مغل امپائر کا تسلسل
عوام حیرت سے جمہوریت کی اس نئی برانڈ کے کھیل کو دیکھ رہے ہیں۔
دنیا کے ہر جمہوری ملک میں انتخابات سے بہت عرصہ قبل سیاسی پارٹیاں منشورکی تیاری میں لگ جاتی ہیں۔ پارٹیوں کی نظریاتی سپورٹ کرنے والے دانشور اور تھنک ٹینک قومی اور اہم بین الاقوامی مسائل کا جائزہ لے کر اپنے ملک اور عوام کے مفادات کے مطابق ایک منشور ترتیب دیتے ہیں اور اسی منشور کو لے کر عوام میں جاتے ہیں۔
جس پارٹی کے منشور کو عوام ترجیح دیتے ہیں اسے اپنے ووٹ دیتے ہیں اور اکثریت حاصل کرنے والی جماعت حکومت تشکیل دے کر اپنے منشور کے مطابق عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اگر انتخابات جیت کر حکومت بنانے والی پارٹی منشور کے مطابق عوام کے مسائل حل کرتی ہے تو اگلے الیکشن میں بھی اسے عوامی حمایت کی توقع رہتی ہے ۔
انتخابات ہارنے والی جماعتیں اپوزیشن میں بیٹھتی ہیں اور قومی مفادات اور عوام کی بہتری کے تناظر میں مثبت کاموں کی حمایت کرتی ہیں اور منفی کاموں کی مخالفت کرتی ہیں۔ اپوزیشن کی تنقید کی روشنی میں حکمران جماعت اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس سارے پروسیس میں ذاتی اور جماعتی مفادات نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
ذاتی اور جماعتی مفادات کو پس پشت ڈالنے سے عوامی مسائل اور عوامی مفادات کو اولیت حاصل ہوتی ہے، یہی جمہوریت کے بنیادی اصول ہوتے ہیں اور انھی کو جمہوری اصولوں کے مطابق چلایا جاتا ہے اور میرٹ کو ہر حال میں ترجیح دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت رواں دواں رہتی ہے۔
مغربی جمہوریت میں بھی خامیاں ہوسکتی ہیں اور اس جمہوریت کا بنیادی مقصد سرمایہ دارانہ استحصال کو چھپانا ہوتا ہے ، اس حوالے سے مغربی جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کے ہاتھ میں ڈھال بنی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ دارانہ نظام میں مختلف ملکوں کے درمیان تنازعات پیدا کیے جاتے ہیں اور ان تنازعات کی وجہ سے متحارب ملک بے تحاشا ہتھیاروں کی خریداری پر اتر آتے ہیں۔
بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری پر لگا دیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست بھاری معاوضوں پر ایسے دلال خریدتے ہیں ، جو بڑی چالاکی اور مہارت سے ملکوں کے درمیان اختلافات پیدا کرتے ہیں اور طاقت کے توازن کے نام پر متحارب ملکوں کو بڑے پیمانے پر اسلحہ خریدنے پر مجبور کردیتے ہیں۔
یہ تو ہم نے ترقی یافتہ ملکوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کی سرگرمیوں اور مقاصد کی ایک جھلک پیش کی ہے، اس سے قبل کے پسماندہ ملکوں کے جمہوری نظام اس کے مقاصد پر ایک نظر ڈالیں حال ہی میں شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان پیدا کردہ شدید کشیدگی اور اس کے ڈرامائی ڈراپ سین کے مضمرات پر ایک نظر ڈالیں گے۔
شمالی کوریا اپنے تحفظ کے لیے ایٹمی میزائل بنانا چاہتا تھا کیونکہ جنوبی کوریا کے پاس امریکا نے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر جمع کر رکھے تھے جب شمالی کوریا کی قیادت امریکی شہروں کو نشانہ بنانے کی باتیں کرنے لگی تو روس اور چین کے ذریعے دباؤ ڈال کر شمالی کوریا کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا گیا، یوں یہ بحران ختم ہوا لیکن دنیا پر اس کے گہرے سیاسی اور معاشی اثرات چھوڑگیا۔ اب فلسطین کے مسئلے کو اچھالا جا رہا ہے تاکہ دنیا مسلسل امن کے حوالے سے غیر یقینیت کا شکار رہے۔
یہ تو ہم نے ترقی یافتہ ملکوں کی سیاست اور سرمایہ دارانہ نظام کے کرتوتوں کا ایک سرسری تذکرہ کیا تھا، اب آئیے ذرا پاکستان کی جمہوریت اور سیاست پر ایک نظر ڈالیں ، ایک ہزار سال سے بھارت پر مسلمان حکمران برسر اقتدار رہے جب کہ بھارت کی آبادی میں ان کی تعداد بارہ فیصد سے زیادہ نہ تھی۔ اس 1000 سالہ اقتدار کا نفسیاتی اثر یہ ہوا کہ تقسیم کے بعد جب پاکستان قائم ہوا تو عملاً اس ملک پر اشرافیہ یعنی مغلوں کی مصنوعی اولاد نے قبضہ کرلیا، اگرچہ یہاں بھی جمہوریت کا پروپیگنڈا کیا گیا لیکن درحقیقت اس ملک میں اشرافیہ کا راج رہا اور ہے۔ شاہی شخصی اور خاندانی نظام کو پاکستان پر بتدریج مسلط کیا گیا، اب صورتحال یہ ہے کہ ہماری جمہوریت ولی عہدی نظام میں بدل گئی ہے۔
1958 سے 1971 تک ایوب خان اور یحییٰ خان کی مارشل لائی حکومت مسلط رہیں ایوب حکومت کے ایک متحرک وزیر بھٹو نے ایوب خان سے معاہدہ تاشقند کے حوالے سے مخالفت شروع کی اور اس سیاست کے ذریعے اپنی شناخت بنائی۔ 1970 میں جب یحییٰ خان نے انتخابات کروائے تو مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی اور مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ بھاری اکثریت سے جیت گئی۔ جیت کے حوالے سے مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کا حق تھا لیکن شاہانہ مزاج کے حامل بھٹو کو اکثریتی پارٹی کا اقتدار منظور نہ تھا سو محترم نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگایا یوں پاکستان دولخت ہوگیا۔
بھٹو صاحب باقی ماندہ پاکستان پر حکومت کرنے لگے۔ 1977 میں سیاستدانوں کی حماقت اور بدنیتی سے تحریک چلائی گئی۔ یہ جمہوری تحریک ضیا الحق کے مارشل لا پر ختم ہوئی، بھٹو غالباً پاکستان کا واحد حکمران تھا جس کے ترقی پسند دوستوں نے ایک منشور ترتیب دیا اور کچھ مقبول انتخابی نعرے ایجاد کیے، اگر بھٹو جمہوریت کے حامی ہوتے تو 1970 کے الیکشن کا رزلٹ تسلیم کرلیتے لیکن بھٹو کا تعلق ایک جاگیردار گھرانے سے تھا سو بھٹو نے 1970کے الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور خود پاکستان کے حکمران بن گئے۔
1977 میں جب بھٹو کے خلاف جمہوری تحریک چلائی گئی تو اس کا انجام ضیا الحق کے مارشل لا کی شکل میں سامنے آیا۔ ضیا الحق کو بھٹو کی مقبولیت سے خطرہ تھا سو اس نے بھٹو کو سزائے موت دلوا دی۔ بھٹو کے بعد اس کے وارثوں نے اپنی صلاحیتوں کے بجائے بھٹو کی شہادت کے نام پر سیاست شروع کی اور اقتدار میں آتے رہے آخر کار بھٹو کی جمہوریت ولی عہدی نظام میں بدل گئی۔
فوجی آمر ضیا الحق نے سیاست میں شریف خاندان کو متعارف کرایا اور شریف خاندان آہستہ آہستہ ولی عہدی نظام میں بدل گیا ، نواز شریف تین بار اس ملک کے وزیر اعظم رہے جب انھیں کرپشن کے الزامات میں نکالا گیا اور تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا تو وہ اب اقتدار کے لیے ساری اخلاقی حدوں کو پار کر رہے ہیں ۔ن لیگ نے بھی ولی عہدوں کی ایک منڈی بنادی ہے۔ دوسرے ملکوں میں بلدیاتی نظام کی سیڑھی چڑھ کر صوبائی اور قومی سطح کے انتخابات میں حصہ لیا جاتا ہے ہمارے ملک میں سیاسی رہنما ٹارزن کی طرح عوام کے سروں پر مسلط ہوجاتا ہے۔
ہماری سیاست باری باری کے کھیل میں بدل گئی تھی کہ مڈل کلاسوں کے ایک بندے نے باری باری کے شاہی کھیل میں کھنڈت ڈال دی ہے ، عوام حیرت سے جمہوریت کی اس نئی برانڈ کے کھیل کو دیکھ رہے ہیں، اقتدار کی خواہش جنوں میں بدل گئی ہے۔ یہ جنوں کیا گل کھلاتا ہے اس کے لیے زیادہ انتظار کی ضرورت نہیں۔