65 ملین گیلن فراہمی آب کے منصوبے میں مزید تاخیر کا امکان

سید اشرف علی  پير 21 مئ 2018
5.9 ارب روپے کی لاگت آئے گی، واٹر بورڈ نے منصوبے کی تکمیل جون 2019 رکھی۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

5.9 ارب روپے کی لاگت آئے گی، واٹر بورڈ نے منصوبے کی تکمیل جون 2019 رکھی۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

کراچی: حکومت سندھ نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں65 ملین گیلن یومیہ اضافی فراہمی آب کے منظوبے کے لیے صرف 60 کروڑ روپے مختص کیے ہیں جس کے باعث شہر کو فراہمی آب کے اہم ترین منصوبے میں تاخیر کا امکان ہے۔

ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی نے کراچی شہر کے لیے کینجھر جھیل اور ہالیجی جھیل سے فراہمی آب کا 65 ملین گیلن کا اہم منصوبہ رواں سال یکم مارچ سے شروع کردیا ہے منصوبے کا اہم پہلو ہالیجی جھیل کا احیا اور صفائی ہے جس کے تحت 25 سال کے بعد ہالیجی جھیل سے کراچی کو دوبارہ 20 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی ہوگی۔

منصوبہ پر 5.9 ارب روپے کی لاگت آئے گی سندھ حکومت کے 2018-19کے بجٹ میں اس منصوبے کے لیے صرف 60کروڑ روپے رکھے ہیں اور تکمیل کی مدت جون 2021 ظاہر کی گئی ہے۔

بجٹ دستاویزات کے مطابق 2019-20 کے بجٹ میں اس منصوبے کے لیے2.5 ارب روپے رکھے جائیں گے جبکہ 2020-21 کے بجٹ میں بھی 2.5ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔

ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کے منیجنگ ڈائریکٹر خالد محمود شیخ نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 65 ملین گیلن یومیہ فراہمی آب کے منصوبے پر ترقیاتی کام یکم مارچ سے شروع کردیا ہے اور اسے 18ماہ میں مکمل کیا جانا ہے تاہم واٹر بورڈ کی کوشش ہے کہ اسے جون 2019 میں مکمل کیا جائے اگلے مالی سال کے بجٹ میں اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 5 ارب روپے کی ضرورت ہوگی، یہ شہر کا اہم ترین منصوبہ ہے جسے فوری مکمل کیا جانا ہے لہٰذا سندھ حکومت سے درخواست کی جائے گی کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں اس منصوبے کے لیے مطلوبہ فنڈز 5 ارب روپے مختص کردیے جائیں۔

خالد شیخ نے اس بات پر یقین ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت واٹربورڈ کی درخواست منظور کرلے گی اور یہ منصوبہ تاخیر کا شکار نہیں ہوگا، واٹر بورڈ کے متعلقہ افسران نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ واٹر بورڈ کی جانب سے 65 ایم جی ڈی اضافی پانی کے لیے 2012 سے کوششیں کی جارہی تھیں تاہم سندھ حکومت کی جانب سے فنڈز کی فراہمی نہ ہونے کے باعث یہ منصوبہ تاخیر کا شکار رہا۔

2015 میں سندھ حکومت نے اس منصوبے کی منظوری دی 2016-17 میں اس منصوبے کی ابتدائی اسٹڈی کی گئی -18 2017 کے بجٹ میں ایک ارب روپے مختص کیے گئے تاہم صرف 25کروڑ روپے جاری کیے گئے ، اس فنڈز سے تفصیلی اسٹڈی اور ڈیزائننگ کی گئی کنسلٹنٹ نے ڈیزائننگ کا یہ کام 6 ماہ میں مکمل کیا بعدازاں ٹینڈر طلب کرکے کم بولی دینے والی NLC کو کنٹریکٹ ایوارڈ کرکے ترقیاتی کام شروع کرادیا گیا ہے۔

واٹر بورڈ کے افسران کا کہنا ہے کہ بجٹ کے اعداد و شمار اپنی جگہ تاہم یہ منصوبہ اہم نوعیت کا ہے، واٹر بورڈ منصوبے کے ایک پیکج پر ترقیاتی کام شروع کرچکی ہے جبکہ 2 ترقیاتی پیکیجز پر رواں ماہ ٹینڈر ایوارڈ کردیا جائے گا ، واٹر بورڈ اگلے مالی سال کی بجٹ میں مختص 60کروڑ روپے ان تینوں ترقیاتی پیکجز کے موبلائزنگ فنڈ کے طور پر استعمال کرلے گا جبکہ اسے مزید فنڈز کی اشد ضرورت ہوگی جس کے لیے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا جائے گا اور یہ فنڈز بلاک ایلوکیشن سے منظور ہوجائیں گے۔

سندھ حکومت کے ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی حکومت نے عام انتخابات کی وجہ سے نئی اسکیموں کے لیے فنڈز مختص نہیں کیے ہیں اور کچھ پرانے منصوبوں کے لیے کم فنڈز رکھے گئے ہیں تاہم بلاک ایلوکیشن میں50 ارب روپے رکھے ہیں آئندہ منتخب حکومت جب آئے گی وہ اس بجٹ کی تصدیق کرے گی اور بلاک ایلوکیشن میں مختص فنڈز کے ذریعے اہم اور ترجیحی منصوبوں کے لیے مزید فنڈز فراہم کرے گی۔

منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ظفر پلیجو نے بتایا کہ اضافی65 ملین گیلن روزانہ فراہمی آب کا یہ منصوبہ کینجھر جھیل سے پیپری پمپنگ اسٹیشن 58کلومیٹر تک تعمیر کیا جائے گا منصوبے کے 4 ترقیاتی فیز ہیں منصوبہ پر تعمیراتی لاگت 5.9 ارب روپے آرہی ہے جس میں فلٹر پلانٹ شامل نہیں ہے جس کے لیے نظرثانی پی سی ون تشکیل دیا جارہا ہے جس کے بعد اس کی لاگت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

پیکج ون پر تعمیرات کا آغاز ہو چکا ہے جس میں کینجھر گجو کینال سے گھارو پمپنگ اسٹیشن تک 14.5کلومیٹر کھلی آر سی سی کینال اور 5کلومیٹر کنڈیوٹ تعمیر کی جائے گی اس کے ساتھ ہی ہالیجی جھیل کا احیا کیا جائے گا جس میں نئے گیٹ کی تنصیب اور ہالیجی جھیل کی صفائی شامل ہے ہالیجی جھیل سے پانی کی ایک لائن نئی آرسی سی کینال سے ملادی جائے گی۔

پیکج ٹو کے تحت گھارو پمپ ہائوس کی تعمیر کی جائے گی جس کے لیے رواں ماہ ٹینڈر کا رروائی مکمل کرکے ترقیاتی کام شروع کردیا جائے گا، پیکج تھری میں گھارو پمپنگ اسٹیشن سے فوربے (دھابیجی ٹرمینل پوائنٹ) 11کلومیٹر 72انچ پائپ کی تنصیب پر مشتمل ہے اس پر بھی رواں ماہ کام شروع کردیا جائے گا، پیکج فور میں فوربے سے پیپری پمپنگ اسٹیشن28کلومیٹر کنڈیوٹ کی تعمیر شامل ہے، یہ ترقیاتی پیکج 3 ماہ بعد شروع کیا جائے گا۔

پروجیکٹ ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ فراہمی آب کا طریقہ کار اس طرح ہوگا کہ کینجھر جھیل سے45 ایم جی ڈی اور ہالیجی جھیل سے 20 ایم جی ڈی فراہم ہوگا ہالیجی جھیل کے احیا کا بنیادی مقصد فراہمی آب کا متبادل نظام قائم کرنا ہے اور یہاں آبی پرندوں کی آمد اور ان کی افزائش نسل کی دوبارہ بحالی ہے۔

ہالیجی جھیل انگریزوں نے کراچی کوفراہمی آب کیلیے بنائی تھی

ہالیجی جھیل ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کی ملکیت ہے یہ مصنوعی جھیل برٹش راج میں دوسری جنگ عظیم کے موقع پر کراچی میں مقیم برطانوی اور امریکی سپاہیوں کو پانی کی فراہمی کے لیے بنائی گئی تھی وہاں سے کارساز کراچی تک فراہمی آب کا نظام تعمیر کیا گیا یہ بات پروجیکٹ ڈائریکٹر طفر پلیجو نے بتائی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ 1942 میں یہ جھیل آپریشنل کرکے کراچی کو پانی کی فراہمی شروع کی گئی ہالیجی جھیل سے 1994 تک کراچی کو20 ملین گیلن پانی کی فراہمی جاری تھی تاہم رائٹ بینک آئوٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) منصوبے کی تعمیر کی وجہ سے ہالیجی جھیل کو دریائے سندھ سے ملانے والی کینال بند کردی گئی جس سے کراچی کو پانی کی فراہمی بھی رک گئی بعدازاں آربی او ڈی منصوبہ بھی تعطل کا شکار ہوگیا۔

ہالیجی جھیل میں دریائے سندھ سے پانی کی فراہمی معطل ہونے سے پانی کا لیول نہایت کم ہوگیا ہے اور آلودگی بھی بڑھ گئی حکومت سندھ نے 5 سال قبل ہالیجی جھیل کے قریب آر بی او ڈی کا ترقیاتی کام مکمل کرلیا اور دریائے سندھ سے آنے والی کینال کو بھی ہالیجی جھیل سے جوڑ دیا ہے۔

دریائے سندھ سے ابھی ہالیجی جھیل میں پانی کی فراہمی روکی ہوئی ہے کیونکہ اس سے قبل واٹر بورڈ جھیل کی صفائی کرے گا جہاں کافی silt جمع ہے جھیل میں نئے گیٹ بھی نصب کیے جائیں گے اس پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد ہالیجی جھیل سے کراچی کو تازہ وصاف پانی کی فراہمی شروع ہوجائے گی۔

کراچی کے شہری12 سال سے پانی کے کوٹے سے محروم

کراچی کیلیے 1985 میں 1200 کیوسک (650ایم جی ڈی) کا کوٹہ دریائے سندھ سے منظور کیا گیا تھا جو 65 ایم جی ڈی منصوبے کی تکمیل کے بعد مکمل ہوجائیگا اصولی طور پر یہ منصوبہ 2006 میں K-III کے فراہمی آب کے منصوبے 100ایم جی ڈی کی تکمیل کے بعد شروع ہوجانا چاہیے تھا تاہم اس وقت واٹر بورڈ کی انتظامیہ نے اس منصوبہ کی تشکیل کے بجائے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے دریائے سندھ سے اضافی 1200 کیوسک (650ایم جی ڈی) کے کوٹے اور فنڈز کا مطالبہ کیا جس کیلیے کے فور منصوبہ تشکیل دیا گیا۔

اس ضمن میں طویل جدوجہد کے بعد دریائے سندھ سے ابھی صرف260 ملین گیلن کا اضافی فراہمی آب کو کوٹہ منظور ہوا ہے جس کے تحت کے فور فیز ون گزشتہ سال سے زیر تعمیر ہے واٹر بورڈ کی اس غفلت کا خمیازہ شہریوں کو بھگتنا پڑرہا ہے جو 12سال منظور کردہ کوٹے کے باوجود پانی کے بحران کا شکار ہیں۔

شہر میں پانی کا بدترین بحران جاری ہے ماہ رمضان میں یہ بحران مزید سنگین ہوگیا ہے اگر یہ منصوبہ بروقت مکمل کرلیا جاتا تو  پانی کے بحران میں کسی قدر کمی لائی جاسکتی تھی تاہم منتخب صوبائی حکومتوں اور بیوروکریسی نے  شہریوں کے بنیادی حقوق کا قطعاً خیال نہ رکھا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔