بلوچستان و نوشہرہ میں دہشتگردی

دہشتگردوں کو فرقہ واریت، تشدد و نفرت اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے لیے کوئی موقع نہیں ملنا چاہیے


Editorial May 19, 2018
دہشتگردوں کو فرقہ واریت، تشدد و نفرت اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے لیے کوئی موقع نہیں ملنا چاہیے۔ فوٹو:فائل

سیکیورٹی فورسز نے ایف سی مددگار سینٹر کوئٹہ پر حملے کی کوشش ناکام بنا دی اور پانچ حملہ آوروںکو ہلاک کردیا گیا۔ جمعرات کو آئی ایس پی آر کے مطابق پانچ دہشتگرد دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی کے ساتھ سینٹر میں داخل ہونا چاہتے تھے، تاہم ایف سی کی بروقت کارروائی سے پانچوں خودکش حملہ آور مارے گئے، تمام حملہ آور افغان شہری لگتے ہیں۔

ادھر نوشہرہ کینٹ کچہری چوک پھاٹک پر خودکش موٹرسائیکل سوار نے خود کو سیکیورٹی کانوائے میں شامل پک اپ کے ساتھ ٹکرادیا جس سے زور دار دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں خودکش حملہ آور ہلاک اور 14افراد زخمی ہوگئے جن میں چھ سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں جنھیں سی ایم ایچ اسپتال پہنچا دیا گیا۔

مذکورہ دونوں واقعات کی مماثلت جہاں دہشتگردوں کی فعالیت کے مذموم مقاصد کو عیاں کرتی ہے وہاں ان بزدلانہ وارداتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگردی کی کمان کی کمر تو ٹوٹ چکی مگر اس کی مشتعل اور قتل وغارت پر کمربستہ باقیات اب بھی موجود ہے، جب کہ بنیادی پریشان کن سوال خود کش حملہ آوروں کا گٹھ جوڑ، مصروف راستوں سے ہوتے ہوئے کئی کلو وزنی بارودی گاڑی لے کر ہدف پر پہنچنے کی صلاحیت اور ٹائمنگ کا ہے، جو اب بھی خطرہ کی علامت ہے۔

میڈیا کے مطابق مددگار سینٹر تک پانچوں دہشتگرد پہنچ چکے تھے، وہ کیسے پہنچے اس نکتہ پر کبھی سیکیورٹی میکنزم نے ناقابل شکست دہشتگردی مخالف اسٹرٹیجی کا کوئی روڈ میپ نہیں دیا، چنانچہ وارداتیں مسلسل ہوتی رہتی ہیں اور اپنے دفاع میںہمارے جوان اور سیکیورٹی اہلکار ادائے فرض میں جانیں قربان کردیتے ہیں۔

جس کا مثالی مظاہرہ چوکس ایف سی کے اہلکاروں کی بروقت فائرنگ اور دلیرانہ کارروائی کی شکل میں دیکھنے میں آیا جس کے باعث حملہ آوروں کا خودکش حملہ ناکام بنادیا گیا اور سب مارے گئے، اسی کارروائی میں کرنل سہیل عابد نے جام شہادت نوش کیا۔

بلاشبہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور اس کے بعد ردالفساد کے جاری آپریشن سے جہاں انتہاپسندوں کا صفایا کیا جارہا ہے اور ان کے سہولت کاروں کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جارہا ہے مگر ایک پری ایمپشن پالیسی ہونی چاہیے جو دہشتگردوں اور خودکش حملہ آوروں کو ان کے خفیہ ٹھکانوں پر دبوچ لے، وہ شہر کی سڑکوں اور شاہراہوں سے گزر کر ہدف تک نہ پہنچ پائیں۔

ایسی داخلی سیکیورٹی ہی بلوچستان سمیت ملک کے تمام شہروں اور دیہات کو ناگہانی حملوں اور دہشتگردی کی وارداتوں سے پیشگی تحفظ دے سکتی ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں سے دہشتگردوں نے بلوچستان کو ٹارگٹ بنا لیا ہے، ہزارہ برادری اور مزدوروں کی دردناک ہلاکتوں نے قوم کو صدمہ سے دوچار کیا ہے، نوشہرہ کا واقعہ بھی کم الم ناک نہیں، کاؤنٹر ٹیرر حکمت عملی اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

ارباب اختیار سیاسی خلفشار کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، اس لیے اب بڑی ذمے داری سیکیورٹی حکام کی ہے کہ وہ دہشتگرد نیٹ ورک کو صورتحال سے فائدہ اٹھانے نہ دیں، ان کا قلع قمع کرکے ہی دم لیں۔

گزشتہ روز شہید کرنل سہیل عابد کو فوجی اعزاز کے ساتھ سپردخاک کردیا گیا۔ اس موقع پر پاک فوج کے سربراہ نے کہا کہ جب بھی میرا کوئی سپاہی شہید ہوتا ہے، مجھے لگتا ہے جیسے میرے جسم کا ایک حصہ جدا ہوگیا ہے۔

دوسری جانب الماس کلی آپریشن میں زخمی ہونے والا اے ٹی ایف سپاہی سید ثناء اللہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔ اس طرح گزشتہ روز کے آپریشن میں شہداء کی تعداد 2 ہوگئی۔ شہید ثناء اللہ کی نماز جنازہ پولیس لائن میں ادا کی گئی جس میں آئی جی پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بلال احمد کاکڑ، پولیس اور ایف سی کے افسران نے شرکت کی۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کرنل سہیل عابد کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کااظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی غیور افواج مادر وطن سے آخری دہشتگرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گی۔

دریں اثنا وزیرداخلہ احسن اقبال نے صحت یابی کے بعد ذمے داریاں سنبھالتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگردوںکی کمر توڑ دی گئی ہے تاہم دہشتگردی کے خلاف حتمی جنگ جیتنا ابھی باقی ہے، وہ جمعرات کواسلام آباد پولیس لائنز ہیڈ کوارٹرز میں انسداد دہشتگردی فورس کے کانسٹیبلز کی 31 ویں پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ ہمیں مل کر پاکستان اور آئین کا دفاع کرنا ہوگا، جو نفرت پھیلاتا ہے وہ ملک دشمن ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشتگردوں کو فرقہ واریت، تشدد و نفرت اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے لیے کوئی موقع نہیں ملنا چاہیے، دہشتگرد تنظیموں کے بے چہرہ خودکش بمبار بلوچستان میں آپریٹ کررہے ہیں، بظاہر سیاسی عمل جاری رہنے کے باوجود حکومتی ارکان اور اپوزیشن ایوان کو اکھاڑہ بنائے ہوئے ہیں، شور شرابہ، گالم گلوچ، دھینگا مشتی اور ایجنڈہ کی کاپیاں پھاڑی جارہی ہیں، بلوچستان اور فاٹا کو دہشتگردوں کی آمدورفت کا سامنا ہے۔

کلی الماس واقعہ میں بھی افغان دہشتگروں کا عمل دخل بتایا گیا ہے، بلوچستان حکومت کو سیاسی چیلنجوں سے نمٹنا بھی ہے اور داخلی امن وامان کی صورتحال اور دہشتگردی کے وائرس کو کنٹرول کرنا بھی ہے۔ یہ وقت تدبر و حکمت سے کام لینے کا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں