قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس

قومی سلامتی کمیٹی نے متفقہ طور پر سابق وزیراعظم نواز شریف کا بیان مسترد کردیا۔


Editorial May 15, 2018
قومی سلامتی کمیٹی نے متفقہ طور پر سابق وزیراعظم نواز شریف کا بیان مسترد کردیا۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بیان پر قومی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے، اعلامیہ کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے متفقہ طور پر سابق وزیراعظم نواز شریف کا بیان مسترد کردیا، اجلاس کے بلاتاخیر انعقاد کا بنیادی مقصد بھی غالباً کولیٹرل ڈیمیج کا گہرا ادراک اور بیان کے ازالہ کی کوئی سبیل تلاش کرنا تھا، جو بلاشبہ سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بالاتفاق پورا ہوا، اور سیکیورٹی پر مامور ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجلاس میں صورتحال کا جائزہ لیا۔

اجلاس میں مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر غور وفکر کرکے سیاست دانوں تک یہ پیغام پہنچایا گیا کہ تمام محب وطن پاکستانی وقت کی نزاکت کا خیال کریں اور خاص طور پر سیاسی رہنما اپنے بیانات میں حقائق سے چشم پوشی نہ کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بیان نے زبردست ارتعاش پیدا کیا، ملکی میڈیا پر اس حوالہ سے بحث اور تجزیئے خاصے پرشور ہیں جب کہ بھارتی میڈیا نے صحافتی اقدار کی دھجیاں اڑائیں، بیان کو پاکستان کی سالمیت کے برخلاف اپنے مکروہ اور گھناؤنے پروپیگنڈہ کے لیے خوب استعمال کیا، تاہم یہ خوش آیند اور نتیجہ خیز اجلاس تھا جو ''بات نکلی ہے تو اب دیکھیں کہاں تک پہنچے'' کی دشمنوں کی خواہش ناتمام پر منتج ہوا۔

اسے جمہوری تسلسل کی پیش رفت کہنا چاہیے کہ قومی معاملات پر مکالمہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے، چنانچہ سابق وزیراعظم کے حالیہ متنازع بیان سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کے لیے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس پیر کو 2 گھنٹے جاری رہا، اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں ممبئی حملوں سے متعلق ایک اخباری بیان کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 12 مئی کو شایع ہونے والا بیان مکمل طور پر غلط، گمراہ کن(مس لیڈنگ)ہے۔اعلامیہ کے مطابق بھارت ممبئی حملے کی تحقیقات مکمل نہ ہونے کا ذمے دار ہے، جب کہ پاکستان نے ممبئی حملوں کی تحقیقات کے لیے مکمل تعاون کیا، اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان بھارت سے کلبھوشن اور سمجھوتہ ایکسپریس کے کیسز میں تعاون کا منتظر ہے، کیس کے مرکزی ملزم اجمل قصاب تک رسائی نہیں دی گئی، اجمل قصاب کی غیرمعمولی طور پر جلد بازی میں پھانسی کیس کے منطقی انجام میں رکاوٹ بنی۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزراء، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات سمیت بحری اور فضائی افواج کے سربراہان شریک ہوئے جب کہ اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، ڈی جی آئی بی محمد سیلمان خان، ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا اور اعلیٰ سول و عسکری حکام نے بھی شرکت کی۔

واضح رہے پاک فوج نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی تھی، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے اس حوالے سے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں کہا گیا تھا کہ اجلاس میں ممبئی حملوں کے حوالے سے میڈیا پر چلنے والے گمراہ کن بیانات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جائے گا، اجلاس میں شرکاء کو ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کے تحقیقاتی اقدامات اور تعاون پر بریفنگ بھی دی گئی۔

بہرحال اسے ملکی سیاست کی معروضی صورتحال کے سیاق وسباق میں بدقسمتی کہا جائے گا کہ کثیرسمتی داخلی و خارجی چیلنجز کے گرداب سے نکلنے کی کوششوں میں نواز شریف کے ممبئی حملوں سے متعلق بیان نے سیاسی کشمکش کو نیا رخ دیا اور میڈیا پر ایسی ہلچل سی مچ گئی کہ ریاستی ادارے، سیکیورٹی حکام ، سیاسی حلقے اور عوام کو نہ صرف اس کا بیک وقت نوٹس لینا پڑا بلکہ اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ان واقعات و محرکات سے پیداشدہ صورتحال پر فوری طور پر سنجیدگی سے سویلین و عسکری قیادت غور و فکر کرے اور ان اسباب و عوامل کا جائزہ لیا جائے جو اس بیان کے نتیجہ میں سامنے آئے ہیں۔

بلاشبہ ایسے وقت میں جب پوری قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ تقریباً جیت چکی ہے، پاکستان کو تنہائی کا شکار بنانے اور ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے والی دشمن طاقتوں سے نمٹنے میں قوم ایک پیج پر آئی ہے، اسے پھر سیاسی بیانیوں کے بے ہنگم شور سے زچ نہ کیا جائے، اس لیے لازم تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیان کا ازالہ ہو، اس کی تردید ہو، اسے خود سیاسی سواد اعظم لمحہ موجود کی حساسیت کے لیے مہلک سمجھے اور کوشش ہونی چاہیے کہ تزویراتی، علاقائی اور خطے کی نازک اور تہلکہ خیز صورتحال کے تناطر میں حد درجہ احتیاط برتی جائے۔

حقیقت میں نواز شریف کے اخباری انٹرویو نے مسئلہ پیدا کیا، جو ملتان جلسے سے قبل لیا گیا تھا اور وہ ممبئی حملہ کے واقعاتی حوالہ سے انتہائی متنازعہ قراردیا گیا، لہٰذا سیاسی و عسکری ارباب بست وکشاد آمنے سامنے بیٹھ کر قومی سلامتی کو درپیش مسائل پر آیندہ بھی بات کریں، قومی امنگوں کے مطابق ابہام و انتشار کا راستہ مستقل طور پر بند کر دیں اور کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ دشمنوں کو ہمیں مزید الجھانے کا موقع نہ مل سکے۔

اگرچہ مسلم لیگ(ن)کے قائد میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ اصولوں پر کسی سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے کوئی غلط بات نہیں کی، یہی باتیں رحمن ملک، پرویز مشرف اور محمود درانی کہہ چکے ہیں، تاہم پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر محمد شہباز شریف نے شایع ہونے والی رپورٹ کے تمام دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن اس خبر کے تمام مفروضوں اور دعوؤں کو، چاہے وہ براہ راست ہوں یا بالواسطہ، اسے یکسر ردکرتی ہے۔ نوازشریف سے غلط طور پر منسوب ریمارکس مسلم لیگ ن کی پارٹی پالیسی کی نمایندگی نہیں کرتے۔

گزشتہ روز ایک بیان میں شہبازشریف نے کہا کہ ریاست پاکستان اور اس کے تمام ادارے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔

قبل ازیں نجی ٹی وی کے مطابق مسلم لیگ ن کے ترجمان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ قائد ن لیگ کی جانب سے ایک انگریزی اخبار کو دیے گئے انٹرویو کی بھارتی میڈیا نے غلط تشریح کی اور اسے توڑمروڑ کر پیش کیا، انٹرویو سے متعلق حقائق گمراہ کن انداز میں بیان کیے گئے۔ میڈیا کے مطابق ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا کی غلط تشریح کو بدقسمتی سے پاکستان کے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ایک حلقے نے ارادی یا غیرارادی طور پر بھارتی خبروں کی توثیق کی۔

ادھر دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف کے ملتان میں انٹرویوکے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کی بات کا غلط مطلب نکالا گیا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے ان باتوں کی درست توجیہہ اور وضاحت کیا ہے؟ بلاشبہ وقت آگیا ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت آیندہ بھی آمنے سامنے بیٹھ کر قومی سلامتی کو درپیش مسائل پر اوپن ڈائیلاگ کریں۔ جمہوریت کی گاڑی اسی طرح آگے بڑھتی رہے گی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں