انصاف دہلیز تک

ارمغان قیصر  ہفتہ 26 مئ 2018
اگر قانون حکومت کا آقا ہو اور حکومت اس کی غلام، تو لوگ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو خدا کی طرف سے ریاست کو عطا ہوتی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اگر قانون حکومت کا آقا ہو اور حکومت اس کی غلام، تو لوگ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو خدا کی طرف سے ریاست کو عطا ہوتی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

’’تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ… تاریخ پر تاریخ ملتی رہتی ہے لیکن انصاف نہیں ملا۔ مائی لارڈ! ملی ہے تو صرف یہی تاریخ۔‘‘ ان مشہور فلمی ڈائیلاگز کا شمار سدا بہار مکالموں میں ہوتا ہے اور آج بھی ان کی گونج اسی طرح سنائی دیتی ہے۔ میرا دوست جو وکیل کا منشی ہے، اس کا تو یہ کہنا ہے کہ انصاف، ناانصافی اور بدعنوانی، یہ تینوں بھائی بہن ہیں؛ تھانہ کچہری ان کے ممی ڈیڈی ہیں اور ان کا گھر ہمارا معاشرہ ہے۔

مجھے اپنے منشی دوست کی بات سے سو فیصد اتفاق ہے۔ مجھے اس ہیرو کی طرح پھیپھڑے پھاڑ کر تاریخ پر تاریخ کی دُہائی بھی سمجھ میں آتی ہے مگر یہ ترقی پذیر ممالک کا ایک عمومی مسئلہ ہے۔ ہم نے اپنی والی جمہوریت کو منہ پھٹ اور بھاری بھرکم مکینزم والی بنادیا ہے جو اخلاقی اعتبار سے اچھے قوانین وضع کرنے کی صرف یقین دہانی کرواتی ہے لیکن عملی طور پر ایسے تمام اقدامات سے گھبراتی ہے جن سے معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہو۔

افلاطون کا اصرار تھا کہ حکومت کو قانون کا پابند ہونا چاہیے۔ جہاں قانون کسی اتھارٹی کے ماتحت ہوتا ہے اور بذات خود کوئی طاقت نہیں رکھتا وہاں اس کی نظر میں ریاست کا انہدام زیادہ دور نہیں رہتا۔ لیکن اگر قانون حکومت کا آقا ہو اور حکومت اس کی غلام ہو تو پھر صورت حال خوش آئند ہوتی ہے اور لوگ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو خدا کی طرف سے ریاست کو عطا ہوتی ہیں۔

جس معاشرے میں انصاف نہیں ہوگا وہاں بیک وقت بہت سی معاشرتی، معاشی، اخلاقی برائیاں یا جرائم عروج پر ہوں گے۔ ہمارے ہاں قانون سازی کا اختیار جن کے پاس ہے شاید ان کے پاس قانون سازی اور اسے اپ ڈیٹ کرنے کاوقت کم ہی ہوتا ہے؛ اور نتیجہ یہ کہ جب بہت سے مسائل مقامی سطحوں پر یا اپنے مناسب پلیٹ فارمز پر حل نہیں ہوتے تو وہ گھسٹتے گھسٹتے عدالتوں کے ترازو میں جا گرتے ہیں۔

عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات بہت زیادہ ہیں۔ تیس تیس سال پرانے کیسز عدالتوں میں پڑے ہیں۔ عدالتوں میں پیش ہونے والا سائل ہر تاریخ پر جیتا مرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ نے 10 دسمبر 1948 کو انسانی حقوق کا عالمی منشور منظور کرکے اس کا باضابطہ اعلان کیا تھا کہ تمام رکن ممالک اپنے عوام کو بلاامتیاز اس منشور میں دیئے گئے تمام معاشرتی، معاشی اور سیاسی حقوق دیں اور ان حقوق کی حفاظت کریں تاکہ دنیا میں پائیدار امن قائم ہو اور ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہوسکے۔

معاشرے میں قوانین اور سزاؤں کے نفاذ کی مرکزی وجہ معاشرے میں توازن قائم کرنا ہوتا ہے تاکہ ایک فرد، ایک ادارہ، ایک کردار دوسرے فرد، ادارے یا کردار کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کرے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے انڈیکس کے مطابق ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک میں سماجی حقوق کی عدم فراہمی کی وجہ سے انصاف کا معیار بہت نچلی سطح پر ہے۔ مغربی ممالک میں عمومی رائے ہے کہ ہر طبقہ قانون کے دائرہ کار میں آتا ہے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جاتی یعنی قانون سب کےلیے مساوی ہے۔ جہاں اس طرح کی ذہنیت ہو وہاں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔

ریاست بہت سے اداروں کا مجموعہ ہوتی ہے اور جب یہ سب ادارے مل کر پوری فعالیت، خودمختاری اور مربوط ہم آہنگی سے اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہوں تو عوام کو بہترین سہولیات بلاتعطل حاصل ہوتی رہتی ہیں اور یوں ایک بہترین مثبت معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ٹکراؤ کی پالیسی ہر سطح پر معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے۔

اس وقت ہم جس طرح کے مسائل کا شکار ہیں، ایسے میں ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا اور ہنگامی طور پر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے معاشرے میں توازن قائم ہو اور بلاامتیاز فوری انصاف کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ عدالتی نظام میں جو پیچیدگیاں ہیں انہیں دور کرنا دور حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر اداروں کے اختیارات مختلف شعبوں میں مزید تقسیم کرنا ہوں گے۔ ان شعبوں میں مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، میونسپل، ریجنل، ضلعی، صوبائی اور قومی سطح پر اختیارات کی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم تمام تر اختیارات کو ایک ادارے میں جمع ہونے سے روک کر سب شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کرے گی۔

ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق کچھ بنیادی عناصر پر عمل کرنے سے لوگوں کو یکساں انصاف کے مواقع میسر آسکتے ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل اہم ہیں:

  • حکومتی اختیارات پر کنٹرول۔
  • بدعنوانی میں کمی۔
  • آزادانہ حکومتی پالیسی۔
  • بنیادی حقوق کی پاسداری۔
  • امن و امان کی بہتر صورت حال۔
  • سماجی انصاف کی نچلی سطح تک فراہمی۔
  • جرائم کی روک تھام کےلیے واضح انصاف کا نظام جو شفافیت پر مبنی ہو۔
  • پنچایتی نظام کی ازسرنو تشکیل (عدلیہ کے زیر نگرانی)۔
  • شفاف میرٹ سسٹم۔
  • فنڈ کا قیام جو غریب کو بغیر فیس کے مقدمے میں مدد دے۔

اس کے بعد عدالتی اصلاحات کی جاسکتی ہیں جن میں انصاف دہلیز تک پہنچانے کےلیے موبائل کورٹس کا قیام، کیس مینیجمنٹ (Case Management) کےلیے ماسٹر پلان کی تیاری، عدلیہ کی جانب سے کمیٹیوں کی ازسرِنو تشکیل (جن میں انتظامی امور، کیس مینیجمنٹ اور مانیٹرنگ کمیٹی وغیرہ شامل ہوں) جیسے اقدامات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

مزید برأں جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ’’الیکٹرونک کورٹ سسٹم‘‘ کا نفاذ قابل عمل بنایا جاسکتا ہے؛ گواہوں کے بیانات کی آڈیو ریکارڈنگ بھی کارروائی تیز کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے؛ معزز ججوں کی ٹریننگ کےلیے نصاب میں فلسفہ، تاریخ، سیاسیات اور انسانی نفسیات کے ساتھ ساتھ بشریات (anthropolgy) کے مضامین بھی شامل کیے جائیں؛ انصاف کی فراہمی کےلیے ایسے سافٹ ویئر سے استفادہ کیا جائے جیسے ترقی یافتہ ممالک میں استعمال کیے جاتے ہیں؛ زیر التوا مقدمات کےلیے متوازی عدالتیں قائم کی جائیں؛ اور بنیادی حقوق سے عوامی آگہی کےلیے ادارہ قائم کیا جائے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ قانون پیدائشی طور پر بے اختیار ہوتا ہے۔ یہ صرف اس وقت زندگی پاتا ہے جب افراد کی طرف سے اسے سمجھا، اپنایا اور نافذ کیا جاتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔