ایک نئی اقوام متحدہ کی ضرورت

فلسطین اور کشمیر میں بے گناہ انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ کی زبان پر تالے لگے ہوئے ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari May 24, 2018
[email protected]

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر بڑی طاقتوں کے رہنماؤں کو یہ خیال آیا کہ جنگوں کی تباہ کاریوں سے دنیا کو بچانے کے لیے ایک ایسے عالمی ادارے کی ضرورت ہے، جو دنیا میں امن برقرار رکھے اور جنگوں کی تباہ کاریوں کو روکنے کی خدمات انجام دے ۔ جب اس خیال سے اتفاق کیا گیا تو اقوام متحدہ کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا گیا۔

یہ ایک اچھا منصوبہ تھا کیونکہ اس میں دنیا کے تمام ملکوں کو نمایندگی دی گئی تھی لیکن اس ادارے کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ادارے پر عملاً امریکا اور اس کے سامراجی اتحادیوں کا قبضہ ہوگیا ہے اور یہ ادارہ اب بڑی طاقتوں کا غلام بن کر رہ گیا ہے ۔

ادارے کے مقاصد میں دنیا میں جنگوں کو روکنا ایک اہم ذمے داری تھی لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد کوریا کی جنگ ہوئی، ویت نام کی جنگ ہوئی جن میں لاکھوں انسان مارے گئے۔ یہ جنگیں بڑی طاقتوں کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی جنگیں تھیں اور بڑی طاقتوں کے مفادات پورے ہونے تک جاری رہیں۔

کوریا اور ویت نام کی جنگیں تو اب پرانی بات ہوگئیں لیکن اس المیے کو کیا کہیں کہ عراق اور ایران کی جنگیں ماضی قریب اور حال کی جنگیں ہیں جو سامراجی مفادات کے تحت لڑی گئیں اور لڑی جا رہی ہیں اور اقوام متحدہ ان جنگوں کو روکنے میں ناکام ہے۔ افغانستان کی جنگ تو دہشت گردی کے نام پر لڑی جا رہی ہے لیکن عراق کی جنگ تو مکمل طور پر سامراجی مقاصد کی جنگ تھی ، جو اس بہانے پر شروع کی گئی تھی کہ عراق کے صدر صدام حسین نے خوفناک ہتھیاروں کا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے یہ ایک جھوٹا الزام تھا۔

کشمیر اور فلسطین میں بھی ستر سال سے خونریزی جاری ہے، اس حوالے سے اقوام متحدہ نے کئی قراردادیں پاس کیں لیکن انھیں بھارت اور اسرائیل نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا اور اقوام متحدہ مٹی کے مادھو کی طرح خاموش ہے ۔اس لیے کہ بھارت سے اس کے سیاسی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہیں اور اسرائیل تو اس کا لے پالک ملک ہے جسے مشرق وسطیٰ میں وہ بالادست قوت کے طور پر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اقوام متحدہ نہ بھارت کا کچھ بگاڑ سکتی ہے نہ اسرائیل کا بال بیگا کرسکتی ہے جب اقوام متحدہ اتنی لاچار اور مجبور ہے تو پھر اس کی موجودگی کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے ؟

امریکا کے عالمی مفادات کا تقاضا ہے کہ وہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ایک بالادست قوت کے طور پر زندہ رکھے سو فلسطین میں کتنے ہی ظلم ہوں ۔اقوام متحدہ منہ بند کیے ہی بیٹھی رہے گی ۔ بھارت سے امریکا کی گہری دوستی کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اس خطے میں چین کے خلاف جو حصار قائم کرنا چاہتا ہے، بھارت اس حصار کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور بھارت جو ماضی میں غیرجانبدار ملکوں کا سربراہ تھا اور جس کی وجہ سے ساری دنیا میں اس کی عزت کی جاتی تھی۔

اب اپنے ریاستی مفادات کی خاطر اس قدر خود غرضی کا شکار ہے کہ امریکا سے فوجی معاہدوں میں جکڑگیا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل اور کشمیر میں بھارتی افواج بے گناہ انسانوں کا خون پانی کی طرح بہا رہی ہیں اور اقوام متحدہ کی زبان پر تالے لگے ہوئے ہیں۔کیا ایسی مجبور و بے بس اقوام متحدہ کا باقی رہنا ضروری ہے؟

اب دنیا بہت بدل گئی ہے یہ ایک ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ ساتھ ایٹمی دنیا بھی ہے، اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے بھارت بھی ایک ایٹمی طاقت ہے۔ ابھی حال میں شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان کشیدگی اتنی شدت اختیارکرگئی تھی کہ دونوں ملکوں اور جنوبی کوریا کے سرپرست امریکا کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا اور اقوام متحدہ گونگی بہری بنی بیٹھی تھی۔ وہ تو چین کی کوششیں تھیں کہ یہ ممکنہ ایٹمی جنگ رک گئی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان جو تضادات ہیں کیا وہ کسی وقت سنگین صورت اختیار نہیں کرسکتے؟

اگر اس قسم کے امکانات موجود ہیں تو پھرکیا موجودہ اقوام متحدہ ایسی ممکنہ جنگوں کو روکنے کی اہل ہے؟ اس حوالے سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ سے جڑی طاقتوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے؟ لیکن موجودہ عالمی حالات میں اس قسم کی توقع کو ''ای خیال است و محال است و جنوں'' کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے ؟

فلسطین کا مسئلہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے، مغربی ملکوں اور برطانیہ بہادر نے اسرائیلی بے گھروں کو اسرائیل کی شکل میں ایک گھر تو دلا دیا لیکن لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کردیا ۔ کیا فلسطینیوں کو ایک گھر نہیں ملنا چاہیے؟ امریکا بہادر دو ملکوں کا حامی تو ہے لیکن فلسطین کا ملک زبانی کلامی بکواس سے بن سکتا ہے؟ جب امریکا قولاً فلسطینوں کے لیے ایک ملک کی حمایت کرتا ہے تو عملاً اس پر عملدرآمد سے پہلو تہی کیوں کرتا ہے ؟

اقوام متحدہ کا ایک اعلیٰ ادارہ سلامتی کونسل ہے ، سلامتی کونسل پر بھی بڑی طاقتوں کی اجارہ داری ہے ۔ جب سلامتی کونسل میں اکثریت سے ایک فیصلہ کیا جاتا ہے تو بڑی طاقتیں اسے ویٹو کردیتی ہیں۔ ویٹو کے اختیار سے سلامتی کونسل ایک ڈمی ادارہ بن کر رہ گئی ہے ۔ سلامتی کونسل کے اراکین میں اضافے کا مسئلہ بھی بڑی طاقتوں کی کھینچا تانی کی وجہ سے ایک عرصے سے اٹکا ہوا ہے ،عملاً اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں بندر کے ہاتھ میں ناریل بن کر رہ گئی ہے ۔

مغربی ملک جمہوریت کے بڑے حامی ہیں دنیا میں فوجی حکومتوں کے سخت خلاف ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلامتی کونسل جمہوریت کی پیروی کرتے ہوئے کسی مسئلے کا فیصلہ اکثریت سے کرتی ہے تو اسے بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے مطابق ویٹو کر دیتی ہیں۔ کیا یہ پریکٹس جمہوریت کے منافی نہیں؟

سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے دنیا کے مسائل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ایک نئی آزاد اور خودمختار اقوام متحدہ کی ضرورت ہے ۔ دنیا کا سب سے بڑا براعظم ایشیا ہے جس کی آبادی دوسرے براعظموں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے انصاف اور جمہوری قدروں کے مطابق اقوام متحدہ کا صدر دفتر ایشیا کے کسی ملک میں ہونا چاہیے اگر ایسا ہوا تو پھر یہ نئی اقوام متحدہ حقیقی معنوں میں اقوام متحدہ بن جائے گی اور نفسیاتی طور پر یہ نئی اقوام متحدہ بڑی طاقتوں کے دباؤ سے آزاد ہوگی اور دنیا کو جنگوں سے بچانے اور عالمی امن کے قیام کی راہ ہموار ہوگی۔

مقبول خبریں