نگران سیٹ اپ کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہو سکے گا؟

جی ایم جمالی  بدھ 23 مئ 2018
صوبے میں نگران سیٹ اپ کے لیے آئندہ ایک دو روز میں پیش رفت ہو سکتی ہے فوٹو : فائل

صوبے میں نگران سیٹ اپ کے لیے آئندہ ایک دو روز میں پیش رفت ہو سکتی ہے فوٹو : فائل

 کراچی: سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے مسلسل دس سال مکمل ہونے والے ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد نئی نگران حکومت قائم ہو جائے گی۔ تادم تحریر نگران وزیر اعلی کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے مابین کوئی متفقہ نام سامنے نہیں آیا ہے اور اتفاق ہونا مشکل نظر آ رہا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے نہ صرف اہداف مختلف ہیں بلکہ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بہت دور جا چکی ہیں۔ البتہ کچھ قوتیں ایسی بھی سرگرم ہیں، جو انہیں نگران سیٹ اپ پر متفق کر سکتی ہیں۔ کراچی سمیت پورے سندھ میں آئندہ عام انتخابات کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں اور نئی صف بندیوں کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

صوبے میں نگران سیٹ اپ کے لیے آئندہ ایک دو روز میں پیش رفت ہو سکتی ہے کیونکہ وقت بہت کم ہو گیا ہے۔ آج سندھ اسمبلی آئندہ بجٹ کی منظوری دے سکتی ہے۔ اس کے بعد کسی بھی وقت وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کے درمیان نگران وزیر اعلی کے معاملے پر ملاقات ہو سکتی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے نگران وزیر اعلی کے لیے فضل الرحمن ، حمیر سومرو ، جسٹس (ر) غلام سرور کورائی ، ڈاکٹر یونس سومرو ، سونو خان بلوچ اور غلام علی پاشا کے ناموں پر غور کیا گیا۔ ان کے علاوہ بیرسٹر مرتضٰی وہاب اور پروفیسر این ڈی خان کے ساتھ ساتھ جسٹس (ر) دیدار حسین شاہ کے نام بھی لیے جا رہے ہیں۔

فضل الرحمن سابق چیف سیکرٹری سندھ ہیں اور وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ذوالفقار ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایم ڈی کے علاوہ سندھ حکومت کے کئی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ انہیں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری کا قریبی تصور کیا جاتا ہے۔

وہ اردو بولنے والے ہیں اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے بھی ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ حمیر سومرو سندھ کے دو مرتبہ 1938 اور 1941 ء میں وزیر اعلی رہنے والے اللہ بخش سومرو کے پوتے اور سابق صوبائی وزیر رحیم بخش سومرو مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ انہوںنے امریکا سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے۔

وہ اس وقت انڈس ریلی اسکول آف آرٹ اینڈ کلچر کے ایڈمنسٹریٹر ہیں لیکن سیاسی طور پر بھی بہت متحرک ہیں۔ جسٹس (ر) غلام سرور کورائی حکومت سندھ کے زیر انتظام چلنے والے کالجز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ہیں جبکہ ڈاکٹر یونس سومرو معروف آرتھو پیڈک سرجن ہیں۔ سونو خان بلوچ صوبائی الیکشن کمشنر رہے ہیں اور غلام علی پاشا سندھ کے قائم مقام چیف سیکرٹری سمیت کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ جسٹس (ر) دیدار حسین شاہ کا نام بھی نگران وزیر اعلی کے طور پر لیا جا رہا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کی صحت زیادہ بہتر نہیں ہے ۔

ایم کیو ایم کی طرف سے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد، آفتاب شیخ سمیت دیگر نام سامنے آ سکتے ہیں لیکن دونوں طرف سے اب تک سامنے آنے والے ناموں کے علاوہ کوئی اور نام بھی اچانک سامنے آ سکتا تھا۔ پیپلز پارٹی کی کوشش یہ ہو گی کہ وزیر اعلی اور اپوزیشن لیڈر کے مابین ملاقات کے دوران ہی نگران وزیر اعلی کے نام پر اتفاق ہو جائے لیکن ایسا مشکل نظر آتا ہے۔ ایم کیو ایم کی یہ کوشش ہو گی کہ معاملہ الیکشن کمیشن میں جائے کیونکہ وہاں اس کے امیدوار کے لیے نگران وزیر اعلی نامزد ہونے کا امکان موجود ہے۔ کل تک صورت حال واضح ہو جائے گی۔

دوسری طرف عام انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ میں سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں تیزکر دی ہیں۔ رمضان المبارک اور سخت گرمیوں کے باوجود یہ سرگرمیاں جاری ہیں۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی پر سب سیاسی قوتوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ، پاک سرزمین پارٹی ، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قیادت میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں پر مشتمل پاکستان عوامی اتحاد کراچی میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہیں کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ایم کیو ایم میں دھڑے بندیوں کے بعد وہ کراچی میں پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو پر کر سکتی ہیں۔

سندھ کے دیگر اضلاع میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) میں شامل سیاسی جماعتیں نہ صرف ایک ہی انتخابی نشان سے الیکشن لڑیں گی بلکہ ان کے امیدوار بھی مشترکہ ہوں گے ۔ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ اور حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا جی ڈی اے کی قیادت کر رہے ہیں ۔ جی ڈی اے نے الیکشن کمیشن میں ایک سیاسی اتحاد کے طور پر رجسٹریشن کرا لی ہے ۔

پیپلز پارٹی کے مقابلے میں جی ڈی اے نے پورے سندھ میں امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اگلے روز جماعت الدعوہ اور ملی مسلم لیگ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے پیر پگارا سے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور سندھ میں آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا ۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف بھی سندھ میں بہت متحرک ہے ۔ توقع کی جا رہی تھی کہ سندھ کی بعض اہم سیاسی شخصیات تحریک انصاف میں شرکت کریں گی لیکن ان اہم شخصیات نے ابھی اپنی شمولیت بوجوہ موخر کر دی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک وفد نے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنماؤں سید زین شاہ اور دیگر سے حیدر منزل پر ملاقات کی ۔ تحریک انصاف اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی نے آئندہ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق کیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ سندھ میں سیاسی صف بندیاں مزید واضح ہوں گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔