عہد ماضی کے نرالے رسم و رواج

ذیشان محمد بیگ  اتوار 20 مئ 2018
مغربی دنیا میں رائج وہ عجیب و غریب باتیں جو اب متروک ہوچکی ہیں۔ فوٹو: فائل

مغربی دنیا میں رائج وہ عجیب و غریب باتیں جو اب متروک ہوچکی ہیں۔ فوٹو: فائل

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آج کی نسبت ماضی میں لوگ کم سنکی ہوا کرتے تھے تو یہ آپ کی بھول ہے۔

آپ ان کے فیشن اور روایات پر تحقیق کریں، ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ ذیل میں کچھ ایسی ہی دلچسپ چیزیں پیش کی جارہی ہیں جو پہلے زمانے کے لوگ اپنا ایک معمول سمجھ کر کیا کرتے تھے مگر آج وہ ہمارے لیے کسی حد تک مضحکہ خیز ہیں۔ اسی سے آپ اندازہ لگائیں کہ وہ کتنے نرالے لوگ تھے۔

-1 پہلی اور دوسری نیند

500 سال بعد از مسیح سے لے کر 1500 سال بعداز مسیح تک کا زمانہ یورپ کی تاریخ میں ’’مڈل ایجز‘‘ (Middle Ages) یا ’’میڈیول ایجیز‘‘ (Medieval Ages) کہلاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب اس وقت کی دنیا کی عظیم سپرپاور ’’رومن ایمپائر‘‘ زوال کا شکار ہورہی تھی جبکہ دوسری طرف عظیم عثمانی سلطنت کے عروج کا سورج طلوع ہورہا تھا۔ اسی دور میں یورپ کے لوگ نیند پوری کرنے کے لیے ایک ایسے ترتیب کار پر عمل پیرا تھے، جسے آج ہم ’’بائی فیزک سلیپ‘‘ (Biphasic Sleep) کا نام دیتے ہیں۔ اس طریق کار میں لوگ سورج غروب ہوتے ہی سو جاتے تھے۔ اس نیند کا دورانیہ نصف شب  تک ہوتا تھا۔ اس کے بعد آدھی رات کو لوگ دو سے تین گھنٹوں کے لیے جاگ اٹھتے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو اپنا یہ وقت عبادت یا مطالعے میں گزارتے جبکہ چند لوگ اپنے خاندان یا ہمسایوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتے تھے۔ اس کے بعد دوسری نیند کا وقت شروع ہوجاتا جو طلوع آفتاب تک جاری رہتا اور سورج نکلنے کے بعد لوگ دوبارہ اٹھ کر اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہوجاتے۔ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ آج کل ہم لوگ اسی طرح نیند کے کئی دورانیوں سے گزرتے ہیں۔ یہ دورانیے اس بات پر منحصر ہوتے ہیں کہ بچے کتنی بار رو کر ہمیں جگاتے ہیں۔

-2 جیتے جاگتے الارم

آج ہمیں اگر صبح جلدی اٹھنا ہو تو ہم الارم لگاتے ہیں تاکہ وقت پر اٹھ سکیں۔ تاہم ’’ناکر اپر‘‘ (Knocker Upper) ایک ایسا پیشہ تھا جو اٹھارویں صدی بعداز مسیح کے درمیانی عرصے سے لیکر 1950ء کی دہائی تک موجود رہا۔ اس پیشے کو اختیار کرنے والوںکا کام یہ تھا کہ وہ صبح سویرے مقررہ وقت پر آکر ان لوگوں کو جگائیں جنہوں نے صبح جلدی اٹھ کر اپنے کاموں پر جانا ہوتا تھا۔ یہ اٹھانے والے اپنے گاہکوں کے گھروں کے دروازے  پر لکڑی کی چھڑیوں سے دستک دیتے تھے اور اگر ان کا گاہک اوپر کی منزل پر رہائش پذیر ہوتا تھا تو وہ لمبے ڈنڈوں سے کھڑکیاں پیٹتے اور یا پھر پتلے سے بانسری نما باجے بجا کر انہیں نیند سے بیدار کرتے تھے۔ یہ تو واضح نہیں کہ خود ان ’’انسانی الارموں‘‘ کو صحیح وقت پر کون جگاتا تھا لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا کام سرانجام دینے سے پہلے سوتے ہی نہیں ہوں گے۔

ہمارے یہاں رمضان شریف کے مہینے میں سحری کے وقت جگانے والوں کی ٹولیاں شاید ان ہی کی ایک قسم ہیں جو ڈھول یا کنستر بجا کر لوگوں کو سحری کے لیے جگاتے ہیں۔

-3 ننھے بچوںکے کپڑے

سولہویں صدی سے لے کر 1920ء کی دہائی تک یورپ میں یہ روایت تھی کہ 4 تا 8 برس کی عمروں کے چھوٹے لڑکوں کے لیے لازمی تھا کہ وہ لڑکیوں جیسے کھلے ڈلے فراک نما  کپڑے پہنیں۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس دور میں مروج مردانہ سٹائل کے کپڑے بہت مہنگے ہوتے تھے اور بچہ کیونکہ روز بروز بتدریج بڑا ہورہا ہوتا ہے تو اس لیے ہر کچھ مہینوں کے بعد اس کے لیے نئے کپڑے لینا کافی مہنگا سودا پڑتا تھا۔ یہ رواج نہ صرف عام لوگوں بلکہ شاہی خاندانوں تک میں رائج تھا۔

-4 ’’چوپینز‘‘ (Chopines)

انسان ہر دور میں فیشن کا دلدادہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ غاروں میں رہنے کے زمانے میں بھی وہ اپنی آرائش کے حوالے سے حساس تھا۔ لیکن عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ فیشن وہ ہونا چاہئے جو فائدہ مند بھی ہو۔ ’’چوپینز‘‘ جنہیں ’’زاخولی‘‘ (Zoccoli) یا ’’پیانیل‘‘ (Pinelle)  بھی کہا جاتا ہے، ایسے جوتے ہوتے تھے جو 20 انچ (50 سینٹی میٹرز) تک اونچے بنائے گئے ایک پلیٹ فارم کے اوپر چپکے ہوئے ہوتے تھے۔ ان جوتوں کو پہن کر چلنے کے لیے باقاعدہ سہارا دینے والے نوکر رکھے جاتے تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر اس طرح کے جوتوں کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، جن کو پہن کر چلنے کے لیے اتنا تردود کرنا پڑتا تھا ؟ تو بات یہ ہے کہ ایسے جوتے اس دور کے فیشن کا حصہ نہیں تھے بلکہ یہ اس لیے بنائے جاتے تھے تاکہ ان کو پہننے والوں کے پاؤں اور کپڑے گلیوں کی کیچڑ اور دھول مٹی سے محفوظ رہ سکیں۔ اس بات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس زمانے میں یورپ کے گلی کوچے بھی ہماری گلیوں کی طرح گندے ہی ہوتے تھے۔

-5 فصد کھلوانا

اگر کوئی خدانخواستہ بیمار ہو جائے تو ناصرف اس کی بلکہ اس کے خاندان والوں اوردوست احباب کی کوشش و خواہش یہی ہوتی ہے کہ اسے جلد از جلد صحت یابی مل جائے۔ اسی تناظر میں تمام امراض کے علاج کے طور پر فصد کھلوانا (جسم پر کٹ لگا کر فاسد خون اورمادوں کا اخراج) گزشتہ دو ہزار سال سے ایک مقبول ذریعہ علاج رہا ہے اور اس کو جملہ بیماریوں کا شافی علاج سمجھا جاتا تھا مگر عموماً یہ فائدے کی بجائے نقصان دہ ہی ثابت ہوتا تھا کیونکہ ایک تو یہ ہر مرض کی دوا نہیں ہے، دوسرے اس میں دیگر عوامل جیسے گندے اوزاروں کا استعمال اور ایک ہی اوزار کو سب مریضوں پر استعمال کرنا وغیرہ بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے مریض کو اپنی بیماری سے شفا ملتی یا نہ ملتی، لیکن وہ دوسری کئی بیماریوں کا شکار ضرور ہوجاتا تھا اور بعض اوقات زیادہ خون بہہ جانے کے باعث مریض الٹا مزید کمزور ہوکر نڈھال بھی ہوجاتا۔

-6 حفظان صحت کے اصولوں سے انحراف

’’میڈیول ایجز‘‘ (Medieval Ages) کا ذکر اوپر آ چکا۔ اس زمانے کے چند یورپی ممالک میں لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ پانی کا جسمانی استعمال انسانی صحت کے لیے مضر ہے اور وہ صرف بیماریاں پھیلاتا ہے۔ ان کے نزدیک سر میں پڑنے والی ’’جوئیں‘‘ بھی ’’خدا کے موتیوں‘‘ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ عقیدہ صرف عامۃ الناس کا ہی نہیں تھا بلکہ شاہی خانداں اور بادشاہ و حکمران بھی اسی بات پر یقین رکھتے تھے۔ اسپین کی ملکہ ازابیلا اول اس بات پر فخر کا اظہار کرتے نہ تھکتی تھی کہ وہ اپنی ساری زندگی میں صرف دوبار نہائی تھی۔ ایک بار اپنی پیدائش پر اور دوسری بار اپنی شادی کے موقع پر۔ ایک روایت کے مطابق ایک مرتبہ اس کے دربار کے ایک امیر نے جب اس کے گندے ہاتھوں اور ناخنوں کے بارے میں تبصرہ کیا تو ملکہ نے اٹھلا کر جواب دیاکہ ’’ابھی تو تم نے میرے پاؤں نہیں دیکھے۔‘‘

-7 مردوں کے ساتھ تصاویر

انیسویں صدی میں ایک اور مروجہ طریقہ،  جو آج ہمیں بہت عجیب دکھائی دیتا ہے وہ یہ تھا کہ مردوں کو باقاعدہ اچھے اچھے کپڑے پہنا کر اور خوب تیار کرکے ان کے ساتھ تصاویر بنوائی جاتی تھیں۔ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اس طرح وہ اپنے ان پیاروں کی خوشگوار یادیں محفوظ کررہے ہیں، جو اس دنیا سے چلے گئے۔ مگر اس تصویر کشی کا یہ اصول تھا کہ مردہ شخص تصویر میں زندہ نظر آنا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہیں جدید فیشن کے کپڑے پہنائے جاتے۔ کسی خاتون کی میت ہونے کی صورت میں اس کا میک اپ کیا جاتا اور ان کی بند آنکھوں کی پلکوں کے اوپر آنکھیں بنائی جاتیں تاکہ  آنکھیں کھلی ہوئی دکھائی دیں اور مردہ زندہ محسوس ہو۔

8- ہیروئن یا کھانسی کاشربت

حیرت انگیز طور پر آج سے سو سال قبل تک ہیروئن کو مارفین کا ایک بے ضرر سا متبادل سمجھا جاتا تھا اور یہ میڈیکل سٹوروں پر کھانسی کی دوا کے طور پر کھلے عام بیچی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ یہ سیرپ بچوں کو بھی پلایا جاتا تھا ۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ ہیروئن، جگر میں جا کر مارفین میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یوں 1924ء میں دنیا بھر میں اس کا استعمال ممنوع قرار دے دیا گیا۔ البتہ جرمنی میں اس پر 1971ء میں پابندی لگی۔

9- ہوائی جہازوں میں تمباکو نوشی

ماضی قریب یعنی آج سے تقریباً 50 تا 60 برس پہلے تک بھی تمباکونوشی کوئی بری عادت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ لوگ ہوائی جہازوں میں دوران سفر دوسرے مسافروں کی موجودگی کے باوجود بھی اس عادت بد سے محظوظ ہونا پسند کرتے تھے۔ حالانکہ آج کل جہازوں میںتمباکو نوشی کی ممانعت ہے لیکن چند ممالک میں یہ پابندی اب بھی درخور اعتناء نہیںسمجھی جاتی ۔

10- مشینی غسل خانے

آج کل کے برعکس اٹھارویں اور انیسویں صدی میں لوگ سمندروں کے ساحل یا دریاؤں کے کنارے پر کم کپڑوں میںنہانا تہذیب کے خلاف سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ ان جگہوں پر نہانے کے لئے یہ چلتے پھرتے مشینی غسل خانے استعمال کرتے تھے۔ یہ مشینی غسل خانے بگھی نما ہوتے تھے اور کسی ساحلی ’’ہٹ‘‘ (HUT) کی طرح کے دکھائی دیتے تھے۔ ان بگھی نما مشینی غسل خانوں کو ان میں لگے پہیوں کی مدد سے پانی میں دھکیل دیا جاتا تھا اور ان کے اندر موجود شخص دوسروں کی نظروں میں آئے بغیر آرام کے ساتھ غسل سے لطف اندوز ہوتا۔ مزید یہ کہ اس دور میں اخلاقیات کا یہ عالم تھا کہ خواتین کے لیے مخصوص ایسے مشینی غسل خانے، مردوں کے غسل خانوں سے دور فاصلے پر رکھے جاتے تھے تاکہ ان کی بے پردگی نہ ہو۔

اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے زمانے میں معاشرہ چاہے مشرق کا ہو یا مغرب کا‘ کم از کم شرم و حیا اور تہذیب و اخلاق کا خیال ضرور رکھا جاتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔