فٹ پاتھ: زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟

محمد علی خان  پير 4 جون 2018
فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کو یا تو میسر نہیں، یا اگر ہیں تو وہ اتنے خطرناک ہیں کہ اس سے بہتر سڑک پر چلنا ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کو یا تو میسر نہیں، یا اگر ہیں تو وہ اتنے خطرناک ہیں کہ اس سے بہتر سڑک پر چلنا ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

چاروں طرف ٹریفک کا اِزدِحام تھا، گرمی کی شدت بے حال کیے جارہی تھی، دل چاہا کہیں سائیڈ پر کھڑا ہوجاؤں مگر تاحد نگاہ کھڑے ہونے کےلیے مناسب جگہ نہیں مل رہی تھی۔ گاڑیاں اور لوگ سڑکوں پر ہی رواں دواں تھے، سست رفتاری سے ٹریفک آگے بڑھ رہی تھی کیونکہ پیدل چلنے والوں کی مختص کردہ جگہ یعنی شہر کراچی کے فٹ پاتھ تجاوزات کی نذر ہوگئے ہیں۔ گرین بیلٹ یا شجر کاری کا تصور ہی ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ آپ دو کروڑ آبادی والے شہر کے کسی شخص سے پوچھ لیجیے کہ اس نے آخری درخت کب لگایا تھا تو وہ آپ کو نیچے سے اوپر تک دیکھے گا، آپ کی ذہنی حالت پر شبہ کا اظہار کرے گا اور بڑبڑاتا ہو آگے چل دے گا۔

بھلا غم روزگار میں جکڑے شخص کو شجرکاری یا فٹ پاتھ کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا مطلب؟

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یونانیوں کے شہر کورینتھ (Corinth) میں چوتھی صدی عیسوی میں فٹ پاتھ بنائے گئے تھے۔ رومن بھی فٹ پاتھ بڑے اہتمام سے بنایا کرتے تھے۔ 1671 میں عام شاہراہوں کی صفائی اور فٹ پاتھ کےلیے قوانین بنائے گئے تھے۔ 1766 میں لندن شہرمیں روشنی، صفائی اور پیدل چلنے والوں کے فٹ پاتھ کے اہتمام کےلیے قانون سازی ہوئی۔ انیسویں صدی کے آغاز میں یورپی ممالک کے تقریباً تمام دارالحکومتوں میں کھلے فٹ پاتھوں کا اہتمام تھا۔

حادثات کی روک تھام میں بھی فٹ پاتھ کا واضح کردار ہے۔ 2005 میں فلوریڈا ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ ایک مخصوص علاقے اور وقت تک محدود تحقیق پر مبنی اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاطر خواہ فٹ پاتھ کی تعمیرکی بدولت حادثات میں 74 فیصد کمی آئی۔

اسی طرح امریکی ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کےلیے نارتھ کیرولائنا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق فٹ پاتھ کی تعمیر سے حادثات کا خطرہ 88.2 فیصد کم ہوجاتا ہے۔

ان اعداد و شمارسے اگر کلی طور پر اتفاق نہ بھی کیا جائے تب بھی یہ بات تو واضح ہے کہ فٹ پاتھ کی عدم موجودگی حادثات کے چند بڑے اسباب میں سے ایک ہے۔

فٹ پاتھ جہاں سڑک کے ساتھ پیدل چلنے والوں کی آسانی اور حفاظت کےلیے ضروری ہیں وہیں سڑک پر ٹریفک کو رواں رکھنے اور حادثات سے بچنے کےلیے بھی اہم ہیں۔ دیہاتوں میں کھلی جگہوں، آبادی اور ٹریفک کی کمی وجہ سے فٹ پاتھ شاید ضروری نہ ہوں لیکن شہروں میں تو سڑک کے دونوں طرف ناگزیر ہیں۔

ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ بڑے شہروں میں بھی اکثر مقامات پر سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ بنانے کاکوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ اس وقت افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہائی اسٹریٹ میں بھی فٹ پاتھ نہیں ہوتا۔ ہائی اسٹریٹ شہر یا قصبے میں اُس مقام کو کہتے ہیں جہاں تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ جن سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھ ہیں بھی، وہ باقاعدہ فٹ پاتھ کا درجہ نہیں رکھتے۔ مطلب یہ کہ فٹ پاتھ اور سڑک کے درمیان حدِ فاصل نہیں جس کی وجہ سے موٹرسائیکل حتیٰ کہ چھوٹی گاڑی بھی اس پر آسانی سے چڑھ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ فٹ پاتھ چوڑائی کے لحاظ سے ناکافی، جگہ جگہ سے ٹوٹے ہوئے اور کھلے مین ہول کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ اکثر مقامات پر دکانداروں نے فُٹ پاتھ تک اپنی دکانیں بڑھالی ہیں یا پھر چھابڑی والوں، ریڑھی والوں، اتائیوں اور فال بتانے والوں نے اسے کرائے پر لے لیا ہے۔ ہوٹلوں اور گاڑیوں کی ورکشاپوں کا کاروبار تو شاید فٹ پاتھ کے بغیر ’’ممکن‘‘ ہی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ صرف فٹ پاتھ پر ہی اکتفا کرتے تو بھی خیر تھی لیکن یہ تو سڑک کے عین درمیان تک قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ مانگنے والوں کا حق اس کے علاوہ ہے۔ رات کا معاملہ البتہ اور ہے جب یہی فٹ پاتھ بے چارے، بے گھر اور بے در لوگوں کی قیام گاہ کا کام دیتے ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کو یا تو میسر نہیں، یا اگر ہیں تو وہ اتنے خطرناک ہیں کہ اس سے بہتر سڑک پر چلنا ہوتا ہے۔

کراچی شہر کو گرین بس کا تحفہ دینے کے نام پر صرف ایک بس چلانے کےلیے تیس فٹ کی سڑک غائب کردی گئی اور موجودہ سڑکوں کو توسیع دینے کےلیے فٹ پاتھ ہی غائب کردی گئی۔

جہاں کہیں خوش قسمتی سے فٹ پاتھ موجود ہے وہ پیدل چلنے والوں کےلیے کم اور موٹر سائیکل سواروں کےلیے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ جہاں کہیں تھوڑی ٹریفک جام ہوئی، موٹر سائیکل سوار نے کمال مہارت سے گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھائی اور یہ جا وہ جا۔ کئی مقامات پر یہ منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ پیدل چلنے والے سڑک پر اور بائیک والے حضرات فٹ پاتھ پر چل رہے ہوتے ہیں۔

دوسرا سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا عوام سے تعلق ہی کیا؟ ان کی تو کلاس ہی الگ ہے۔ یہ اپنے آپ کو ایلیٹ کلاس کہلواتے ہیں، جن کی بستیاں عام لوگوں سے الگ تھلگ ہیں۔ ان کے پاس لگژری گاڑیاں ہیں۔ عام بازاروں اور شاہراہوں پر پیدل چلنا تو درکنار، ان کی گاڑیوں کی گزرگاہیں بھی الگ ہیں۔ اگر کبھی عام آبادی کی طرف آنا بھی پڑے تو حفاظت کے نام پر ان کی سہولت کےلیے ٹریفک روک دی جاتی ہے اور پیدل چلنے والوں پر دفعہ 144 کا نفاذ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فٹ پاتھ نہ ان کی ضرورت ہے نہ مسئلہ۔ لہٰذا فٹ پاتھ کی تعمیر کے سلسلے میں خاطر خواہ قوانین موجود ہی نہیں۔

جب قانون ہی موجود نہ ہوتو سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ کا منصوبہ کیونکر بنایا جائے اور بجٹ کیسے رکھا جائے؟

موٹر وے اور سڑکیں بنانے کے ماہر خادم اعلیٰ کے شہر لاہور کا حال بھی مختلف نہیں۔ سڑک اور فٹ پاتھ کے باہمی تعلق سے بھرپور لاعلمی یہاں بھی جابجا نظر آتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکز اور چاروں صوبوں کے حکمران اس مسئلے پر توجہ دیں۔

شہروں اور قصبوں میں سڑکوں کی تعمیرکے ساتھ فٹ پاتھ کی تعمیر کو لازمی کردیا جائے۔ فٹ پاتھ بھی ایسے جو سڑک سے واضح طور پر الگ ہوں۔ اس کےلیے سڑک اور فٹ پاتھ کے درمیان درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ اس طرح آلودگی میں کمی ہوگی، موسم پر خوش گوار اثرات مرتب ہوں گے اور علاقے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ صرف حکومتوں اور اداروں ہی کا نہیں، تمام سیاسی و سماجی راہنماؤں اور غیر سرکاری تنظیموں کا بھی فرض ہے کہ اس انتہائی سنگین عوامی مسئلے کی طرف حکومت کی توجہ دلائیں؛ بلکہ قانون ساز اداروں سے فٹ پاتھ کی تعمیر، مرمت، صفائی اور عوام کےلیے قابل استعمال بنانے کےلیے قانون سازی کرائی جائے۔

عام انتخابات کی آمد آمد ہے۔ 70 سال سے پانی، بجلی، گیس، سڑکیں اور نالیاں پکی کروانے کے نام پر ووٹ دینے والوں کے مطالبات میں ابھی فٹ پاتھ کی تعمیر کا مطالبہ بہت دور ہے۔ ترقی کی فٹ پاتھ پر سفر کرنا ہے تو کرپشن کے ٹریفک سے فاصلہ رکھ کر چلنا ہوگا۔ نہیں تو سڑک اور فٹ پاتھ کب ایک دوسرے میں مدغم ہوجائیں، پتا بھی نہیں چلے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد علی خان

محمد علی خان

مصنف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور بلاگر ہیں۔ سیاست کا شوق اور ادب کا ذوق رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔