ اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے ، اس سے بچا جاسکتا۔

شاید امریکا پاکستان کو ایک کمزور ملک سمجھتے ہوئے یہاں اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانی حکومت کو امریکا پر واضح کر دینا چاہیے کہ اسے اقوام متحدہ کے قوانین کا احترام کرتے ہوئے اپنے سے چھوٹے ممالک کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات ماضی کی خوشگوار اور ناخوشگوار تبدیلیوں سے آراستہ ہیں۔ ماضی میں کئی بار دونوں ملکوں کے درمیان تناو کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔

اب اگر کوئی نئی تلخی یا کشیدگی پیدا ہوئی ہے تو اسے غیرسفارت کارانہ انداز سے حل کرنا قطعی طور پر صائب عمل نہیں، بہتر ہے امریکا اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرے تاکہ دونوں ملک اسٹرٹیجک معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرسکیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں